عمامہ آفتاب راجہ
کشمیر کو چنار وادی بھی کہتے ہیں مگر قابض بھارتی فوج کے ظلم و ستم کی وجہ
سے اب کشمیر جنت نظیر سلگتے چناروں کی وادی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ فزیشنز
فار ہیومن رائٹس نیویارک میں قائم ایک ایڈوکیسی گروپ ہے جس نے دسمبر 2016ء
میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھاکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں
حالیہ بے چینی کے دوران بھارتی فوج کی طرح سے طاقت کا بے جا استعمال کیا
گیا جس دوران فائرنگ سے زخمی مظاہرین کے لئے میڈیکل کیئر کو بھی بلاک کیا
گیا حتیٰ کہ ایمبولینسز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایمرجنسی کی آڑ میں
ہسپتالوں میں پڑے زخمی مریضوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور کئی کو غائب کر
دیا گیا۔
ڈائریکٹر فزیشنز فار ہیومن رائٹس وڈنی براؤن کے مطابق طبی امداد میں تاخیر
تنازع اور شہری بد امنی کے دوران فراہم کی گئی حفاظت کی سراسر اور سنگین
خلاف ورزی ہے۔ بھارتی سول سوسائٹی کے ایک متحرک رکن اور راجیا سبھا کے سابق
ممبر کمال مورارکا نے 20دسمبر کو سری نگر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا
کہ کشمیر میں قیام کے دوران مجھے اس وقت شدید صدمہ پہنچا جب میں نے یہ
دیکھا بھارتی مقبوضہ کشمیر میں عملاً نہ کوئی جمہوریت، نہ شہری حقوق اور نہ
ہی عام عوام کو آزادی حاصل ہے۔ آپ ایک پُرامن مظاہرہ نہیں کرسکتے، لوگوں کو
دبانے کے لئے حکومت طاقت کا غیر مناسب اور غیر معمولی استعمال کرتی ہے۔
کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود مقامی اور بھارتی حکومتوں کی غلط
اپروچ کی وجہ سے کشمیر جہنم بن چکا ہے۔
اوپر کے پیرے میں بیان کیے گئے حق سچ سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے
ہاتھوں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا پردہ چاق ہوجاتا ہے۔ بات صرف
یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے
مقبوضہ کشمیر میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (افسپا) کے نفاذ کے 25 سال
مکمل ہونے پر اپنی جاری رپورٹ میں ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے
ظالمانہ چہرے کا پردہ چاک کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کشمیریوں پر
سفاکانہ کارروائیوں کو تحفظ دینے والے قوانین کا خاتمہ کرے۔ بھارت نے
مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے 1990 میں ایک
کالا قانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ نافذ کیا تھا جس کے تحت بھارتی
فوجیوں کو مشتبہ شدت پسندوں کو گولی مارنے اور انھیں بغیر وارنٹ کے گرفتار
کرنے کے وسیع اختیارات دے دیے گئے۔
ایمنسٹی کی اس چشم کشا رپورٹ کے مطابق افسپا کے تحت بھارتی فوجیوں کو وسیع
اختیارات ملنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ان ظالمانہ کارروائیوں پر کسی بھی فوجی
پر سول عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ بھارتی فوجی جوابدہی کے عمل سے
آزاد ہو گئے اور انھوں نے کشمیریوں پر اپنے ظلم کی انتہا کر دی بے گناہ
کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کرنے کے علاوہ ہزاروں افراد کو
جھوٹے اور بے بنیاد کیسوں میں پھنسا دیا گیا۔ بھارتی مظالم کشمیریوں کے
جذبہ حریت کو دبا نہ سکے بلکہ حیرت انگیز امر ہے کہ جوں جوں ان مظالم میں
اضافہ ہوتا چلا گیا کشمیریوں کا جذبہ آزادی اتنا ہی پروان چڑھتا چلا گیا۔
بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ہر حربہ آزما لیا
مگر اس میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔
پورے مقبوضہ کشمیر میں جا بجا بے گناہ کشمیریوں کے قبرستان دکھائی دیتے ہیں
مگر لاکھوں قربانیاں دینے کے باوجود کشمیری آج بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے
ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بھارتی فوج بے گناہ کشمیریوں پر طاقت کا
وحشیانہ استعمال اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے شہید نہ کرتی ہو۔
موجودہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ بنانے اور کشمیریوں
کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ہر حربہ آزما رہی ہے مگر گزشتہ دنوں لاکھوں
کشمیریوں نے مودی سرکار کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے ریلی نکالی جس
میں انہوں نے پاکستانی پرچم لہرائے اور آزادی کے نعرے لگائے اور پوری دنیا
پر واضح کر دیا کہ کشمیری آج بھی پاکستان کے ساتھ ہیں اور وہ کبھی بھارت کا
حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی حکومت
روایتی بیان بازیوں سے گریز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو بھرپور طور پر عالمی
سطح پر اٹھائے اور بھارت پر دبا بڑھائے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جلد
از جلد مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔
ظلم و ستم کے بیچ جانبداری ظالم کی طرفداری کے مترادف ہے اور خاموشی جابر
کے ہی ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ جہاں بھی مرد وخواتین نسل، مذہب یا سیاسی آرزوں
کی پاداش میں ستائے جائیں وہ کائنات کا مرکز ہونا چاہیے۔ امریکی دانشور اور
سیاسی رضاکار ایلی ویزا کے اسی قول سے800 صفحات پر مشتمل وہ رپورٹ شروع
ہوتی ہے جسے بدھ کو سرینگر میں جاری کیا گیا۔
تشدد کے خدوخال، جموں کشمیر میں بھارتی ریاست کے حوالے سے اس رپورٹ کو
انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائیٹیز نے دو سال میں
تیار کیا ہے۔ملٹری انٹیلی جنس کے 1781، انٹیلی جنسی بیورو یا آئی بی کے 364
اور ریسرچ اینڈ اینیلسز یا را کے 556 اہلکار جموں کشمیر کے 22 اضلاع میں
سرگرم ہیں۔ رپورٹ میں فوج، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے 267 سینیئر افسروں
سمیت 972 اہلکاروں کو انسانیت کے مختلف جرائم میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔
26 سالہ شورش کے دوران یہ پہلا موقعہ جب کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں سے متعلق اس نوعیت کی ہمہ جہت رپورٹ تیار کی گئی ہو۔ رپورٹ کی خاص
بات یہ ہے کہ کشمیر میں فوجی اور نیم فوجی اداروں کے بنیادی ڈھانچہ کا خاکہ
پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق کل ملا کر کشمیر میں فی الوقت سات لاکھ سے
زائد بھارتی فورسز موجود ہیں۔ ان میں پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی تعداد
ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔ رپورٹ میں زمینی سطح پر کی جانے والی تحقیق کا
حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ ملٹری انٹیلیجنس کے 1781، انٹیلی جنسی بیورو
یا آئی بی کے 364 اور ریسرچ اینڈ اینالیسز یا را کے 556 اہلکار جموں کشمیر
کے 22 اضلاع میں سرگرم ہیں۔
اس رپورٹ میں 1080 حراستی ہلاکتوں 172 حراستی گمشدگیوں اور جنسی زیادتیوں
اور حراست کے دوران جسمانی اذیتوں کے متعدد واقعات کی تفتیش کی گئی ہے۔
رپورٹ میں فوج، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے 267 سینیئر افسروں سمیت 972
اہلکاروں کو انسانیت کے مختلف جرائم میں ملوث قرار دیا گیا ہے ۔ ان میں فوج
کے ایک میجر جنرل، سات بریگیڈیئر، 31 کرنل، چار لیفٹنٹ کرنل، 115 میجر اور
40 کیپٹین شامل ہیں۔ عالمی حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ ان اشخاص کے بین
الاقوامی سفر پر پابندی عائد کی جائے۔ اقوام متحدہ سے بھی اپیل کی گئی ہے
کہ ایسے اہلکاروں کو قیام امن کی عالمی فورسز کا حصہ نہ بنایا جائے۔
رپورٹ میں عالمی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
میں مستقل رکنیت کے مطالبے کو کشمیر میں لوگوں کے حقوق کو تسلیم کرنے اس ان
کے تحفظ سے مشروط کیا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کم از
کم 12 ورکنگ گروپوں کے نمائندوں کو جموں و کشمیر میں حالات کے مشاہدے کی
اجازت کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔جموں کشمیر میں موجود چھ ہزار گمنام قبروں
کی تحقیقات کا مطالبہ بھی دہرایا گیا ہے۔ واضح رہے سنہ 2008 میں یورپی
پارلیمنٹ میں ایک قرار داد کے ذریعے بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس سے قبل بھی کولیشن آف سول سوسائیٹیز یا سی سی ایس نے کئی رپورٹیں جاری
کی ہیں۔ گذشتہ برس 500 پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی فہرست پر مشتمل ایک
رپورٹ جاری کی گئی۔ ان افسروں اور اہلکاروں کے مبینہ ظلم کے شکار افراد یا
ان کے اہل خانہ کے شواہد پر مشتمل اس رپورٹ پر کافی بحث ہوئی۔سی سی ایس کی
تازہ رپورٹ میں جموں کشمیر کے چپے چپے میں قائم فوجی اور نیم فوجی کیمپوں
کے ڈھانچہ سے متعلق اعداد وشمار اور سرگرمیوں کا احوال پیش کیا گیاہے۔ اس
رپورٹ کے نگراں خرم پرویز کہتے ہیں: دراصل کشمیر کا فوجی جماو عالمی میڈیا
سے اوجھل ہے۔ ٹی وی پر جو خطے دکھائے جاتے ہیں وہاں زندگی معمول کے مطابق
لگتی ہے۔ لیکن ظلم و ستم کی داستانیں تو دوردراز دیہات میں رقم ہورہی ہیں- |