جنرل قیوم ملک ---- کیا چکوال ریلوے بحالی ایک خواب ہی تھا؟

چکوال سے مندرہ تک کم و بیش ایک درجن ریلوے اسٹیشن بنائے جائیں گے۔ ایسے ریلوے اسٹیشن ہوں گے کہ جن کو دیکھ کر ترقی یافتہ ممالک کا احساس ہو گا۔ ہر ریلوے اسٹیشن پر ائیر کنڈیشن لگے ہوں گے۔ مسافروں کے بیٹھنے کے لئے آرام دہ انتظار گاہیں بنائی جائیں گی۔ پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے گا۔ خوبصورت صاف ستھرے واش روم بنائے جائیں گے۔ ہر ریلوے اسٹیشن پر بڑی LED لگی ہو گی۔ ہر ریلوے اسٹیشن پر خوبصورت ٹکٹ گھر بنائے جائیں گے اور صفائی کا عملہ ہر وقت اپنے کام میں مصروف عمل نظر آئے گا۔ میں جب سینیٹر بنا تو سب سے پہلے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو چکوال ریلوے بحالی کے حوالے سے خط لکھا۔ اُن کو چکوال ریلوے بحالی کی اہمیت بتائی کہ اس ریلوے اسٹیشن کی اہمیت کلرکہار میں سیمنٹ فیکٹریاں لگنے سے اور بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ اگر اس ریلوے اسٹیشن کو کلرکہار سیمنٹ فیکٹریوں تک لے جایا جائے تو پھر اس سے قیمتی سڑکیں نقصان سے بچ سکتی ہیں، چونکہ ان پر جب ہیوی ٹریلر چلتے ہیں تو پھر سڑکیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ ابھی میں چین کے دورے پر گیا تو وہاں بھی میں نے چکوال ریلوے بحالی کے حوالے سے بات کی۔ قارئین محترم! یہ باتیں میری نہیں ہیں، یہ باتیں چیئرمین دفاعی پیداوار سینٹ کمیٹی و سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبد القیوم ملک کی ہیں جب وہ چکوال پریس کلب میں ایک دن ’’میٹ دی پریس‘‘ میں گفتگو کر رہے تھے۔ اُن کی باتیں سن کر میں ایسے محسوس کر رہا تھا جیسے میں واقعتا کسی ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا ہوں۔ اُن کی باتیں مجھے حسین سپنا لگ رہی تھیں اور میں واقعتا ایک لمبے خواب میں چلا گیا تھا۔ ابھی تقریباً ایک سال بعد میری آنکھ کھلی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ تو صرف حسین خواب ہی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنرل قیوم ملک صاحب باتیں بہت خوبصورت کرتے ہیں مگر باتیں کرنے اور عمل کرنے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے آج کا فارغ نوجوان اپنی محبوبہ کو اتنے حسین خواب دکھاتا ہے جیسے میں تمہاری خاطر آسمان سے تارے توڑ کر لے آؤں گا، میں تمہاری خاطر جان بھی دے دوں گا مگر اُس کی محبوبہ کو تارے نہیں چاہئیں، اُس کی جان بھی نہیں چاہئے اُس کو اُس کا خوبصورت گھر، اچھی سی گاڑی، اچھا رہن سہن اور خوشحال زندگی چاہئے۔ مگر اس کے لئے بہت محنت اور کام کرنا پڑتا ہے اور کام آج کی نوجوان نسل کر نہیں سکتی چونکہ وہ تو وٹس ایپ، یوٹیوب، ٹیوٹر اور فیس بُک پر کام لگ چکے ہیں۔ جنرل قیوم صاحب بھی ایسے ہی خوبصورت باتیں کرتے ہیں۔ سینیٹر بننے کے بعد انہوں نے خود اپنی مرضی سے اہلیان چکوال کے لئے ایک ٹارگٹ سیٹ کیا تھا مگر وہ بھی پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اب تو شاید اُن کو یہ ’’یاد دہانی‘‘ بھی اچھی نہ لگے۔ یقینا وہ چاہتے ہوں گے کہ لوگ بھول جائیں جیسے سابق ضلعی ناظم سردار غلام عباس نے اُس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سے جعلی تختی لگا کر چکوال ریلوے بحالی کا افتتاح بھی کرا دیا تھا، ایسے ہی جنرل صاحب بھی چاہتے ہوں گے کہ اب اس بات کو یاد نہ کیا جائے مگر ہم کیسے بھول جائیں اب تو قبضہ مافیا ریلوے پولیس چوکی کی موجودگی میں دھڑا دھڑ قبضہ کرتا ہوا نظر آرہا ہے کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ ریلوے اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیز، مارکیٹیں اور دکانیں بن رہی ہیں۔ آخر میں صرف اتنی گذارش ہے کہ چکوال ریلوے اراضی اربوں کی مالیت کی ہے، اگر اس کو محفوظ بنا سکتے ہیں تو بنا لیں ورنہ وہ دن دُور نہیں کہ آپ کہا کریں گے کہ یہاں پر بھی کوئی ریلوے ٹریک ہوا کرتا تھا۔ اپنی آنے والی نسل کو کیا دے کر جا رہے ہیں۔ کچھ تو احساس کریں، کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ کیا حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے، کیا حکومتی اتنی کمزور ہو چکی ہے۔ کیا وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ اُن کے گھر پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور وہ اُس کا نوٹس نہیں لے رہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭
 

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 63651 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.