عاصمہ جہا نگیر ۔شہر میں اک چرا غ تھانہ رہا

عاصمہ جہا نگیر مظلوموں کے لئے امید کا ایک چرا غ ہی توتھیں ایک سی دبنگ خا تون جنھیں دیکھ کر غریبوں اور مظلوموں کوحوصلہ بھی ملتا اور چھپر چھا یا کا احساس بھی ہو تا تھا ان کی اچانک موت کی خبر نے ہم سب کو گنگ کر کے رکھ دیا ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ تو اتنی بہا در ہیں کہ موت کو بھی شکست دے سکتی ہیں ایک ایسے ملک میں جہا ں کا نصف خواتین پر مشتمل ہو مگر بد قسمتی سے یہ اکثر یت شد ید معا شی ، سیا سی اور سما جی استحصا ل کا شکا ر ہو ں عو ر توں کی ذ ہا نت کو بے وقوفی ان کے حقو ق ما نگنے کو بغا وت ورا ن کی تعلیم کو بے را ہ روی سے تعبیر کیا جا تا ہو لڑ کیوں کے اسکو ل اس لیے تبا ہ کر دیے جا تے ہو ں کہ کہیں علم کی رو شنی میں اپنی زند گی کے اند ھیروں کو اجا لوں میں نہ تبد یل کر لیں جہا ں عور توں کے گھر سے با ہر قدم نکا لنے پر قدم قدم پر رکا و ٹیں حا ئل ہوتو ہم جیسے تیسر ی دنیا میں رہنے والے عوام میں کسی عورت کی کا میا بی ایک تا زہ ہو ا کا جھو نکا معلو م ہو تی ہے عا صمہ جہانگیر کی یہ جیت نہ صر ف ان کی اپنی بلکہ پو رے پاکستا ن کی خواتین کے لیے فخر کا مقام اور ایک تا زہ ہو ا کا جھو نکا تھا27 اکتو بر کو عا صمہ جہا نگیر کا سپر یم کو رٹ با ر ایسو سی ایشن کے الیکشن میں صدر بنیں تھیں ا نھوں نے پا کستا ن کی تاریخ میں پہلی سپر یم کورٹ بار کی خا تون صدر کا اعزازاپنے نا م کر وایا جو اس با ت کی دلیل ہے کہ اگر کو ئی جر ائت مند ی ، محنت اور خلو ص سے کسی مقصد کو پا نا چاہے تو کو ئی مشکل اس کے راہ میں رکا وٹ نہیں ڈال سکتی نیز ان کی کامیا بی میں ان تما م روشن خیال پا کستا نی مر دوں کا بھی حصہ تھا جنھو ں نے بلا مرد وزن کی تفریق کے کا میابیوں میں ان کی ر ہنما ئی کی۔

محترمہ عا صمہ جہا نگیر صاحبہ27جنو ری 1952 کو کر اچی میں پید اہوئیں کنیرڈ کالج سے بی اے کیا، اس کے بعد 1975 میں پنجا ب یو نیو رسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حا صل کی اپنے کیر ئیر کے آغا زمیں ہی وہ انسانی حقو ق کے علم بر داروں میں شامل ہو گیئں تھیں ان کی تعلیم و تر بیت میں ان کی تعلیم یا فتہ اور روشن خیا ل والدہ ان کے نا نا اصلا ح الدین اور والد مر حوم ملک غلا م جیلا نی کی شخصیت کا بے حداثر رہاجن کی ساری زندگی قانون کی پا سداری ، ا صولو ں کی عمل داری اور دستورکی با لا دستی کے لیے جد جہد کر تے گزری اپنی حق گو ئی کی سزا میں وہ اکثر جیل کی سزائیں اور گھر میں نظر بند یاں بھگتتے رہے وہ ما رشل لاء حکو مت کے نا نصا فی کے خلا ف بلاجھجک بولتے اور لکھتے رہے یہی خوبی عا صمہ جہا نگیر صاحبہ کے خون میں بھی ودیعت کر گئی انھو ں نے بھی سا ری زند گی انسانی حقو ق کی عمل داری اور جمہوری اقدار کی سر بلندی کا پر چم سر نگوں نہیں ہو نے نہیں ہو نے دیا یہی وجہ ہے کہ نہ صر ف پا کستا ن بلکہ بین الا قوامی سطح پر بھی ان کی خد ما ت اور جد وجہدکو قدرکی نگا ہ سے دیکھا جا تا ہے وہ شروع سے ہی پا کستا نی ڈکٹیٹر ز اور ان نام نہا د عقیدے اور روشن خیا لی کا لبا دہ اوڑھے اندر سے ایک غا ضب اور خلق خدا کے پید ائشی حقوق غضب کر نے والوں کے لیے درد سر بنی رہیں وہ جس قدر شدت پسندی اور بے با کی سے کھر ی کھری سچی با تیں کہ جا تیں اس کے لیے یقینا شیر کا جگر چا ہیے ان کے مخالف ان کی تقریر وں اور تحر یر وں سے ہمیشہ پر یشان رہتے تھے۔

قانون کے پیشے سے وا بسطہ ہو نے کے بعد انھوں نے غریب اور بے سہا را عورتوں،بچوں اورمردوں کے مقدمے بڑے خلو ص سے لڑئے عورتوں سے مطلق قانو نی پیچید گیوں کو سلجھانے کی انھوں نے بہت سعی کی خا ص طور پر قا نون شہا دت کے زمرے میں آنے والی بے گنا ہ خواتین کی ہر ممکن قا نو نی مدد کر تی رہیں ان کے اس جہا دمیں ان کے شو ہر، بہن حنا جیلا نی اوران کے کو لیگز نے ان کے بھر پورساتھ دیا 1980ء میں اپنی بہن حنا جیلا نی کے ساتھ مل کر پا کستا ن کی پہلی لا ء فرم کا آغاز کیا اسی سال ایک وومن ایکشن فورم کے نام سے ایک تحر یک شروع کی جس کا مقصد حکو مت پر دبا ؤ ڈا ل کر امتیا زی قوا نین کو ختم کرایا جا سکے ان کے نمایا ں کا موں میں قا نو ن شہا دت کے خلا ف قوانین کو بہترکر ناہے حدود آر ڈینس کے سلسلے میں 1983ء لا ہور میں پنجاب وومن و کلا ء ایسو سی ایشن کے ساتھ مل کرایک عوامی مظا ہرہ کیا جس کی پا داش میں پو لیس کی لا ٹھی چا رج اور نظر بندی کی سزا پا ئی انکے اور ان کی ساتھیو ں کی کو ششوں سے ایچ ، آر، سی ،پی کاقیا م عمل میں آیا غریب اوربے سہا را لو گوں کی قا نونی مد دکرنا ان کاپسند یدہ مشغلہ تھاانھوں نے بھٹہ مز دوروں کے حقوق کی جنگ ، بچوں کی جبری مشقت کے خلا ف آواز اٹھائی پا کستا ن کی اقلیتی بر ادری جن میں عیسا ئی ،ہندو اور دیگرمذا ہب شامل ہیں ان کو انصا ف دلا نے کے لیے بہت جد و جہد کی جہا ں کہیں کسی با اثر کے ہا تھوں ستائے ہو ئے کو ئی غریب بے سہا را پر ظلم وزیا دتی کی اطلا ع ان تک آئے یہ بی بی فورا آستین چڑ ھا کر پل پڑ یں اسے انصاف دلا نے کی جد جہد میں لگ جا تیں۔

ایک ایسے معا شرے میں جہا ں عورت آج بھی پا ؤں کی جو تی سمجھی جا تی ہو ان کی بیداری سما ج کے اصولوں سے بغاوت کے متر ادف اور نا قا بل معافی جرم بن کر دیگر عورتوں کے لیے عبرت بنا دی جا تی ہوں اور سروے رپو ٹ بھی کہتی ہو کہ پاکستان میں تما م بڑے عہدوں پر90 نی صد مر د جب کہ صرف دس فی صد پر خوا تین فا ئز ہیں وہا ں عا صمہ جہانگیرجیسی خواتین کی کا میا بی ا ن عو رتوں کے لیے ایک ہمت افزاء مثا ل بنی رہی کہ بے شک ذہا نت کسی کی میر اث نہیں! زندگی کے کھرے اور سچے تجربوں گرد وپیش کی دنیا سے مشا ہدوں نے ان کے شعور کو وسعت بخشی اپنی بصیرت کے مطا بق اپنے تجر بوں کو بیان کر نے کی صلا حیت بھی ان کے اندر حیرت انگیز تھی عا صمہ جہانگیرنے عدلیہ کی بحالی کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا آئین اور قا نو ن کی با لا دستی میں ہمیشہ غیر جانبد اری سے کا م لیا اس با ت کا اعادہ اپنے اعزاز میں دی گئی ایک تقریب سے خطا ب کرتے ہو ئے انھو ں کہا تھاکہ ’’ ہمیں آئین اور قانون کی با لا دستی کے لیے کا م کر نا ہے بار ایسو سی ایشن کو اپنی صفوں میں اتحاد پیداکر نا ہے ہمیں عدلیہ کی آزادی کے لیے ابھی بہت کا م کر نا ہے ،، اس میں کو ئی دو رائے نہیں کہ قا نو ن کی بالا دستی کے لئے ان کی خدما ت نا قا بل فراموش رہیں گی پورا ملک ان کی آنا فا نا موت سے دکھی ہے عا صمہ جہا نگیرکی با مقصد زندگی کا سفر اس قدر جلدی اور اچا نک ختم ہو گا یقین نہیں آتا زندگی کے آخری سفر پر روانہ ہو گئی ہیں پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی عا صمہ جہا نگیر کے وفات کی خبر پر جو محبت، عز ت و احترام اور سوگواروں کا ہجوم انھیں نصیب ہوا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے،
 

Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 161180 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.