26جنوری کو جب مودی حکومت یومِ جمہوریہ منا رہی تھی تو
دنیا بھر کے کئی اہم دارالحکومتوں میں کشمیری اور سکھ اسے بلیک ڈے کے طور
پر منا رہے تھے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ بھارت سے علیحدگی چاہنے والوں کا جوش
جذبہ دیدنی تھا اور جگہ جگہ ’’فری کشمیر‘‘، ’’فری خالصتان‘‘ اور ’’فری
ناگالینڈ‘‘ کے مطالبے سامنے آئے۔ بھارت کے یوم جمہوریہ پر پوری دنیا میں
بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا جارہا تھا اور بھارت کے خلاف احتجاجی
مظاہرے کیے جارہے تھے۔ غیر ملکی میڈیا ان مظاہروں کو دکھاتا رہا۔ برطانیہ،
اٹلی، امریکا، بلجیم کے شہر برسلز اور کئی دیگر ممالک میں زبردست احتجاج
ہوا۔ احتجاجی مظاہروں میں بڑی تعداد میں کشمیریوں اور سکھوں نے شرکت کی۔
مظاہرین نے مقبوضہ کشمیر اور مشرقی پنجاب میں بھارتی مظالم کی مذمت کی اور
کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔احتجاج میں شریک سکھ مظاہرین نے
خالصتان کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر برٹش فرینڈز آف کشمیر کی جانب
سے فری کشمیر کی مہم کا آغاز بھی ہوا، جس کا نعرہ ہے ’’بھارت کشمیر چھوڑ دو‘‘۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر، بلکہ بھارت کی متعدد ریاستوں
خالصتان، ناگا لینڈ، مانی پور میں بھی بھارتی حکومت ظلم و ستم کررہی ہے اور
ان خطوں میں بھی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ اسی طرح پاکستان یورپ دوستی
فیڈریشن کی زیر اہتمام بلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں کار ریلی نکالی گئی۔
شرکاء نے اپنی گاڑیوں پرآزاد آسام، آزاد خالصتان، مقبوضہ کشمیر کی آزادی،
اقلیتوں پر ظلم و بربریت بند کرو والے پوسٹر اٹھا رکھے تھے۔ یہ اپنی نوعیت
کی پہلی ریلی تھی، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کرنا
تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور بھارت کا مکروہ چہرہ
دنیا کو دکھانے کے لیے اشتہاری مہم برطانیہ، یورپ، امریکا اور اٹلی سمیت
دنیا بھر میں شروع کردی ہے۔ تشہیری مہم میں کشمیر سمیت بھارت کے زیر انتظام
علاقوں میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے غیر انسانی سلوک اور اقوام متحدہ
کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزیوں کو بل بورڈز اور گاڑیوں پر ڈیجیٹل سسٹم کے
ذریعے اجاگر کیا جارہا ہے۔ اٹلی کے شہر بریشیا میں پچھلے سالوں کی طرح یوم
یکجہتی کشمیر کے موقع پر پانے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے
پاکستانی کمیونٹی کی نمائندہ تنظیموں تحریک کشمیر اٹلی اور پاکستان سپریم
کونسل بریشیا (پی ایس سی بی) نے میلانو میں ایک بہت بڑا احتجاج آرگنائز کیا۔
وہاں سپریم کونسل بریشیا کے زیراہتمام بریشیا سٹی میں دو ہفتے کے لیے فری
کشمیر پبلسٹی مہم کا آغاز کیا گیا، جس میں پبلک ٹرانسپورٹ کی مختلف روٹس پر
چلنے والی بسوں پر فری کشمیر کی اشتہاری مہم آویزاں کی گئیں۔ اس مہم کے
پہلے فیز سے نہ صرف مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر مزید اجاگر ہوگا، بلکہ مظلوم
اور نہتے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا شاندار اظہار ہوگا اور 8 لاکھ
انڈین فورسز کی مظلوم کشمیری عوام کے ماورائے عدالت قتل و غارت کی مذمت بھی
ہوگی اور اٹلی کے عام عوام بھی اس سے آگاہی حاصل کرسکیں گے۔ نئے اقدامات کے
بعد بھارتی سفارتخانے میں ہلچل مچ گئی اور بھارتی حکام نے اس مہم کا اثر
زائل کرنے کے لیے سر جوڑ لیے ہیں۔مختلف ممالک کی سڑکوں پر کشمیر اور
خالصتان کی آزادی کے مطالبے کے بینرز والی گاڑیوں نے بھارتی حکام کی نیندیں
حرام کر دیں ہیں۔بھارتی حکومت اور ‘‘را’’ لندن میں فری کشمیر اور فری
خالصتان مہم سے بوکھلائے ہوئے ہیں۔ انڈین ہائی کمیشن کے باہر احتجاج دبانے
کے لیے مودی سرکار کے حمایت یافتہ چیلوں نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے۔
بھارتی میڈیا بھی چیخنے چلانے لگا۔ بھارتی ہائی کمشن کے سامنے احتجاج کرتے
ہوئے انتہا پسند ہندوؤں نے حملہ آور ہونے کی کوشش کی اور مہم کو سبوتاژ
کرنے کی بے سود کوشش کی۔ لارڈ نذیر کا کہنا ہے ڈرانے دھمکانے کی کوششیں
رائیگاں جائیں گی۔ مہم کو پہلے سے زیادہ تیزی سے چلائیں گے اور اسے دوسرے
شہروں تک بھی پھیلائیں گے۔ لارڈ نذیر نے بتایا کہ بھارت میں پسے ہوئے طبقے
کے حقوق کے لیے شروع کی جانے والی مہم جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں۔لارڈ
نذیراحمد نے لندن میں کشمیری،سکھ برادری اور دیگرکی طرف سے ‘‘فری کشمیر ‘‘
فری خالصتان’’ فری ناگالینڈاورفری آسام مہم شروع کی، جس کا آغاز 26 جنوری
کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے دن سے کیا گیا۔ اس دن بسوں پر پوسٹر لگا کر
سنٹرل لندن میں تشہیر کی گئی۔ اپریل میں لندن میں ہونے والی کامن ویلتھ
ممالک کی کانفرنس کے موقع پر ان کی مہم زور پکڑے گی۔ کانفرنس میں بھارتی
وزیر اعظم کے دورہ کے موقع کشمیری، سکھ اور دیگر اس مہم میں تیزی لائیں گے۔
کشمیر، خالصہ اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں جاری تحریک آزادی کے عہدیدار
اس مہم میں پیش پیش ہیں۔ بھارتی فورسز برسوں سے نہتے کشمیریوں پر مظالم کے
پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر سے متعلق کشمیر کی ایک انسانی حقوق
تنظیم کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوجیوں
نے ریاستی دہشتگردی کی جاری کارروائیوں میں جنوری 1989ء سے اب تک 95136 بے
گناہ کشمیریوں کو شہید کیا ہے، جن میں 7245 کو دوران حراست شہید کیاگیا۔ ان
واقعات سے 22,788 خواتین بیوہ، 107,800 بچے یتیم، 10,229 خواتین کی بے
حرمتی، 8ہزار سے زاید افراد کو حراست کے دوران لاپتا، 106,025 عمارتوں کو
تباہ، ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار، جب کہ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت
سیکڑوں کشمیریوں کو مختلف جیلوں میں قید کیا گیا۔ ایک لاکھ 36 ہزار سے زائد
کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا۔ دہشت گردی اور بدامنی کا الزام لگا کر اس
دوران کشمیریوں کے ایک لاکھ سے زاید گھروں کو بھی مسمار کردیا گیا۔ بھارت
نے کشمیری عوام میں جدوجہد آزادی کی روح سرے سے ختم کرنے کے لیے کشمیریوں
کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، لیکن غیور کشمیری بھارت کے مظالم کے
سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ ویسے تو کشمیری روز اول سے بھارت کے
سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنی آزادی کی آواز اٹھا رہے ہیں، لیکن اب انہوں نے
مختلف ممالک میں اپنی آزادی کے حوالے سے اشتہارات کے ذریعے آگاہی مہم شروع
کردی ہے۔ جبکہ دوسری جانب سکھوں نے بھی بھارت سے علیحدہ ہونے کے لیے تحریک
تیز کردی ہے۔ آزادی کے متوالے بھارت کے خلاف ایک ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر میں
موجود سکھوں نے بھارت کو کرارا جواب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ ’’خالصتان کو
آزاد کرو‘‘ تحریک دنیا بھر میں پھیل گئی۔ بھارت خالصتان کی تحریک کوطاقت کے
بل بوتے پر کچلنا چاہتا ہے، لیکن ہرگزرتے دن کے ساتھ اس تحریک میں نیا جوش
اور ولولہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ سکھوں کی عالمی تنظیم نے فیصلہ کرلیا کہ وہ
دنیا بھر میں قائم گوردواروں اور کمیونٹی سینٹرز میں اب کسی صورت بھارتی
آفیشل، وزیر یا سفیر کو قدم رکھنے نہیں دیں گے۔ اس سلسلے میں باقاعدہ مہم
کاآغاز کردیاگیا ہے۔ سکھ تنظیموں نے خالصتان کی تحریک کو کامیاب بنانے اور
2020 ریفرنڈم کے لیے بھرپور مہم جوئی شروع کر دی ہے۔ دنیا بھر میں آباد سکھ
برادری نے اپنے آزاد وطن کے لیے بھارت کے اندر اور بھارت کے باہر بھرپور
مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ خالصتان تحریک جس میں 40ہزار سے زاید سکھ
بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں اور اندرا گاندھی کے بعد ہندو تنظیموں
نے سکھوں کا قتل عام کیا تھا اور شواہد کے مطابق سکھوں کے خلاف ڈیتھ اسکواڈ
کی قیادت کانگریس کے اہم رہنماؤں نے بھی کی تھی۔ بھارتی میڈیا کی بعض
اطلاعات کے مطابق خالصتان کے قیام کے لیے بھارتی پنجاب میں آزادی کی مہم اب
پوری دنیا میں پھیل رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ سکھ اس تحریک کا حصہ بن رہے
ہیں۔ تحریک کے ذمہ داروں اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 80ء اور 90 ء کی
دہائی میں بھارتی حکومت کے مظالم سے تنگ آ کر 90 فیصد سکھ دنیا کے مختلف
ممالک میں آباد ہو گئے تھے اور اب وہ مالی طور پر کافی مستحکم ہو چکے ہیں
اور خالصتان تحریک کے لیے مہم چلانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
واضح رہے کہ ستمبر میں جنیوا میں بھارت کی سرپرستی میں متعدد مقامات اور
بسوں اور دیگر گاڑیوں پر ایسے پوسٹر آوازیں کیے گئے تھے، جن پر بلوچستان کی
آزادی اور پاکستان میں اقلیتوں سے مبینہ طور پر ناروا سلوک کے بارے میں
نعرے درج تھے۔ پاکستان نے جنیوا میں چلائی جانے والی 'فری بلوچستان' کی
پوسٹرز مہم پر سوئس حکومت سے دو بار احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ اس
'شر انگیز' مہم میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ پاکستان نے
فری بلوچستان' نامی پوسٹرز مہم کی فنڈنگ کا الزام انڈیا پر عائد کرتے ہوئے
سوئٹزرلینڈ کی حکومت سے اس مہم کو بند کروانے کا مطالبہ کیا تھا اور اس مہم
کے خلافپاکستان کے صوبہ بلوچستان کی اسمبلی نے سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے
خلاف تشہیری مہم کی مذمت کرتے ہوئے اسے ملک کی خودمختاری اور بلوچستان کے
خلاف ایک منظم عالمی سازش قرار دیا تھا۔حکومت پاکستان نے ’فری بلوچستان‘ کے
پوسٹرز مہم پر سوئس حکومت سے احتجاج کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ اس
’شرانگیز‘ مہم میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس سلسلے میں
جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے دفتر میں پاکستان کے مستقل مندوب فرخ عامل نے چھ
ستمبر کو اپنے سوئس ہم منصب کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں اس اشتہاری مہم کو
پاکستان کی سالمیت و خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے اپنے خدشات سے آگاہ
کیا تھا۔ تاہم سوئس حکام کی جانب سے کوئی کارروائی نہ ہونے پر پاکستان کے
دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات سوئس سفیر کو طلب کیا تھا اور جنیوا
میں ’پاکستان مخالف‘ تشہیری مہم پر احتجاج کیا تھا۔ اس مہم کے بعد نومبر
میں برطانیہ کے دارالحکومت لندن کی ٹیکسیوں پر فری بلوچستان مہم کے پوسٹرز
لگائے گئے تھے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے برطانوی دارالحکومت لندن میں
ٹیکسیوں پر لگے ’فری بلوچستان‘ کے اشتہار پر برطانیہ سے احتجاج کرتے ہوئے
اسے ملکی سالمیت پر براہ راست حملے کے مترادف قرار دیا تھا۔ سیکرٹری خارجہ
تہمینہ جنجوعہ نے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر ٹومس ڈرو کو طلب کر کے ان
سے لندن میں چند ٹیکسیوں پر لگے اشتہارات پر تشویش کا اظہار کیا تھا،
برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے کے احتجاج پر لندن کے ٹرانسپورٹ کے ادارے
(ٹی ایف ایل) نے شہر کی ڈبل ڈیکر بسوں پر نمودار ہونے والے پاکستان مخالف
اشتہارات کو ہٹائے جانے کی کارروائی شروع کر دی تھی۔ پاکستانی ہائی کمشنر
کے حکام نے کہا کہ پاکستان دشمن ایک منظم لابی مستقل اس طرح کی کارروائیوں
کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ جبکہ ایک بار پھر ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن نامی تنظیم
نے گزشتہ سال دسمبر میں لندن کے بعد امریکی شہر نیو یارک کے مصروف ترین اور
مشہور ترین علاقے ٹائمز سکوائر میں ’فری بلوچستان‘ کا اشتہار لگادیے تھے،
اس تنظیم کی سرپرستی بھارت کر رہا تھا۔بھارت کے رد عمل میں لارڈ نذیر نے
کشمیری، سکھ اور بھارتی مظالم کے زیر اثر دیگر اقوام کو ساتھ ملا کر مہم
شروع کردی اور بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنا شروع کر دیا ہے، جس کے بعد
بھارت کا نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ |