بھارتی ظلم و تشدد کے باوجودکارروان حریت منزل کی جانب
رواں دواں ہے ، گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے
5فروری بھرپور طریقے سے منایا جار ہا ہے ۔5فروری یوم یکجہتی کشمیر کے طور
پر پہلی مرتبہ 1990ء میں محترم قاضی حسین احمد مرحوم کی اپیل پر منایا گیا
جس کے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نہایت مفید اثرات مرتب ہوئے تب سے آج
تک یہ دن اہل کشمیر سے یکجہتی کی علامت بن چکا ہے۔آج ایک مرتبہ پھر ایسے
موقعے پر 5فروری تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا
جا رہا ہے جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں مودی سرکارکی قابض 8 لاکھ سے زائد
بھارتی افواج اور ایجنسیوں کے انسانیت سوز مظالم جن کے نتیجے میں ایک لاکھ
سے زائد افراد شہید ، ہزاروں جیلوں میں محبوس اور ہزاروں لاپتہ کردیئے گئے
ہیں۔ عزت وعصمت کی پامالی کے علاوہ اربوں روپے کے مال واسباب اور کاروباری
مراکز اور باغات تباہ کردئے گئے ہیں۔ کالے قوانین کے نفاذ کے ذریعے تمام
انسانی حقوق سلب کرلئے گئے ہیں، سپیشل پاور ایکٹ کے ذریعے عام سپاہی کو قتل
عام کا لائسنس دیدیا گیا ہے۔ صف اول کے قائدین میں جناب سید علی گیلانی آٹھ
سال سے زائد عرصے سے گھر میں نظر بند ہیں ، جناب میر واعظ عمر فاروق
اوریسین ملک بھی آئے روز قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ جناب
شبیر احمد شاہ صاحب ایک سال سے زائد عرصہ سے تہاڑ جیل میں قید ہیں، جہاں
انہیں عادی مجرموں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ انہیں علاج معالجہ اور اودیات کی
سہولت بھی میسر نہیں ۔ ان کی قید و بند کی آرمائش تین دہائیوں پر محیط ہے۔
مسرت عالم کو مسلسل پس دیوار زنداں رکھا جارہاہے۔ جناب اشرف صحرائی اور
دیگر قائدین اور حریت کارکنان، وکلاء اور دانشور حتیٰ کہ بچے اور نوخیز
طلبہ بھی قید و بند کی ایسی ہی آزمائشوں سے دوچار ہیں حتیٰ کہ خواتین رہنما
چیئر پرسن دختران ملت آسیہ اندرابی اور ان کی ٹیم کے دیگر افراد کو بھی
مسلسل قید یا نظر بند رکھاجارہاہے ۔ جبکہ آسیہ کے شوہر ڈاکٹر قاسم فکتو کو
بھی پچیس سال سے زائد عرصہ سے قید رکھاجارہاہے۔ سرچ آپریشن کے نام پر
بھارتی افواج بے گناہ افراد کی اندھا دھند گرفتاریاں ، خواتین خانہ کو
ہراساں کرنے کے علاوہ گھروں کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے اور سردی کی شدت
میں بچوں کو برفانی موسم میں کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور کیاجاتاہے۔
بھارتی ریاستی دہشت گردی کے باوجود تحریک آزادی کی لہر کو برقرار رکھنے پر
قائدین حریت، مجاہدین آزادی اور کاروان حریت کا بچہ بچہ آزادی کے لیے پرعزم
ہے۔ جن کی استقامت نے تاریخ کے ایک بڑے استعمار کے گھمنڈ کو خاک میں ملاکر
رکھ دیا۔ شہداء کی قربانیوں کے نتیجہ میں شمع آزادی فروزاں ہے ۔
برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد ایک انقلاب انگیز تحریک اٹھی جس نے بھارتی
استعمار کی چولیں ہلا ڈالیں ۔ مقبوضہ ریاست کے پیر و جواں مردو زن عظیم
شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے اور تجدید عہد کے لیے سراپا احتجاج بن گئے ۔
کرفیو کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں جلسوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے
اہل کشمیر نے تحریک آزادی کے ساتھ اپنی لازوال وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ اس
پر امن تحریک کو کچلنے کے لیے بھارت نے ریاستی دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ
کیا ۔ دوسرے ہتھکنڈوں کے علاوہ اس مرتبہ پیلٹ گن جیسے ممنوعہ ہتھیاروں کا
استعمال کرتے ہوئے پندرہ ہزار سے زائد نوجوانوں کو شدید زخمی کر دیاگیا جن
میں سے پانچ سو سے زائد ہمیشہ کے لیے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ۔
سات ماہ تک کرفیو کا ایسانفاذ کہ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد سمیت تمام
مساجد اور عید گاہوں میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں پر پابندی عائد کر دی
گئی اور مسجدیں مقفل کر دی گئیں ۔ اس تحریک نے مختلف محاذوں پر بے پناہ
اثرات مرتب کیے ، ایک طرف کشمیر میں حریت قیادت مزاحمتی محاذ پر متحد ہو
گئی اور ایک مشترکہ کلینڈر کے ذریعے پوری یکجہتی کے ساتھ تحریک مزاحمت کے
پروگرام طے پائے جس کے نتیجے میں عوام کے حوصلے بلند ہوئے ۔ علاوہ ازیں
کشمیریوں کی بے مثال استقامت سے بھارت کے اس پروپیگنڈے کے غبار سے بھی ہوا
نکل گئی کہ سرحد پار سے در اندازی سے مقبوضہ کشمیر میں حالات خراب ہوتے ہیں
۔
برہان مظفر وانی کی شہید کی بابرکت شہادت نے یہ ثابت کیا کہ یہ کشمیریوں کی
داخلی تحریک ہے ۔ جو ان کے اپنے جذبہ جہاد ، شوق شہادت اور عزم آزادی کا
مظہر ہے۔ اس تحریک نے بھارت کے اہل دانش کو بھی متاثر کیا جس کے نتیجے میں
جواہر لال نہرو یونیورسٹی جسے بھارت کا اعصابی مرکز گردانا جاتاہے ، سمیت
تمام بڑی دانش گاہوں اور تھینک ٹینکس میں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند
ہوئی ،حتیٰ کہ سابق بھارتی وزیر خارجہ اور بی جے پی کے رہنما یشونت سنہا کی
سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی بھی اس نتیجے پر پہنچی کہ محض ترقیاتی پیکیج
اور ملازمتیں دینے سے یہ تحریک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ بنیادی مسئلہ حل
نہ کیا جائے ۔ کمیٹی نے نوجوانوں کے جذبہ آزادی کو خراج تحسین پیش کرتے
ہوئے یہ تسلیم کیا کہ کالے قوانین ،جبری ہتھکنڈوں اور کرفیو کے باوجود
کشمیری نوجوان موت سے بے خوف ہو گیا اور وہ آزادی کے لیے ہر قیمت دینے کے
لیے تیار ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ فی الفور مظالم ختم کرتے ہوئے
مسئلے کے حل کے لیے کشمیریوں اور پاکستان سے سنجیدہ بات چیت کا اہتمام کرے۔
موجودہ تحریک کے پاکستان میں بھی اثرات مرتب ہوئے ۔ عوامی سطح پر ریلیاں
اور یکجہتی پروگرام منعقد ہوئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں اتفاق
رائے سے حق خود ارادیت کے حق میں قرارداد پاس ہوئی جس میں بھارتی مظالم کی
مذمت کی گئی ۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر دو
ٹوک موقف اپناتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان اہل کشمیرکی حمایت سے کسی طور
دستبردار نہیں ہو سکتا ۔ جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان
عباسی نے نہایت ہی جامع خطاب کیا۔ ان سارے عوامل نے بھارت پر بے پناہ
سفارتی دباؤ مرتب کیا جس سے نکلنے کے لیے مودی حکومت نے ورکنگ باؤنڈری اور
سیز فائر لائن پر بلااشتعال فائرنگ شروع کر دی جس میں سویلین اور فوجی شہید
ہوئے ۔ شہری آبادی بھی متاثر ہوئی لیکن قوم اور فوج نے یکجان ہو کر اس
جارحیت کا بھی بھرپور مقابلہ کیا ۔ نریندر مودی کے جنگی جنون نے عالمی
برادری میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑائی ۔ مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر فلیش
پوائنٹ بنا۔
اس عرصے میں بیرون ملک کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی بھی متحرک رہی۔ نیویارک
، واشنگٹن ، لندن ، برسلز ، ڈنمارک میں بڑے مظاہرے اور کانفرنسز ہوئیں ۔
راقم اس عرصے میں چار ہفتے کا برطانیہ یورپ اور دو ہفتے کا ترکی کا دورہ
کیا جہاں برطانوی پارلیمنٹ کے علاوہ دیگر پروگرامات میں ان کے ممبران
پارلیمنٹ اور اہل دانش سے ملنے کا موقع ملا جنہیں ہم نے باور کرایا کہ
مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو مودی جیسے انتہا پسند حکمران اس خطے پر ایٹمی جنگ
مسلط کر سکتے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں خطے میں تباہی کے علاوہ مغرب کی ملٹی
نیشنل کمپنیوں کا بھی بیڑا غرق ہوجائے گا ۔جن کے مفادات کی وجہ سے مغربی
طاقتیں سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حالات کے اس پس منظر میں برطانیہ میں
تحریک آزادی سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں کی محنت اور لابنگ سے حال ہی میں
برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا اور حق خود ارادیت کے حق میں
قرارداد بھی منظور کی گئی اوربھارتی لابی کو منہ کی کھانی پڑی ۔ اس عرصے
میں یو این ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں مسئلہ کشمیر زیر
بحث رہا ۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں نے تو سن 2000ء میں ہی بھارتی افواج کے ہاتھ کھڑے
کر دیے گئے تھے جبکہ اس وقت کے چیف آف سٹاف نے علی الاعلان یہ اعتراف کیا
تھا کہ طاقت سے یہ ختم نہیں کی جا سکتی ۔ مجاہدین سمیت تمام حلقوں سے بات
چیت کرے لیکن پھر نائن الیون کے بعد کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے
امریکہ سمیت دیگر استعماری طاقتوں کا سہارا لیا ۔ آج ایک مرتبہ پھر جہاں
تحریک کی لہر نے ہمہ گیر اثرات مرتب کیے اور بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی
فضا بنادی جہاں ہماری بات سنی جا سکتی ہے ۔ ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے
لیے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دی جائے ،حکومت پاکستان بھارت سے مذاکرات
کرنے کے لیے ضروری ہے کہ درج ذیل اقدامات کو ہندوستان عملی جامہ پہنائے ،
-1 بھارت مقبوضہ کشمیر سے فوجی انخلا کرے۔-2 کالے قوانین کا خاتمہ
کرے۔-3گرفتار شدگان کورہاکرے نیز قائدین حریت کی نظربندی اورگرفتاریوں کا
سلسلہ ختم کرتے ہوئے انھیں سفری دستاویزات فراہم کرے تاکہ وہ دنیا تک اپنا
موقف پہنچاسکیں۔
4 - انسانی حقوق کی تنظیموں ریلیف ایجنسوں اورمیڈیا کو مقبوضہ جموں
وکشمیرجانے کی اجازت فراہم کرے۔
یشونت سینا کی کمیٹی کی حالیہ سفارشات اور اپنے اہل دانش سیاسی رہنماوں اور
انسانی حقوق کی تنظیموں کی حقائق پر مبنی تجاویز کی روشنی میں نوشتہ دیوار
پڑھتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کرے اٹوٹ انگ کی رٹ ترک کرے اور
مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے مذاکرات کا عمل شروع کرے۔
٭ اس مسئلے کے فریق اور وکیل کی حیثیت سے برہان مظفروانی کی شہادت کے نتیجے
میں تحریک آزادی کی انقلابی لہر کو مایوسی سے بچانے اور نتیجہ خیز بنانے کے
لیے قومی اور کشمیری قیادت کی مشاورت سے ایک ایسی جامع حکمت عملی تشکیل دے
جس سے حریت پسندوں کے حوصلے بھی بلند ہوں اور بین الاقوامی سطح پر بھارت پر
ٹھوس دباؤ مرتب ہوسکے۔جو اسے مسئلہ حل کرنے پر مجبور کرے اس سلسلے میں درجہ
ذیل اقدامات کیے جائیں۔
1 - 5 فروری حکومت اور عوامی سطح پر بھرپور طورپر یوم یکجہتی منایا جائے۔
2 - وزیر اعظم پاکستا ن مظفر آباد میں حسب روایت اسمبلی اور کونسل کے
مشترکہ اجلاس میں قومی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے جامع خطاب کریں اور
کشمیریوں کو یقین دلائیں کہ حق خودارادیت کے حصول کی اس جدوجہد میں پوری
قوم ان کے ساتھ ہے۔
3 - اقوام متحدہ OIC اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں مسئلہ کشمیرکو
زیربحث لایا جائے اورکشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی حمایت حاصل کی
جائے۔
4 - وزرات خارجہ اور سفارت خانوں کو متحرک کرنے کے ساتھ وزیر اعظم خود اہم
دارلحکومتوں کادورہ کریں،مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے حکومت پاکستان ایک
مستقل نائب وزیر خارجہ کا تقرر کرے نیزایسے پارلیمانی وفوود بھیجے جائیں جس
میں مسئلہ کشمیرسے آگاہی رکھنے والے ماہرین شامل ہوں
5 - بھارت سے دوطرفہ مذاکرت کی صورت میں مسئلہ کشمیرسرفہرست رکھا جائے
اورتجارتی ثقافتی اور دیگر باہمی تعلقات کو مسئلہ کشمیرپر پیش رفت سے مشروط
کیا جائے ۔
٭ کشمیریوں کو اپنی ترجمانی خود کرنے کے لیے آزاد ریاست جموں وکشمیرکو
بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کرسکے۔ کشمیرکی
حق خود ارادیت کی حمایت کرنے والے تمام اداروں اور اہل دانش کا شکریہ
اداکرتاہے۔
٭ پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، میڈیاہاؤسز کے مالکان اور دیگر اہل
قلم اور دانش سے بھی توقع رکھتاہے کہ وہ کشمیری جو اپنی آزادی ہی کی نہیں
بلکہ پاکستان کی بھی جنگ لڑرہے ہیں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اجاگر کرنا
اپنا دینی اور ملی فریضہ سمجھتے ہوئے خصوصی توجہ کا اہتمام کریں۔
|