فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کی مصنوعی جنگ

1978ءمیں مہاجر قومی موومنٹ سے سفر شروع کرنے والی ایم کیو ایم نے اپنے نظریات کا آغاز جامعہ کراچی سے کیا، بعدازاں 1997ءمیں مہاجروں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے مہاجر قومی موومنٹ کا نام تبدیل کرکے متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا، مہاجر قومی موومنٹ جوکہ خالصتاً مہاجروں کا پلیٹ فارم تھا ، اسے متحدہ بنا کر دوسری قوموں اور زبان بولنے والوں کے لیے بھی دروازے کھول دیے گئے ۔1978ءسے 1992ءتک کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام پر پرتشدد واقعات سے ہزاروں بے گناہ لقمہ اجل بن گئے ، الطاف حسین سربراہ ایم کیو ایم کراچی پر اپنی دھاگ بٹھانے کے لیے بے گناہوں کا خون کراتے رہے، بھتہ خواری کا عالمی ریکارڈ بھی الطاف حسین کے حصے میں آیا۔ کراچی کے ایک قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق 1992ءتک یہ جماعت ملک کی امیر ترین جماعت بن چکی تھی ، اُس وقت جماعت کے اثاثہ جات کی مالیت تقریباً 9 کروڑ روپے تھی اور جماعت کی فنڈنگ کا انحصار بھتہ خوری پر کیا جاتا تھا جس کا نیٹ ورک الطاف حسین براہ راست چلارہے تھے۔ 1992ءکے کراچی آپریشن سے قبل ہی الطاف حسین سربراہ ایم کیو ایم خود ساختہ جلاوطن ہوگئے اور بیرون ملک بیٹھ کر جماعت کو چلانے لگے۔

شروع دن سے ہی الطاف حسین کیس ربراہی میں پرتشدد کارروائیاں شروع کردی گئی تھیں، یوں کہیں کہ تشدد ایم کیو ایم کا خفیہ منشور رہا ہے۔ مشرف دور میں اس جماعت نے اپنا سیاسی حلیہ تبدیل کرنے کی کوشش کی ، حکومت میں شامل بھی ہوئی، اور اپنے آپ کو ملک گیر جماعت کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش شروع کی، یہ جماعت مشرف کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی اُس کی منظور نظر ہوگئی مگر تشدد کی سیاست سے پیچھا نہ چھڑا سکی۔ مشرف دور میں ہی 12 مئی کے واقعات نے ایم کیو ایم کے چہرے سے پھر پردہ فاش کردیا ۔ ایم کیو ایم سے منحرف پی ایس پی راہنماﺅں ، مبصرین کے مطابق الطاف حسین اس جماعت کو بطور ” مافیا “ چلاتے رہے ہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ طانوی حکومت نے بینظیر بھٹو کی اکتوبر 2007 میں کراچی واپسی سے پہلے الطاف حسین سے بینظیر کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے گفت و شنید کی۔

ماضی میں متعدد بار ایم کیو کے خلاف کریک ڈاﺅن کیے گئے ، ذوالفقار مرزا نے بطور صوبائی وزیر داخلہ متعدد بار متحدہ کے خلاف پریس کانفرنسز بھی کیں ، جس میں انہوں نے قرآن پاک کی قسمیں کھاکھر کر بتایا کہ یہ جماعت کراچی میں دہشت پسندی کے اصول پر کاربند ہے۔ انسانی حقوق کی کئی بین الاقومی تنظیمیں جن میں اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں ،کراچی میں تشدد کے اکثر واقعات پر ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ یہی متحدہ جو ایک وقت میں پاکستان کے اداروں کو ہدف تنقید بناتی رہی ، 2007ءکی فوجی حکومت کے ” ہنگامی حالات “ کا ساتھ دیتی رہی۔

سیاسی دھارے میں آنے کے بعد ایم کیو ایم نے اپنی توجہ کا مرکز سندھ میں اردو بولنے والے طبقوں کو بنایا۔ چونکہ کراچی اور سندھ کے کئی دوسرے بڑے شہروں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اس لیے ایم کیو ایم نے وہاں کی بلدیاتی ،صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنی شروع کردی۔ گذشتہ کئی برسوں سے کراچی ، حیدر آباد ، میر پور خاص ، شکار پور اور سکھر کو ایم کیو ایم کے گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایک بڑی سیاسی قوت رکھنے کے ساتھ اب یہ جماعت سندھ کی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بھی اپنا اثر رسوخ رکھتی ہے تاہم 23 اگست کے سانحہ کے بعد ان شہروں میں اب اس جماعت کا اثرورسوخ کم ہوچکا ہے ، اور یہ جماعت تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزر رہی ہے، پی ایس پی جس کی سربراہی مصطفی کمال کررہے ہیں، ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ ہی ہے۔

پرویز مشرف کی آشیرباد میں متحدہ قومی موومنٹ نے 2002ءکے انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں کی اکثر سیٹیں جیتیں ، اسی طرح 2005ءکے بلدیاتی انتخابات میں بھی سندھ کے شہری علاقوں کا میدان ایم کیو ایم کے ہاتھ رہا۔ اس دور میں ایم کیو ایم پرویز مشرف کی اہم حلیف جماعت تھی۔ 12 مئی کے خونی واقعات ہوں یا کالا باغ ڈیم کی مخالفت ایم کیو ایم اس میں سرفہرست رہی۔

ان ادوار میں پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز الطاف حسین کے کئی کئی گھنٹوں کے بے حودہ اور دھمکی آمیز خطابات براہ راست نشر کرتے رہے ، نشر نہ کرنے کی صورت میں میڈیا ہاﺅسز پر حملے ، صحافیوں کو قتل کرنے کے واقعات کے پیچھے بھی مذکورہ جماعت کے عسکری ونگ کا ہاتھ سامنے آیا۔ الطاف حسین کی دھمکی آمیز تقریر کا اختتام بالاخر 23 اگست 2017ءکو اُس وقت ہوا جب انہوں نے پاکستان مخالف نعرہ لگوانے کی کالک اپنے ماتھے پر چسپاں کی۔

23 اگست 2017ءکے بعد متحدہ قومی موومنٹ کی الٹی گنتی شروع ہوگئی، کئی کارکنان ، عہدیداران اور ممبران اسمبلی بیرون ملک چلے گئے ، ٹی وی شوز میں الطاف حسین کی وکالت کرنے والے مصطفی کمال اگست سانحہ کے بعد دبئی سے پاکستان لوٹے تو انہوں نے جماعت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے الطاف حسین کے چہرے سے پردہ اٹھا دیا۔ یوں مصطفی کمال کی صورت میں متحدہ کی تقسیم کا آغاز ہوگیا۔

فاروق ستار نے حالات کی نزاکت کو بھانپنے کے بعد جماعت کے آئین کو فوری طور پر تبدیل کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا اعلان کردیا جس پر آج بھی فیصل سبزواری ، عامر خان گروپ سراپا اعتراض ہے۔ 23 اگست کی تقریر کے بعد متحدہ کے متعدد دفاتر سیل کردیے گئے ، ایسے میں کامران ٹیسوری جوکہ پیرپگاڑا کے ساتھ کام کرچکے تھے ، متحدہ میں شامل ہوگئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحدہ کے خلاف کریک ڈاﺅن میں نرمی برتنے کی کوشش شروع کردی۔ فاروق ستار کی سفارش پر انہیں ڈپٹی کنوینیئر کے عہدے سے نواز دیا گیا، کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم میں شمولیت کے دن سے ہی متحدہ میں اختلافات کا لاوا تیار ہورہا تھا جو گزشتہ دن انہیں سینیٹر بنانے پر پھٹ گیا۔ ایم کیوایم پاکستان کے رہنما کامران ٹیسوری کو سینیٹر بنانے کے معاملے پر ایم کیوایم میں پھوٹ پڑگئی اور فاروق ستار ایک بار پھر پارٹی سے ناراض ہوگئے ، یوں جماعت بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ گزشتہ روز ایک ہی جماعت کے دو مقامات پر دو اجلاس ہوئے، ایک جانب پی آئی بی کراچی میں ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی، کامران اختر، وقار شاہ شریک ہوئے۔دوسرا اجلاس بہادرآباد میں عامر خان کی زیر صدارت ہوا جس میں خالد مقبول صدیقی، کنور نوید، امین الحق، فیصل سبزواری، وسیم اختر، نسرین جلیل اور دیگر نے شرکت کی۔وجہ اختلاف یہ ہے کہ فاروق ستار کامران ٹیسوری کو ٹکٹ دینا چاہتے تھے جس پر اختلافات ہوئے، عامرخان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کامران ٹیسوری کو پارٹی سے فارغ کرنے کی منظوری دے دی گئی۔فاروق ستار الزام لگارہے ہیں کہ کچھ لوگ پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، ایک بڑا اور اہم اعلان کرنے جارہا ہوں لوگوں کی من مانی نہیں چلے گی۔بہادر آباد گروپ الزام لگارہا ہے کہ آخر فاروق ستار کی کیا مجبوری ہے کہ وہ کارکنان کو نظر انداز کرکے کامران ٹیسوری ” بھائی “ کو سینٹ کا ٹکٹ دینا چاہتے ہیں ؟ قومی مہاجر موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ کے بکھرنے تک لفظ ” بھائی “ پر کسی کو اختلاف نہیں تاہم فی الوقت متحدہ میں ” کامران ٹیسوری بھائی “ کے بھائی بننے پر اختلاف موجود ہے۔

متحدہ کی حالیہ تقسیم میں کامران ٹیسوری بھائی کو فٹ بال بنایا جارہا ہے ، اندرون خانہ فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے اراکین ایک ہی ہیں، الطاف حسین کی طرح فاروق ستار کا روٹھ جانا ، قیادت چھوڑنے کی دھمکی دینا پھر پالیسی تبدیل کردینا، کامران ٹیسوری بھائی کو متنازعہ بنانا اور عوام کو یہ باور کروانا کہ کامران ٹیسوری بھائی کو اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر سینیٹر بنایا جارہا ہے ، فاروق ستار کے تاثر سے یہی لگتا ہے کہ وہ بھی کامران ٹیسوری کے معاملے میں ” سیاسی گیم “ کررہے ہیں۔ فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی دراصل اسٹبلشمنٹ مخالف مہم کو فروغ دے رہے ہیں۔

واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 62 Articles with 102268 views i like those who love humanity.. View More