اچھے دن جب آتے ہیں تو مٹی بھی سونا بن جاتی ہے۔ اتر
پردیش میں بی جے پی کا کمل اکھلیش یادو اور راہل گاندھی کے اتحاد کے باوجود
بڑی آسانی سے کِھل جاتا ہے اور جب برا وقت آتا ہے گجرات کے اندرنریندر
مودی اور امیت شاہ کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ برے دنوں کی
آمد پر سونا بھی مٹی لگنے لگتی ہے۔ اچھے برے دن تو سب کی زندگی میں آتے
رہتے ہیں لیکن سیاستدانوں کی حالت کو زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ میں جیتے ہیں ۔ خاص طور پر ایسے سیاستداں جن کے
غبارے میں صرف میڈیا کی ہوا بھری ہوتی ہے وہ بہت جلد پچک جاتے ہیں ۔ مودی
جی کے اقتدار سنبھالنے پر پہلے تو عوام کو دور گگن کی چھاوں میں کانگریس کا
زمانہ یاد آنا لگا لیکن اب بیروزگاروں کے پکوڑے ، کسانوں کی خودکشی ،
کشمیر میں طلباء کو معافی اور فوجیوں پر مقدمہ،لوجہاد کرنے والے خلجی کو
اعزاز، تین طلاق پر رسوائی اور بابری مسجد کے مقدمہ میں آسھار کے بجائے
زمین کی ملکیت پر بحث وہ ناکامیاں ہیں جن کے بعد مودی جی منہ بسور کے یہ
نغمہ گانے لگے ہیں؎
البیلے دن پیارے، میرے بچھڑے ساتھ سہارے، ہائے کہاں گئے
آنکھوں کے اجیارے، میری سونی رات کے تارے ، ہائے کہاں گئے
کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن
مودی جی نے جب چار سال قبل ایوانِ پارلیمان میں قدم رکھا تھا تو انہیں اس
کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن انہوں اس قیمتی وقفہ کو بھی گنوا دیا ۔ ایوان
کے اندر کبھی دلچسپی نہیں لی اس لیے کہ شاید وہاں چلنے والی کارروائی کو
سمجھنا اور ارکان پارلیمان کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالوں کا جواب
دینا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ انہوں نے ہمیشہ ہی ایوان کو اپنے دیگر
انتخابی جلسوں کی مانند ایک خطاب عام سمجھا اور وہاں بھی رٹی رٹائی اوٹ
پٹانگ تقاریر کرتے رہے۔ انہیں تو شاید یہ بھی معلوم ہی نہیں کہ یہ بجٹ
اجلاس ہے اور اس میں ملک کی معیشت کے سلسلے میں اہم امور پر گفتگو ہونی ہے
اس لیے وہ کانگریس کا دکھڑا لے بیٹھے ۔ اس خاندان کو سارے مسائل کا ذمہ دار
ٹھہرا دیا جس کا کوئی فرد پچھلے ۲۹ سالوں سے وزیراعظم نہیں ہوا اور جس کے
دوافراد نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ دشنام طرازی اس پریوار کے
پردھان سیوک نے کی جس نے آزادی سے پہلے یا بعد ملک کے لیے کوئی قابلِ ذکر
قربانی پیش نہیں کی۔ایسا لگتا ہے کہ مودی جی کے اعصاب پر گاندھی پریوار
سوار ہے اور خواب میں اس کو کوستے ہیں ۔
ایوان بالا میں حزب اختلاف کے رہنما نے غلام نبی آزاد نے بجا طور سے
فرمایا کہ یہ کام بدلنے والی (Game changer) نہیں بلکہ نام بدلنے والی
(Name changer) سرکار ہے۔ اس کا شعار’رام نام جپنا پرایا مال اپنا‘ ہے ۔ یہ
پرانے کاموں کو نیا نام دے کر خود سے منسوب کرلیتی ہے۔ آزاد کے اس الزام
کا ثبوت پیش کرتے ہوئے مودی جی نے ایوان میں کہہ دیا کہ آدھار کارڈ کا
خیال سب سے پہلے اٹل جی کو آیاتھا۔ اس پر کانگریس رہنما رینوکا چودھری نے
ایسا زور دار قہقہ لگایا کہ صدارت کرنے والے وینکیا نائیڈو کی نیند اڑ گئی
اور انہوں نے رینو کا جی کونظم و ضبط کی تلقین کرڈالی ۔ مودی جی کی تقریرکو
تحریر کر نے والے نہیں جانتے تھے کہ رینوکا ایک قہقہہ مودی جی کی طول طویل
تقریر کو نگل جائے گا اس لیے انہوں نے اس بات کچھ لکھ کر نہیں دیا ار
مجبوراًپردھان سیوک کو فی البدیہہ جواب دینا پڑا۔ مودی جی کا معرکتہ
الآراء جواب بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ وہ بولے انہیں مت روکیے اس لیے کہ
رامائن سیریل کے بعد پہلی مرتبہ ایسی ہنسی سنائی پڑی ہے۔
اس پر کانگریسیوں نے ہنگامہ کردیا اور مودی جی کے تبصرے کو خواتین کی توہین
قرار دیا حالانکہ یہ تو ایک نام نہاد رام بھکت کے ذریعہ رامائن کی توہین ہے۔
مودی جی شاید بھول گئے کہ رامائن سیریل سمرتی ایرانی کے ’ ساس بھی کی کبھی
بہو تھی‘ کے مانند کوئی کامیڈی سیریل نہیں تھا بلکہ ایک ٹریجڈی رزمیہ
داستان ہے ۔ اس کہانی کے ہر موڑ پر ایک دلخراش سانحہ موجود ہے ۔ مثلاًرام
چندر جی کو حلف برداری سے قبل بن باس بھیج دیا گیا ۔ لکشمن نے سپرنکھا کی
ناک کاٹ دی۔ سیتا جی کو راون نے اغواء کرلیا۔ ہنومان راون کی سزا عوام کو
دی اور لنکا کو جلا کر خاک کردیا۔ سیتا جی کو بلاوجہ اگنی پریکشا دینی پڑی
اور اس میں کامیابی کے باوجود محل سے نکال دیا گیا ۔ راجہ رام کے بچوں نے
ایک رشی کی کٹیا میں جنم لیا۔ کیا مودی جی اور ان کا سنگھ پریوار ایسے دکھ
بھرے واقعات پر اس طرح کے قہقہے لگاتا تھا جیسے کہ رینوکا نے ان کی تقریر
پر لگایا ہے۔ اس تبصرے سےیقیناً وسیم رضوی جیسے سچے رام بھکتوں کی دل
آزاری ہوئی ہوگی۔کپل سبل کو چاہیے کہ وہ ان کو ساتھ لے کر عدالت میں پہنچ
جائے۔ مودی جی کو ایک اور سوال کا جواب دینا ہوگا کہ آخر ایک بڑے عرصے کے
بعد یہ قہقہہ انہوں نے کیوں سنا؟ پچھلے چار سالوں میں کس نے ملک کے عوام سے
ہنسی چھین لی؟ سچ تو یہ ہے کہ مودی جی نے یہ تبصرہ کرکے اپنی ایسی جگ
ہنسائی کرائی ہے کہ اس کا ازالہ اسرائیل کے پکوڑے بھی نہیں کرسکتے ۔
|