بےشکل تصویریں

خدا کا شکر ہے کہ سینٹ انتخابات کا شیڈیول جاری ہوا۔کچھ کھیل تماشے تو اس شیڈیول کے قریب آتے آتے تھم گئے تھے۔باقی بھی اب لپیٹ لیے جائیں گے۔

پارلیمنٹ کو برداشت نہ کرنے والوں کی طرف سے کیے جانے والے یہ تماشے اب جاری رہنا ممکن نہیں رہاتھا۔اپوزیشن کے استعفی دینے اور اسمبلیوں کو تڑوانے کی خواہش پوری نہیں ہوسکی۔مسلم لیگ ن کی حکومت کاجیسے تیسے کرکے مدت پوری کرلینا سازشیوں کے لیے بڑی ہذیمت ہے۔سینٹ الیکشن کا شیدیول جاری ہوتے ہی سازشیوں کی طرف سے ڈرامے بازیوں کا سازو سامان لپیٹنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔بظاہر ہی لگتاہے کہ اس حکومت کے باقی ماندہ چند ہفتوں تک یہ لوگ نئی مہم جوئی سے گریز کریں گے۔ان کی توجہ اب اگلے الیکشن اور اس کے بعد کے بندوبست تک محدود رہے گی۔حکومت گرانے میں اب دلچسپی کم ہوگی۔ شیخ رشید صاحب نے اپنا استعفی دینے کا فیصلہ واپس لیکر شاید ان قوتوں کی طرف سے سیز فائر کا پیغام دیا ہے۔اب عدالت عظمی میں سابق وزیر اعظم نوازشریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی مدت کے تعین کیے جانے کے کیس کے معاملے سے بھی کچھ اچھا ہونے کی امید رکھنی چاہیے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ بددیانتی کرنے والے پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے۔اسی بنچ میں شامل جسٹس بندیال کا کہناتھاکہ ملکی قیادت کا معاملہ ہے۔اسے عام مجرموں کی طرف نہیں لے سکتے۔ہم نے واشنگ مشین اور گاڑی سے پیسے نکلتے دیکھے ہیں۔کیا ایسے افراد وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔پارلیمنٹ کی طرف سے آرٹیکل 62 میں مدت کا تعین نہ کرنا یہ ثابت کرتاہے کہ وہ نااہلی ختم نہیں کرنا چاہتی۔ناہل افراد کے خلاف جب تک ڈیکلیریشن موجود ہے۔تب تک نااہلی ختم نہیں ہوسکتی۔کیا غداری کا مجرم بھی سزاکے بعد اہل ہوجائے گا؟

پچھلے کچھ برسوں سے عوامی حلقوں میں عدلیہ کی طرف سے دیے گئے بعض ریمارکس باعث بحث بن رہے ہیں۔ابھی حال ہی میں ڈاکٹر شاہدی مسعود کیس میں عدالت کے ریمارکس کہ اکاؤنٹ ثابت کریں ورنہ آپ کے ساتھ وہ ہوگاجو سوچ بھی نہیں سکتے نے بڑی توجہ پائی تھی۔اس سے قبل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بیس سال تک یاد رکھے جانے والا فیصلہ سنانے کے ریمارکس دے کر خواہ مخواو کی بحث کی بنیاد رکھ دی تھی۔جانے عدلیہ میں اس طرح کے ریمارکس کے ذریعے کیا پیغام دینا مقصود ہوتا ہے؟جسٹس کھوسہ کے بیس سال یاد رکھے جانے والے فیصلے سنانے کے اعلان نے ان کی جانبداری پر سوالیہ نشان لگادیا تھا۔اب ڈاکٹر شاہد مسعود کو ایسی سزا سنانے کا ریماکس کے جو ڈاکٹر صاحب کی سوچ میں بھی نہ ہو عجیب ہے۔بھئی ڈاکٹر صاحب کو تو وہی سزا ملنی چاہیے جس کا اطلاق ان سے سر زد جرم پر ہوتاہے۔اب اس سزاکی سوچ آسان ہے یا مشکل یہ عدلیہ کی ٹینشن نہیں ہونی چاہیے۔عدالتی ریماکس ایک ایسی بحث چھڑ جانے کا سبب بن رہے ہیں جن کا دفاع کرنا اہل عدل کے لیے آسان نہ ہوگا۔ پچھلے دنوں بابا رحمتے کا ذکر کرکے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اس طرح کی چھوٹی سی ٹینشن کی بنیاد رکھ دی۔بابا رحمتے کو لے کر اہل قلم کو دل کی بھڑاس نکلانے کا خوب موقع ملا۔شاید ہی کوئی چوٹی کا قلم کار ہوگا۔جس نے بابا رحمتے کی اپنے انداز میں تشریح نہ کی ہو۔اہل عدل کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہ تمام تشریحات چیف جسٹس کے بابا رحمتے کے حق میں نہ تھیں۔اب عدالت نوازشریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی مدت طے کرنے سے متعلق کیس میں دیے جانے والے ریمارکس بھی غیر ضروری بحث مباحثے کا باعث بنیں گے۔

پارلیمنٹ کے اختیارات کو کبھی کسی عدالتی فیصلے سے مسترد کیا جاتاہے۔کبھی کسی جعلی احتجاجی تحریک سے۔اور کبھی براہ راست منتخب حکومت کو برخواست کرکے۔کچھ لوگ کسی طور بھی ان اختیارات کو کسی طور برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے والی اس کی کوتاہیوں اور خامیون کی بات کرتے ہیں۔انہیں سمجھنا چاہیے کہ پارلیمنٹ میں بھی عام انسان ہی بیٹھتے ہیں۔کوئی مافوق الفطرت مخلوف نہیں ہوتی جو صد فی صد اکملیت اور جامعیت کی مثال بن سکے۔تھوڑی بہت کوتاہیوں کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔اگر بدنیتی نہ ہو تو ایسی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو نظر انداز کیا جاسکتاہے مگر نقب زنی کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے والے ایسا نہیں چاہتے۔یہ لوگ اداروں کی بالادستی کی ایک خواہ مخواہ کی مہم چلا رہے ہیں۔یہ مہم اداروں کی شناخت مٹا رہی ہے۔ایسی بے شکل تصویریں بن رہی ہیں۔جو ریاست کے نظم ونسق کو ہر دوسرے تیسرے برس تباہ کرکے رکھ دیتی ہیں۔ان بے شکل تصویروں کو جب تک مناسب حلیہ نہ ملے گا۔بات نہ بنے گی۔

 

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123877 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.