11 فروری کے دن کشمیر کے ایک عظیم سپوت کو دہلی کی تہاڑ
جیل میں تختہ دار پہ لٹکاکر شہید کیا گیا۔اس اندوہناک واقعہ کے ساتھ ہی
ریاست کے اس حصے میں انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔اس بار ان انتخابات کی
خاص بات اس میں ایک نئے اتحاد مسلم متحدہ محاذ (مسلم یونائٹڈفرنٹ)کی شرکت
تھی اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے بھارتی حکمرانوں نے
کئی غیر اخلاقی و غیر انسانی اقدام اٹھائے اور وہ اتحاد جو اگلے روز یقینی
کامیابی کی منزل پہ تھا اسے دھاندلی سے ناکام بنادیا گیا جس کے باعث ریاستی
عوام میں غصہ پیدا ہوگیا ۔
چالیس برسوں سے حق خود ارادیت کا وعدہ وفا نہ کرنا،11 فروری 1984کو ریاست
کے عظیم گوریلہ لیڈر محمد مقبول بٹ کی شہادت اور پھر عام انتخابات میں
ریاستی عوام کے ووٹ کے حق پہ شب خون مارنے کے عجیب اضطراب کی کیفیت پیدا کر
دی گئی۔ عوام نے غلامی کے ان طویل گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات کے لیے آخر
کار 31جولائی1988کو بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا۔ فضا
آزادی کے دلفریب نعروں سے گونجنے لگی اوریہ تحریک شہید محمد مقبول بٹ کے
نظریات و وژن ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی امنگوں کی ترجمان ثابت ہوئی۔لبریشن
فرنٹ کے اس اقدام نے تحریک آزادی کشمیر کو مقبولیت کے ساتویں آسمان پہنچا
دیا۔ وہ بھارت جو کل تک مسئلہ کشمیر پر بات تک کرنے کو تیار نہ تھا وہاں اس
بات کے چرچے عام ہوئے کہ کشمیر اب بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔اس وقت
بھارت کے لیے کشمیر کا ہر گھر مورچہ بنا ہوا ہے۔مجاہدین سے مقابلے کے لیے
بھارت کی 7 لاکھ سے زائد فوج کشمیر میں تعینات ہے جس میں مسلسل اضافہ ہی
دیکھنے میں آرہا ہے۔.اس جدوجہد کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری اور
پاکستانی انصارشہید ہوئے، اس سے زائد زخمی ہوئے اور ہزاروں کو ٹارچر سیلوں
میں ناقابل بیان اذیتیں دی گئیں جبکہ سیکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور
کی جارہی ہے مگر کشمیریوں کو ان کے جذبہ ء اِیمانی نے انہیں بھارتی حکومت
کے ظلم وستم اور جبریہ موت سے نبرد آزما ہونے کی جرأت اور ہمت عطا کی۔
کشمیرکی حریت پسند قوم نے گذشتہ 22 برس سے نہ صرف تحریک آزادی کے جذبے کو
ماند نہیں پڑنے دیا بلکہ اسے بحسن وخوبی اپنی چوتھی نسل کو بھی منتقل کردیا
ہے۔کشمیری نوجوانوں کی سرفروشی کی اس تحریک نے ایک بار پھر سری نگر سے دلّی
اور واشنگٹن تک کے ایوانوں کو لرزا دیا ہے۔بھارت جسے دنیا کی ’سب سے بڑی
جمہوریت‘ اور ’سیکولر‘ ملک ہونے کا دعویٰ ہے کشمیر کے مسئلے پر جمہوریت اور
سیکولرازم کے تمام تر اصولوں کو پس پشت ڈال رہا ہے۔ کشمیرکو آزادی دینے سے
انکار اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھارت کے لیے کلنک کا ٹیکا ہے۔
وہ کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق دینے کے لیے کسی طرح تیار نہیں۔ بھارت
کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ’دہشت گردی‘ کہتا ہے حالانکہ
خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے۔ 2008 ء میں شرائن بورڈ کے معاملے
میں تحریک آزادی نے نئی کروٹ لی،نوجوانوں کے ہاتھوں میں گن کے بجاے پتھر
آگئے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی امرناتھ یاترا کے منتظم ادارے شری
امرناتھ شرائن بورڈ کی طرف سے زمینوں پر غیر قانونی قبضے کی کوشش تنازعے
کاباعث بن گئی۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔اس کے نتیجے میں باہمی اختلافات
کا شکار آزادی پسند قائدین متحد ہوگئے۔بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے
لیے تحریک میں اچانک شدت آگئی۔بھارتی فوج کی گولیوں سے ان گنت نوجوان شہید
ہوئے ، اس کے باوجود سڑکوں پر ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو‘‘ کے نعرے بلند
ہوتے رہے۔ گذشتہ برس جون میں ایک بار پھر تحریک میں شدت آئی۔کئی ماہ تک
پوری وادی میں کرفیو نافذ رہا،115 نوجوان فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گئے،
کاروبار زندگی معطل ہوا،مگر تحریک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی۔سب
کا ایک ہی نعرہ ہے: ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو‘‘ اور’’پاکستان کا مطلب کیا
لاالہ الااﷲ‘‘۔
کشمیریوں کی اس لازوال جدوجہد کو اپنے خون کا عظیم نذرانہ پیش کرنے والے
قائد کشمیر مقبول بٹ وادی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہندواڑہ کے ایک
گاؤں تریہگام میں ایک کسان غلام قادر بٹ کے گھر 18فروری1938میں پیدا ہوئے
وادء گل کے مکینو! میری آواز سنو
ظلم کی آگ پہ چھا جاؤ سمندر کی طرح
اور جھلسے ہوئے ویران وطن پہ ہر سُو
برف کی طرح گرو، آگ بُجھا دو یارو۔
قائدِ حریت شہید مقبول بٹ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے ہی حاصل
کی ۔آپ جن دنوں سکول میں پڑہتے تھے اس زمانے میں ایک عام روایت تھی کہ
تقریبات میں امیر اور اہلِ ثروت لوگ ایک طرف بیٹھتے تھے جبکہ غریب، نادار
لوگ دوسری طرف بالکل الگ تھلگ۔ تمام سرکاری و نجی تقریبات میں اس ترتیب کا
خاص اہتمام کیا جاتا۔ ایک دفعہ مقبول بٹ شہید بھی ان طلباء میں شامل تھے
جنہیں اعلی کارکردگی کی بنیاد پر اپنا انعام وصول کرنا تھا۔ رواج کے مطابق
سکول کی سالانہ تقریب انعامات کے لیے نشستیں اس طرح لگائی گئیں کہ امیر
طلباء اور انکے والدین کیلیے تقریب میں نشستیں ایک طرف مختص کی گئیں جبکہ
غریب اور نادار طلباء اور انکے والدین کے لیئے تقریب میں نشستیں دوسری طرف
لگائی گئیں۔دستور کے مطابق مقبول بٹ کی نشست بھی غریب اور نادار لوگوں کی
طرف لگائی گئی۔ مگر مقبول بٹ نے وہاں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ
اپنا انعام اس وقت تک وصول نہیں کریں گے جب تک تمام طلباء ایک ساتھ ایک طرف
اور تمام والدین ایک ساتھ دوسری طرف نہیں بٹھائے جاتے۔ مقبول بٹ کی یہ
تجویز قبول کی گئی اور تقریبِ تقسیمِ انعامات میں تمام والدین کو سماجی
مقام اور مرتبے سے قطع نظر ایک طرف بٹھایا گیا اور تمام طلباء کو ایک ساتھ
دوسری طرف بٹھایا گیا۔ اُس سال کے بعد گاؤں کے سکول میں ہمیشہ تقریبات میں
قائدِکشمیر کے تجویز کردہ انتظام کو ہی اپنایا گیا۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا
ہے کہ قائدِ انقلاب بچپن ہی سے سماجی اونچ نیچ اور امتیازی سلوک کے خلاف
تھے اور اپنی بات اور اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے۔
سکول کے بعد آپ نے سینٹ جوزف کالج بارہ مُولا میں داخلہ لیا۔ خواجہ رفیق
اپنی کتاب سفیرِحریت میں لکھتے ہیں کہ سینٹ جوزف کالج کے پرنسپل عیسائی
پادری شنکس نے شہیدِکشمیر حضرت مقبول بٹ شہید کی سیاسی سرگرمیوں کو دیکھ کر
ایک دفعہ کہا تھا کہ‘‘یہ نوجوان اگر زندگی کی مشکلات سے عہدہ برا ہونے میں
کامیاب ہو گیا تو ایک دن بہت بڑا آدمی بنے گا۔ لیکن اس قسم کے لوگ اکثر
سماج میں شدید ترین مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ جس قسم کی آزادی یہ نوجوان
چاہتے ہیں اُسکا حصول بہت مشکل ہے۔ نتیجتاً یہ آزادی کی راہ میں قربان ہو
جاتے ہیں’’۔ اور قائدِ کشمیر کے ضمن میں فادر شنکس کی یہ بات حرف بہ حرف
درست ثابت ہوئی۔مقبول بٹ شہید نے گریجویشن تک تعلیم بھارتی مقبوضہ وادی
کشمیر سے ہی حاصل کی۔گریجویشن کے بعد 1958 میں آپ ہجرت کر کے چچا کے ساتھ
پاکستان آ گئے اور پشاور میں سکونت اختیار کی جہاں سے اردو ادب میں ماسٹرز
کے علاوہ آپ نے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا۔ 1961 میں آپ نے پشاور سے
کشمیری مہاجرین کی نشست پر کامیابی سے الیکشن لڑا۔1961 میں ہی آپ نے راجہ
بیگم کے ساتھ شادی کی۔ 1962 میں آپ کے فرزند جاوید مقبول بٹ پیدا ہوئے۔
1963 میں آپ نے ذاکرہ بیگم کے ساتھ دوسری شادی کی۔ 1964 میں پہلی اہلیہ سے
ہی آپ کے دوسرے بیٹے شوکت مقبول بٹ نے جنم لیا۔ جنہوں نے تعلیم مکمل کرنے
کے بعد اپنے عظیم باپ کے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ شوکت مقبول بٹ پرامن اور
جمہوری جِدوجُہد کے ذریعے اپنے باپ کے خواب کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہیں
۔
اپریل 1965 میں آپ نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر قوم پرست سیاسی جماعت
محاذ رائے شماری کی بنیاد رکھی۔ 12 جولائی 1965 کو محاذ رائے شماری کا مسلح
ونگ بنانے کے لیے قرارداد پیش کی گئی مگر یہ قرارداد محاذ کے اعلیٰ سطحی
اجلاس میں اکثریت رائے سے مسترد کر دی گئی۔ 13 اگست 1965 کو آپ نے چند ہم
خیال دوستوں کے ساتھ مل کر محاذ رائے شماری کے خفیہ مسلح ونگ این ایل ایف
کی بنیاد رکھی ۔1966 میں آپ کو اﷲ تعالیٰ نے دوسری بیگم سے بیٹی لبنیٰ سے
نوازا جو آپ کی تیسری اور آخری اولاد ہیں۔آپ این ایل ایف کو تشکیل دینے اور
اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیئے 10 جون 1966 کو کچھ ساتھیوں کے ہمراہ
جنگ بندی لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چلے گئے جہاں آپ نے این
ایل ایف کے لیے تنظیم سازی اور تربیت کے کام کا آغاز کیا۔ مگر بھارتی
سیکورٹی فورسز کو قائدِکشمیر کی سرگرمیوں کا علم ہو گیا اور انہوں نے آپ کے
خفیہ ٹھکانے کو تلاش کر لیا۔ 14 ستمبر 1966 کو سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ
ہوئی جس میں آپ کا ساتھی اورنگزیب شہید ہو گیا جبکہ کرائم برانچ سی آئی ڈی
کا انسپکٹر امر چند بھی اس جھڑپ میں مارا گیا۔ آپ کو دو ساتھیوں کے ساتھ
گرفتار کر لیا گیا اور سری نگر سنٹرل جیل میں قید کر کے بغاوت اور امر چند
کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ یہ مقدمہ انڈین پینل کوڈ کے دشمنی ایکٹ 1943 کے
تحت قائم کیا گیا۔ جبکہ اگست 1968 میں کشمیر ہائیکورٹ نے اس مقدمے میں
سزائے موت سنائی۔ آپ نے عدالت کے فیصلے کے بعد جج کو مخاطب کر کے کہا ’’جج
صاحب! وہ رسی ابھی تیار نہیں ہوئی جو مقبول بٹ کیلیے پھانسی کا پھندہ بن
سکے''۔ 9 دسمبر 1968 کو مقبول بٹ شہید جیل کی دیواروں میں شگاف ڈال کر فرار
ہونے میں کامیاب ہوگئے اور برف پوش پہاڑوں کو عبور کر کے 23 دسمبر 1968 کو
چھمب کے مقام سے آزادکشمیر میں داخل ہوئے۔ 25 دسمبر 1968 کو انھیں دوبارہ
گرفتار کر کے مظفرآباد کے بلیک فورٹ میں قید کر دیا گیا جہاں ان پر بے پناہ
تشدد کیا گیا۔ تاہم محاذ رائے شماری، این ایل ایف اور این ایس ایف کے
زبردست مظاہروں کے بعد 8 مارچ 1969 کو انکی رہائی کے آرڈر جاری ہوگئے جس کے
بعد آپ نے سیاسی سرگرمیوں پر تمام تر توجہ مرکوز کی اور نومبر 1969 میں آپ
کو محاذ رائے شماری کا مرکزی صدر بنا دیا گیا۔ مگر قائدِ انقلاب حضرت مقبول
بٹ نے اپنی خفیہ عسکری سرگرمیوں کو ترک نہ کیا اور این ایل ایف کے لیے
رکنیت سازی اور تنظیم سازی کا کام جاری رکھا۔ آپ الجیریا، فلسطین اور
ویتنام کی تحاریکِ آزادی سے بہت متاثر تھے۔ آپ نے این ایل ایف کے ممبران کی
تربیت انہی خطوط پر کی۔
30 جنوری 1971 کو آپ سے تربیت حاصل کر کے دو نوجوانوں ہاشم قریشی اور اشرف
قریشی نے بھارت کا طیارہ اغواء کیا اور اسے لاہور لے آئے۔ ہائی جیکروں نے
بھارتی جیلوں میں قید این ایل ایف کے دو درجن کارکنان کی رہائی کا مطالبہ
کیا مگر بھارت نے اس مطالبے کو تسلیم نہ کیا چنانچہ مسافروں کو رہا کرنے کے
بعد یکم فروری 1971 کو طیارے کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ پاکستانی قوم نے اس
موقع پہ کھل کر ان کی حمایت کی۔ آپ کے اس اقدام نے مسئلہ کشمیر کو نہ صرف
نئی زندگی عطا کی بلکہ دنیا کے سامنے نہایت طاقتور انداز میں پیش بھی
کیا۔آزادکشمیر میں ان دنوں سردار قیوم خان کی حکومت تھی۔ سردار قیوم نے
اپنے بھائی غفار خان کومقبول بٹ کے پاس یہ تجویز دے کے بھیجا کہ آپ اعلان
کریں کہ یہ طیارہ المجاہد فورس کے گوریلوں نے اغواء کیا ہے۔ اس کے بدلے میں
آپ کو منہ مانگی دولت اور آزادکشمیر کے اقتدار میں حصہ دینے کی پیشکش کی
گئی مگر آپ نے اس سودا بازی کو ٹھکرا دیا۔ حکومتِ پاکستان نے کوہاٹ میں آپ
کے ساتھ مذاکرات کیے اور آپ کو پاکستان کی شرائط کے مطابق کام کرنے پر
رضامند کرنے کی کوشش کی گئی مگر آپ نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا۔ چنانچہ
حکومتِ پاکستان نے آپ کو سینکڑوں ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا اور جس ایکٹ
کے تحت آپ پر بھارت نے 1966 میں مقدمہ قائم کیا تھا اسی ایکٹ کے تحت
پاکستان نے 1971 میں آپ پر اور این ایل ایف کے دیگر سینکڑوں کارکنان پر
مقدمہ قائم کیا۔ مئی 1973 میں رہا ہونے کے بعد مقبول بٹ نے محاذ رائے شماری
اور این ایل ایف کو دوبارہ منظم کرنا شروع کیا۔ رہائی کے بعد منگلا قلعہ
میں وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے آپ کے ساتھ مذاکرات کیے اور آپ
کو پیشکش کی کہ آپ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ بھٹو نے آپ کو آزادکشمیر
کی وزارتِ عظمیٰ دینے کا وعدہ کیا۔ مگر جواب میں مقبول بٹ کا کہنا تھا کہ
’’ہماری منزل آزادکشمیر کی وزارتِ عظمیٰ نہیں بلکہ کشمیر کی مکمل آزادی اور
خودمختاری ہے’’۔مقبول بٹ نے بھٹو کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اعلان کیا کہ
وہ عوام سے فیصلہ لیں گے۔ چنانچہ محاذ رائے شماری نے 1975 کے انتخابات میں
حصہ لیا۔ بابائے قوم نے آزادکشمیر اسمبلی کے 1975 کے انتخابات میں دو
نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیا مگر بھٹو نے نہ صرف آپ کو بلکہ محاذ کے
تمام امیدواروں کو ہرا دیا اور اپنی مرضی کے نتائج مرتب کیے۔ آزادکشمیر کی
سیاست سے مایوس ہو کر مئی 1976 میں مقبول بٹ کچھ ساتھیوں کے ساتھ پھر جنگ
بندی لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ مگر چند دن بعد ہی آپ
کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور سابقہ مقدمے کی فائل دوبارہ کھول دی گئی۔
ہائی کورٹ تو پہلے ہی آپکو سزائے موت دے چکی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی
1978 میں ہائیکورٹ کی دی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا۔ چنانچہ آپ کو تہاڑ
جیل دہلی میں منتقل کر دیا گیا۔ فروری 1984 کے پہلے ہفتے میں برطانیہ کے
شہر برمنگھم میں چند کشمیریوں نے بھارتی قونصل خانے کے ایک کلرک رویندرا
مہاترے کو اغوا کر کے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ مگر تین دن بعد
مہاترے کی لاش ملی۔ اس اقدام کے بعد 11 فروری 1984 کو اس عظیم قائدِ حریت
کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا۔ تختہ دار پر آپ کے آخری الفاظ
تھے‘‘میرے وطن تو ضرور آزاد ہو گا ۔۔۔’’آپ کے جسدِ خاکی کو ورثاء کے حوالے
بھی نہیں کیا گیا بلکہ آپ کو جیل کے احاطے میں ہی دفن کر دیا گیا۔شہید
مقبول بٹ آج بھی بھارت کی جیل میں قید جیسے اپنے وطن کی آزادی کے منتظر
ہوں۔انہوں نے اپنی پوری زندگی جدوجہد آزادی کے لیے وقف کردی اور اپنی متاع
جاں بھی اپنے مادر وطن پہ نچھاور کرکے تا ابد امر ہوگئے۔ اور اپنے پیچھے رہ
جانے والے جانثاران وطن کے لیے ایک ایسی تاباں و جاوداں مشعل جلاگئے جسکی
روشنی میں آزادی کے پرستار دیوانے وطن کی آزادی تک ہمیشہ جدوجہد کرتے رہیں
گے اور ایک دن انہی خونی چراغوں سے پھوٹتی آزادی کی لو سے وادی کشمیر جگمگا
اٹھے گی۔
تحریر : ڈاکٹر رابعہ اختر
|