آزادکشمیر میں اختیار وسائل کا شور اورعدالتی احساس؟؟

آزادکشمیر میں اختیار وسائل کا شور اورعدالتی احساس؟؟

آزادکشمیر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے بلدیاتی ایڈمنسٹریٹرز معطل کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے ‘ جس کے لیے حکومت نے اپیل دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا حکومت بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی ہے تاہم بلدیاتی حلقہ بندیوں کے حوالے سے لوگوں نے عدالت العالیہ میں رٹ پٹیشن دائر کرتے ہوئے حکم امتناعی حاصل کیے ہوئے ہیں تو نئی مردم شماری کے اعداد و شمار کا اعلان نہیں کیا گیا ہے جس کے تحت حلقہ بندیاں ہوں گی اس لئے وقت درکار ہے ‘ بلدیاتی ادارے مقامی حکومتوں کی حقیقی جمہوری نظام کا تصور ہیں اور حقیقی باعمل سیاسی کارکنوں کا حق ہے ان کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور خدمت کے مواقع میسر آئیں جس طرح ان کا عوام سے رابطہ ہوتا ہے اور جواب دے ہوتے ہیں اس طرح اور کوئی نہیں ہوتا ‘ حالانکہ سول سرونٹ سمیت سب کو جواب دے ہونا چاہیے ‘ایک اور اپیل میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کرتے ہوئے محکمہ مال کے دو کلرکوں کو رہائی دلائی ہے جو سرکاری عمارات کیلئے زمین خریداری کے فنڈز بنکوں سے نکلوا کر خرد برد کے الزام میں گرفتار تھے ‘ ان کے وکیل سینئر قانون دان عطاء اللہ چک نے بتایا سرکاری طریقہ کار کے مغائر ان کی گرفتاریاں اور پھر کمپیوٹر چوری کا جھوٹا مقدمہ بنانا درحقیقت اصل ذمہ دار بڑے آفیسران کو بچانے کیلئے حربہ اختیار کیا گیا ‘ سپریم کورٹ نے اس کیس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس کو حکم دیا ہے ‘ ناقص تفتیش میں شامل پولیس آفیسران کو فوری معطل کیا جائے ‘ اور دیانتدار آفیسر سے تفتیش کرا کر دوماہ کے اندر رپورٹ پیش کی جائے ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا یہ محسوس کیا گیا ہے ‘ پولیس آفیسران کیخلاف کارروائی کے عدالتی احکامات پر چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے ‘ جو ناقابل برداشت ہے ‘ سپریم کورٹ کے سامنے یہ کیس اور عدالتی احکامات سے چشم پوشی کی مثال کا اظہار وہ تلخ حقیقت ہے جس نے ناصرف محکمہ پولیس بلکہ سارے ہی معتبر اداروں سے لیکر محکموں سرکاری غیر سرکاری شعبہ جات میں سب سے خطرناک ناسور بن کر سارے نظام کو اپنے پنجوں میں جھکڑ رکھا ہے ‘ یہاں کشمیر ایشو ہو یا عوامی ایشوز ہوں ان سب کے نام پر عوامی جذبات اور ان کی محرومیوں کے زخموں پر نمک چھڑک کر اپنے مفادات کا تحفظ ہی کیا جاتا رہا ہے ‘ مشکلات مسائل کا برقرار ہونا مراعات یافتہ لابیوں کیلئے جادوکی چھڑیاں بنی رہی ہیں جن کو گھما کر علاقہ برادری کے عام لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بطور ریوڑ بنا کر استعمال کیا جا تا ہے جبکہ صرف عزیز و اقارب یا جائز غیر جائز خواہشات پر تابع رہنے والوں کو نوازا جاتا رہا ہے اوپر سے نیچے تک ہر طرف ہر جگہ چہرے دیکھ کر ہی کام ہوتے ہیں ‘ قانون حرکت کرتا ہے فیصلے ہوتے ہیں ورنہ دو کلرکوں سے پہلے اصل جن کا اختیار حکم چلتا تھا ان کو پکڑ کر پابند سلاسل کیا جاتا پھر یہاں آئی جی کیا کرے گا اصل مسئلہ اختیار وسائل کا نہیں بلکہ تعصبات اور جی حضوری کی بالادستی کا ہے ورنہ وہ سب اختیار وسائل پاس ہیں ان کے انصاف پر مبنی استعمال میں کون سا آر بلاک (اسلام آباد) حائل تھا بجلی کی ناقص لائنوں کے باعث سالانہ پانچ ارب کے نقصان گرد سٹیشن سے لیکر ہسپتالوں تک جدید ٹیکنالوجی مشینوں کے استعمال کی صلاحیت سے محرومی کا ذمہ دار کون ہے اگر واقعتا تحریک کشمیر کی ترجمانی اور عوامی فلاح و بہبود مقصد ہے تو پھر گلگت بلتستان والے جس کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کے ساتھ ملکر نیشنل پارلیمنٹ ‘ قومی اقتصادی کونسل ارسا سمیت فیصلہ ساز اداروں میں چاروں صوبوں جیسے وقار کے ساتھ نمائندگی کا حل نکالیں یقیناًعقیدہ ختم نبوت آئین کا حصہ بنانے سے تحریک کشمیر اور عالمی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے بلکہ فائدہ ہو گا تو چاروں صوبوں کی طرح حقوق کے ساتھ ذمہ داریوں کا فریضہ ادا کرنے کا فیصلہ کرنے سے بھی ریاست تحریک اور عالمی حیثیت پہلوؤں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ‘ بلکہ قومی فیصلوں میں شامل ہو کر آزاد خطہ کے حقوق کے تحفظ ذمہ د اریوں کی ادائیگی سے عالیشان ترقی ‘ فلاح و بہبود ہونے سے تحریک ریاست کو فائدہ ہی فائدہ ہو گا مگر اس کے لیے وقتی چٹخارے نہیں بلکہ سب بیماریوں کی اصل وجہ کا دیرپا علاج کا راستہ اختیار کرنا ہو گا ؟؟؟ ورنہ شوروغل اور بحث برائے بحث کے چکر لگوانے کا کھیل سینگ لگوانے کے شوق میں کان بھی کٹوا دینے کا حادثہ ہی نہ بن جائے ؟؟؟

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 148977 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.