پاک امریکہ خارجہ تعلقات میں وقت کے ساتھ ساتھ اتارچڑھاؤ
آتا رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تعلقات میں کشیدگی زیادہ جب کہ دوستانہ
اور بہتری کم کم آئی ہے۔ امریکہ پاکستان کے لیے کبھی مخلص دکھائی نہیں رہا
، اس نے ہمیشہ اپنا مفاد، پاکستان کے دشمن کے مفاد کو پاکستان سے دوستی پر
ترجیح دی۔ دوسرے معنو ں میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے خارجہ تعلقات میں
ہمیشہ پاکستان کا ہمسایہ جو پاکستان کا پیدائشی دشمن بھی ہے سے دوستی کو
مقدم رکھا اور پاکستان کو ثانوی حیثیت دی ۔ نئی نسل تو شاید اس سے واقف نہ
ہو جب پاکستانی عوام امریکہ کے بحری بیڑے کا پاکستان کے ساحل پرپہنچنے کا
انتظار ہی کرتے رہے اور دشمن نے کام تمام کردیا پر وہ بحری بیڑا نہ آنا تھا
، نہ ہی آیا۔پھر ڈومور کی گردان سے کون واقف نہیں، ڈرون حملوں کے لیے
پاکستان کی سرزمین کا استعمال کس کے علم میں نہیں غرض ہر دور میں امریکہ کی
خارجہ پالیسی پاکستان کے لیے دوستانہ نہیں رہی۔ کبھی امداد جاری کردی کبھی
روک ، امید کیا ہے روز روزکھیل، پاکستانی عوام تو امریکی امداد کے حق میں
کبھی تھے نہ اور اب ہیں۔ یہ تو حکمرانوں کی ضرورت ہے جو امریکہ کی امداد کے
بغیر ان کی سیاست ادھوری رہتی ہے۔امریکہ کی امداد میں اس کی اپنی غرض پنہا
ہوتی ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مسلمان مخالفت پالیسی کسی سے
ڈھکی چھپی نہیں، پاکستان سے بھی اس نے کبھی دوستی میں مضبوطی اور قربت کی
بات نہیں کی، ٹرمپ مسلمانوں کا ڈیٹا بیس بنانے کی تجویز دے چکا ہے،
مسلمانوں کے لیے علیحدہ شناختی کارڈ کے اجراء کی بات کرچکاہے جسے امریکی
قانون اور اخلاق کے منافی ٹہرایا گیا۔ ٹرمپ نے مسلمانوں کو امریکہ سے بے
دخل کردینے کی بات بھی کی تھی، جس سے لوگ ھیران ہوئے، حتیٰ کہ امریکہ کے
سابق صدر بارک اوباما نے بھی ٹرمپ کے اُن خیالات کو منفی اور امریکہ کے
قانون کے خلاف قرار دیا تھا۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے
مسلمانوں کے خلا ف ڈونلڈ ٹرمپ کی دشنام طرازی کے جواب میں کہا تھا کہ’
مسلمانوں سے تعصب رکھ کر داعش کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ کھوکھلے نعروں اور
مسلمانوں پر پابندی جیسی باتیں کر کے شدت پسندی کو ختم کرنا ممکن نہیں‘ ۔
ان کا کہنا تھا کہ’ تعصب،غرور اور تکبر امریکی صدر کی خصوصیات نہیں ہوتیں‘،
ہیلری نے کہا تھا کہ ’ شدت پسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی میں مسلمانوں کو
سائیڈ لائن نہیں کیا جانا چاہیے وہ امریکہ میں مقیم ہوں یا کہیں اور کیوں
کہ مسلمان داعش کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی ہیں‘۔ ہیلری کلنٹن کے علاوہ بھی
کئی امریکی لیڈروں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں ۔ جیب بش
نے بھی ٹرمپ کی مخالفت کی اور اسے ذہنی مریض قرار دیا تھا۔ سابق نائب صدر
ڈک چینی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کے خلاف دشنام طرازی کو اپنے اعتقاد کے
خلاف کہا تھا ، امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال ریان نے ڈونلڈ ٹرمپ
کی باتوں کوغیر امریکی کہتے ہوئے انہیں فضولیات سے تعبیر کیا تھا۔امریکہ کی
مسلمان مخالف یا پاکستان مخالف بیان بازی اور تنقید ٹرمپ کے دور میں ہی
نہیں ہورہی بلکہ ماضی میں بھی امریکہ کا رویہ کچھ اسی قسم کا رہا ہے۔ ہر
امریکی حکمراں نے پاکستان کو سبز باغ دکھائے، امداد کی بات کی لیکن وہ
پائیدار دوستی کبھی ، خلوص پر مبنی دوستی کبھی قائم نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ
معلوم ہوتی ہے کہ امریکہ کی سیاست میں مسلمانوں کے خلاف سوچ پختہ ہوچکی ہے
وہ مسلمانوں کو امریکہ کا دشمن تصور کرتے ہیں اس اعتبار سے پاکستان دنیائے
عالم میں اہم اسلامی اور جوہری قوت کا حامل ملک ہے اس لیے پاکستان ہر
امریکی حکمراں کی آنکھ میں کھٹکتا رہا ہے۔
ان دنوں پاکستان کے ساتھ امریکی پالیسی میں تبدیلی کا آجانا سمجھ میں آنے
والی بات نہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کو پاکستان کی مخالفت کرنے سے
پیدا ہونے والے نقصانات کا ادراک ہوگیا یا پھر یہ امریکہ کی کوئی شاطرانہ
چال کا کوئی حصہ ہے ۔ امریکہ کے ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ جوہن جے سیلو(John
Joseph Sullivan)ان کا بیان کہ پاکستان پر دباؤ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا،
پاکستان سے تعلقات ناگزیر ہیں ،پاکستان پر حملے کا ارادہ نہیں جیسے بیانات
پاکستان کے حوالے سے امریکہ کا یو ٹرن دکھائی دیتا ہے۔ ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ
کا بیان کہ اسلام آباد کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ناممکن ہے،
امریکہ تناؤ میں کمی چاہتا ہے، اس لیے پاکستان کے تحفظات دور کرنے پر تیار
ہوا رہا ہے۔ القاعدہ کے خلاف لڑائی میں پاکستان کے کردار کو سراہا، خطے کے
استحکام کے لیے امریکہ کو پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات جاری رکھنا چاہیے۔
افغان مہاجرین کی طویل عرصے تک میزبانی ، امریکی اور افغان فورسز کے لیے
سپلائی لائن فراہم کرنا قابل ستائش ہے۔ یہ باتیں امریکی سینٹ کی کمیٹی
برائے امور خارجہ میں بریفنگ کے دوران بتائی گئیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ
نے کانگریس کے سامنے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے صدر
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی عسکری امداد روک کر دباؤ ڈالنے کا حربہ
بری طرح شکست سے دوچار ہوا اور پاکستان تاحال اپنی پالیسی پر گامزن ہے ۔
امریکہ کی نئی جنوبی ایشیا سے متعلق حکمت عملی کے حوالے سے سینٹ فارن
ریلیشن کمیٹی میں امریکی اور پالیمانی وفد نے اعتراف کیا کہ’ اسلام آباد کے
بغیر افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں‘۔ اس کے برعکس کچھ امریکی اب بھی
پاکستان دشمنی کا اظہار بر ملا کرتے نظر آئے۔ کمیٹی کے ریپبلکن چیئ مین
سینیٹر رابرٹ کروکر نے پاکستان کی عسکری امداد روکنے کے فیصلے کی بھر پور
تائید کی، سینیٹر کا کہنا تھا کہ جب اسلام آباد حقانی نیٹ ورک اور دیگر
دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرتا رہے گااس وقت تک پاکستان کے لیے اربوں ڈالر
کی عسکری امداد پر پابندی ہوگی‘۔
امریکی ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ جوہن جے سیلوان کے بیان کو باریک بینی اور
سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے، آخر خطہ میں کونسی ایسی تبدیلی ، ایسے
حالات پیدا ہونے جارہے ہیں جس کی بنیاد پر امریکہ کی خارجہ پالیسی میں
پاکستان کے لیے ہمدر اور نرمی پیدا ہوئی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل امریکہ کے صدر
ٹرمپ پاکستان کے خلاف بیان دے چکے اور پاکستان کی امداد بند کرنے کی دھمکی
بھی دے چکے ہیں۔ ممکن ہے کہ امریکہ کی موجودہ قیادت کو حقیقت کو ادراک
ہوگیا ہو کہ پاکستان ایک اٹل حقیقت ہے، اہم اسلامی ملک ہے، جوہری قوت کا
حامل ہے، اس کے حکمران جیسے بھی ہوں اس کے عوام کسی بھی طرح کہ امرکہ دباؤ
میں آنے والے نہیں۔ جب امریکہ امداد بند ہونے کی بات ہوئی تو عوامی آواز
یہی تھی کہ امریکہ اپنی امداد کل کے بجائے ابھی بند کر دے، پاکستان کے
حکمرانوں کو کشکول پھینک دینا چاہیے۔ ہمیں اپنے زور بازو پر بھروسہ کر کے
کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا نے ، امریکہ ہمارا قابل اعتماد اور قابل بھروسہ
دوست نہیں ، یہ اس کا عمل ہی ہے جس نے یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان کا خیر
خواہ ہرگز نہیں، اس لیے پاکستان کو امریکہ یا کسی اور ملک سے برابری کی سطح
پر تعلقات رکھنے چاہیے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے لیے اگر
واقعی کوئی مثبت تبدیلی آتی ہے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ اچھے ،
برابری کی سطح پر خارجہ تعلقات امریکہ ہی نہیں بلکہ ہر ملک کے ساتھ ہونے
چاہیے۔ |