اﷲ پاک جنرل (ر) حمید گل مرحوم کو غریق رحمت کردیں۔
مرحوم کے پاکستان کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ امریکہ جب افغانستان
پر چڑھائی کررہا تھا، اسی وقت جنرل صاحب نے کہدیا تھاکہ نائن الیون بہانہ
ہے ، افغانستان ٹھکانہ ہے جبکہ پاکستان نشانہ ہے۔ مرحوم انہی لوگوں میں سے
تھے جنہوں نے پرویز مشرف کو امریکہ کے آگے سجدہ ریز ہونے سے روکنے کی بہت
کوشش کی تھیں۔ آج حمید گل ہم میں موجود نہیں لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ وہ
جو کہہ رہے تھے، ٹھیک کہہ رہے تھے۔
یہ یقینا ًہم پاکستانیوں کے لیے باالخصوص اور امت مسلمہ کے لیے بالعموم
خوشی کا موقع ہے کہ امریکا اپنے بچھائے ہوئے دام میں خود ہی پھنس گیا اور
پاکستان کے متعلق اپنے عزائم کو پورا نہ کرسکا لیکن یہ سچ ہے کہ ان کی جانب
سے سازشوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس ’’مشن ‘‘ میں
صاحب بہادر تنہا نہیں بلکہ بھارت بھی ان کے دم چھلے کا کردار بخوبی نبھا
رہاہے۔ اب جبکہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ دو ٹوک الفاظ میں
امریکہ کے Do Moreکے جواب میں No More کہہ چکے ہیں تو امریکی قیادت کا پارہ
بھی چڑھ گیا ہے۔ پچھلے دنوں قبائلی علاقے میں ڈرون حملہ ہو یا سوات کے
علاقے کبل میں پاک آرمی کے یونٹ پر حملہ ہو جس میں ایک آفسر سمیت تیرہ فوجی
جوانوں نے جانیں قربان کردیں۔یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وطن عزیز کے
خلاف دشمن بلا تفریق اپنی ’’مشن‘‘ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ سوات
حملہ ایک ایسے وقت میں ہواہے کہ اس سے چند روز پہلے افغان دارالحکومت کابل
کے ایک انتہائی حساس علاقے میں افغان مزاحمت کار ایک کامیاب کارروائی کرکے
امریکی غبارے سے ہوا نکال چکے ہیں۔ اس حملہ کے بعد کابل اور واشنگٹن دونوں
نے پاکستان کو مورد الزام ٹہرایا ۔ افغانستان میں طالبان کی ہر کارروائی کو
پاکستان کے کھاتے میں ڈالنا اب امریکا نے اپنا وتیرہ بنالیا ہے۔ قابل ذکر
بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی فورم پر اب تک یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ
پاکستان واقعی حقانی نیٹ کے پشتیبان بنا ہوا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ یہ اصولی
مؤقف اپنایا ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں کسی بھی صورت
مداخلت نہیں کررہا لیکن ساتھ میں یہ امید بھی رکھتا ہے کہ امریکا اور
افغانستان بھی ایسے اقدامات اٹھائے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف
استعمال نہ ہو۔ اس حوالے سے پاکستان نے متعدد بار متعلقہ فورم پر احتجاج
بھی کیا ہے لیکن اس کا کچھ نتیجہ نہیں نکلا ۔ افغان سرزمین سے ہی پلاننگ
کرکے اب تک متعدد بار پاکستانی درسگاہوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ پاک فوج
پر حالیہ حملہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ افغان سرزمین بدستور پاکستان
کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کو رد
نہیں کیا جاسکتا کہ کبل حملہ کابل حملے کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا ہو۔ اب
یہ پاکستانی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس حوالے سے کیا حکمت عملی اپناتی
ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ سفارتی محاذ پہ احتجاج کے علاوہ پاکستان کو چاہیے کہ
وہ متعلقہ ممالک پر یہ بات دوٹوک انداز میں واضح کردیں کہ اگر آئندہ اس طرح
کا کوئی سانحہ رونماء ہواتو پھر پاکستان جوابی کارروائی کرنے کا بھر پور حق
رکھتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو قطعاً پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہم
دیکھ رہے رہے کہ پاکستان سے کہیں زیادہ کمزور ممالک امریکی چوہدراہٹ کو
قبول کرنے سے یکسر انکاری ہیں اور عزت کی زندگی جی رہے ہیں ۔ پاکستان تو
پھر بھی الحمداﷲ ایٹمی طاقت ہے، جس پاس اب اﷲ پاک کے رحم و کرم سے ہر قسم
کے سامان حرب بنانے کی صلاحیت موجود ہیں۔ دوسری طرف اسلامی دنیاکے طاقت ور
ممالک اور بعض دوست ممالک ہمہ وقت پاکستان کو مشکل حالات میں ساتھ دینے کے
لیے تیار ہوں گے ۔ اس کے علاوہ بہتر سفارت کاری کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ہم
اپنا نقطہ نظر دنیا پر واضح کرسکتے ہیں بلکہ دوستوں میں اضافہ بھی کرسکتے
ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے لیے لازم ہے کہ پاکستان جرات اور ہمت کا مظاپرہ
کریں ۔ دوسری طرف حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ بہر صورت ایسی حکمت عملی اپنائے
کہ جس سے افغانستان میں پاکستان کی دوستوں کی تعداد بڑھ جائے ، ناکہ دشمنوں
کی۔ میرے خیال میں یہ کام اتنا مشکل نہیں کہ آخر ہم نے کئی سال تک افغانوں
کو اپنے ہاں ٹہرائے رکھا۔ البتہ ضرورت اس مر کی ہے کہ اب جب وہ واپس جارہے
ہیں تو ہمیں چاہیے کہ انہیں دھکیلنے کی بجائے باعزت طریقے سے ان کوان کے
مقامی رسم ورواج کے مطابق رخصت کردیں۔ جاتے جاتے اگر حکومت پاکستان ان کے
ساتھ کچھ مالی مدد بھی کردیں تو اس کے یقیناً مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اس
طریقے سے جب وہ رخصت ہوں گے تو وہ آنکھوں میں آنسو جبکہ دل میں پاکستان کا
محبت لے کر جائیں گے۔ جب ہم عزت و احترام کے ساتھ ان کو الوداع کریں گے تو
کل کو وہ اپنے ملک میں بھی ہمارے کام آئیں گے۔ پھر اگر انہیں کوئی کتنا ہی
پر کشش پیشکش کیوں نہ کردیں ، وہ کسی بھی صورت پاکستان کے خلاف استعمال
نہیں ہوں گے ۔لیکن اگر ہم نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا تو پھر یاد رکھیں
کہ انڈیا ایسے ہی کسی موقعے کے تاک میں ہے۔ پھر وہ افغانوں کو گمراہ کرکے
پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کرے گا۔ ایک اور اہم بات یہ
کہ اب جبکہ آرمی چیف امریکا کو نو مور کہہ چکے ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ
قبائلی علاقوں کے مسائل فوری حل کرنے کی کوشش کریں۔ ساتھ میں قبائل کی جو
جائز مسائل ہے انہیں فاالفور حل کرنے لیے اقدامات اٹھائے۔ اس کے ساتھ ہی
سول و عسکری اداروں کو ایسی حکمت عملی اپنانی چاہیے کہ جس سے یہ پتہ چل سکے
کہ کون کون سی عسکری تنظیموں کے ’’را‘‘ کے ساتھ روابط ہیں ۔ پس جن کے را کے
ساتھ کسی بھی قسم کے روابط ہو انہیں پورے قوت سے کچل دینا چاہیے۔ آخر میں
اس بات پر کالم کا اختتام کرنا چاہتاہوں کہ مشکل کی اس گھڑی میں پوری قوم
فوج کے ساتھ ہیں۔ اﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |