فاٹا اصلاحات

فاٹا (Federally Administerated Tribal Areas) ایک قبائلی علاقہ ہے اور قبائلی علاقوں کو وفاقی حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ ان پر آئین اور پارلیمنٹ کی کوئی چیز عمل درآمد نہیں ہوتی اور اس کی ایگزیکیٹو اتھارٹی پریزیڑنٹ کے پاس ہوتی ہے۔ اور پریزیڑنٹ گورنر کو اختیارات دیتا ہے، اور گورنر پولیٹیکل ایجنٹ کو۔ اسی طرح ہر ایجنسی میں دو سے تین پولیٹیکل ایجنٹ اور پانچ سے دس اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیئے جاتے ہیں۔ فاٹا کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ یہاں عظیم الیگزینڈر، سلطان محمود غزنوی اور برٹش بھی آئے اور برٹش نے دو جنگیں بھی لڑیں 1834 اور 1878 میں کابل کے خلاف۔ فاٹا کی ٹوٹل آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے۔ اس کے تین بارڈر ہیں افغانستان، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان۔ خیبرپختونخواہ کا فاٹا سے 90 فیصد سے زیادہ رقبہ ملتا ہے۔ فاٹا کے سات ضلعے ہیں جنہیں ایجنسی بھی کہتے ہیں۔ ان سات ضلعوں میں بارہ MNA اور آٹھ سینیٹرز ہیں۔ باجوڑ ایجنسی، خیبر، اورکزئی، کرم، جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور مہمند ایجنسی یہ فاٹا کے سات ضلعے ہیں۔ ان سات ضلعوں میں سے چھ شہر خیبرپختونخواہ کے شہروں سے ملتے ہیں جنہیں Frontier Region بھی کہتے ہیں۔ یہاں ایجوکیشن ریٹ قریب 33.7 فیصد ہے۔ یہاں صحت کا نظام بہت حد تک خراب ہے۔ پچھلی ایک دھائی میں پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہونے والا خطہ فاٹا ہے اور فاٹا کے مکین سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگ ہیں۔ ان کے روزگار کے ذرائع تباہ ہو چکے ہیں اور اس دوران ہزاروں معصوم جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ یہاں آئی ڈی پیز کی تعداد 2014 میں ایک رپورٹ کے مطابق 800000 کے قریب پہنچ گئی تھی۔ لیکن اب پاک فوج کے جاری کیئے گئے آپریشنز کی وجہ سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے۔ اب 90 فیصد لوگ اپنے گھروں میں واپس منتقل ہو چکے ہیں۔ اس وقت وہاں پر فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR) قانون رائج ہے، جو 1905 میں بنا تھا اور ابھی تک نافذ ہے۔ جسے کالا قانون کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بہت سی ایسی ظالمانہ چیزیں ہیں جو بشری حقوق کے خلاف ہیں۔ یعنی اگر کسی خاندان کا ایک فرد غلط کام کر کے بھاگ جاتا ہے تو وہ خاندان کا دوسرا بندہ پکڑ کر لے جاتے ہیں، اس کے گھر کو مسمار کر دینا وغیرہ۔ یہ بدقسمتی سے اکیسویں صدی میں بھی ہم کو دیکھنیکو مل رہا ہے۔ 1905 میں بھی اسے نافذ کرتے وقت انگریز افسر نے کہا تھا، یہ ایک کالا قانون ہے، مگر ہمارے پاس اسے لاگو کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس علاقے کو مرکزی قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ ہوا۔ حکومتی کمیٹی بنی اور وقت کی کمی کا احساس ہوتے ہوئے کم وقت میں اصلاحات کا ایک پیکج تیار کر لیا گیا۔ وزیراعظم کی بااختیار لیکن مختصر کمیٹی نے عرق ریزی کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ان اصلاحات پر لگایا ہے۔ اس کے لیئے کئی دورے کیئے ہیں، اور قبائلیوں سے مل کر جو رائے قائم کی ہے اور جو تجاویز دی ہیں ان سفارشات کی روشنی میں وفاقی کابینہ نے فاٹا اصلاحات بل ایوان میں پیش کرنے کی منظوری دی، جس کے بعد مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی نے الگ صوبہ کی مہم شروع کر دی۔ حکومت کے اس موقف میں بھی وزن ہے کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کا عمل ہم نے شروع کیا، ہم ہی اسے انجام تک پہنچائیں گے۔ جہاں 70 سال کسی نے توجہ نہیں دی وہاں تھوڑا انتظار کیوں بے کل کیئے ہوئے ہے کہ یہ مسلہ اتفاق رائے سے حل کرنے کی سبیل کر لی جائے۔ جبکہ یہ نیشنل ایکشن پلان کے نکات میں بھی شامل ہے۔ فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ کی اتھارٹی کو ختم کر دیا جائے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیئے جائیں تاکہ لوگ ہتھیاروں کے کاروبار کو چھوڑ کر بہتر ذریعے سے آمدنی حاصل کر سکیں۔ فاٹا کے جغرافیائی حالات، معیشت اور معاشرت کو سامنے رکھتے ہوئے گورننس کا ایک ایسا نظام بنایا جائے جو فاٹا کے عوام کی امنگوں پر پورا اتر سکے اور علاقے کے تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ FCR کو ختم کیا جائے اس کی جگہ Fata Regulatory Authority تشکیل دی جائے۔ انٹرنیشنل فورسز امریکہ، انڈیا اور اسرائیل وغیرہ یہ چاہتے ہیں کہ فاٹا کو خیبر پختونخواہ سے علیحدہ کر کے افغانستان سے ملا دیا جائے اور پھر یہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کروائی جائے، اور پاکستان کو کمزور کر کے دہشت گرد ملک قرار دیا جائے۔

Mirza Rohail Baig
About the Author: Mirza Rohail Baig Read More Articles by Mirza Rohail Baig: 19 Articles with 15761 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.