اس عنوان میں کتابت کی غلطی نہیں ہے۔ یہ عظیم رہنما اپنی
اپنی تنظیموں کے لیے اس قدر سنجیدگی سے بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں کہ
ایک پر دوسرے کا گمان ہوتا ہے۔ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے فوج سے متعلق
ایک متنازع بیان دے کر سنگھ پریوار اور حکومت کو جس مصیبت میں مبتلاء کردیا
اسی طرح کا کارنامہ مولانا سلمان ندوی نے بھی انجام دے دیا۔ مولانا کے بیان
سے مسلم پرسنل لا بورڈ اور امت مسلمہ دونوں ایک بن مانگے کی آفت کا شکار
ہوگئے۔ مسلمان تو خیر ایک دلیر قوم ہے ۔ وہ اپنے اصول و ضوابط کے پاس و
لحاظ میں کسی کا مقام و مرتبہ یا رشتہ و پیوند کا خیال نہیں کرتی اس لیے
بلاتکلف مولانا کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ فی الحال
پرسنل لا بورڈ کی قیادت مولانا رابع حسن ندوی صاحب کے ہاتھ میں ہے ورنہ
شیطان کے چیلے چاپڑ طرح طرح کااختلاف پیدا کرتے اور انتشار پھیلانے کا نادر
موقع نہیں گنواتے ۔
مولانا رابع حسن اور سلمان ندوی نہ صرف ہم مکتب و ہم مسلک ہیں بلکہ ان کا
تعلق ایک ہی خوانوادہ سے ہے۔ مولانا علی میاں کے بھانجے ہیں مولانا رابع
حسن ندوی اور مولانا علی میاں کے بھائی سید عبدالعلی حسنی کے نواسے ہیں
مولانا سلمان ندوی ۔ امت کے عظیم تر مفاد میں کسی رشتے داری کاپاس و لحاظ
کیے بغیر مولانا رابع حسن ندوی نے وہی کیا جو ان کے شایان ِ شان تھا ۔اس کے
برعکس آریس ایس کے لوگ لیپاپوتی کرکے اپنے رہنما کی گلو خلاصی کرنے کی
ناکام کوشش کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہاخلاقی محاذ پر بظاہر
طاقتور نظر آنے والا سنگھ پریوار کتنا کمزور ہے اور امت مسلمہ اپنی تمامتر
کمزوریوں کے باوجود کتنی بیدار مغز اور جری ہے۔یہ معرفت و بصیرت دین اسلام
کی عطا کردہ حق و باطل کی کسوٹی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ جرأت ایمانی کا بین
ثبوت ہے کہ اپنے خلیفۂ مجاز کو بھی بغیر کسی پس وپیش کے دودھ کی مکھی کے
مانند نکال باہر کرنے میں تردد نہیں محسوس کیاجاتا۔
مولانا رابع حسن ندوی اور پرسنل بورڈ کے جملہ ارکان نے اپنے عمل سے قرآن
حکیم کے اس آیت کی تفسیر پیش کردی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف
کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری
گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی
کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن
کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور
اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ
تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔ حق و باطل کے معرکہ میں ہیر پھیر کرنے
یا منہ پھیرنے (تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُو) کی گنجائش نہیں ہے۔امت اپنی
تمامتر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود جرأت و عزیمت کی قدرداں ہے اور
بزدلی و مصالحت کو پسند نہیں کرتی اس لیے بڑی بڑی سے قیمت ادا کرکے بھی
دینی مفادات کے سودے بازی پر راضی نہیں ہوتی۔
مولانا سلمان ندوی کے حامیوں کی دلیل یہ ہے کہ ان کا موقف شرعی اعتبار سے
خاصہ مضبوط ہےاور یہ وطن عزیز سے ظلم و فساد کا خاتمہ کردے گا۔ اس دعویٰ کو
پرکھنے کے لیے اس کا موازنہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے موقف سے کیا جانا چاہیے
جس سےمولانا سلمان نے انحراف کیا ہے اور چاہتے ہیں کہ بورڈ بھی اپنا فیصلہ
بدلے۔ پرسنل لا بورڈ میں اتفاق رائے ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قبول
کرےگا۔ کیا یہ غیر شرعی یا کمزور موقف ہے؟ ہر صاحب عقل بہ آسانیاس کا
فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس سے معقول کوئی اور بات نہیں ہوسکتی ۔ جہاں تک ظلم و
فساد کا تعلق ہے تقسیم ملک سے لے کر رام مندر تحریک تک مسلمانوں کا جو ناحق
خون بہا ہے وہ اور اس تحریک کے سرد خانے میں جانے کے باوجود فرقہ وارانہ
فسادات وگوتنک واد و لوجہاد جیسے بہانوں سے ہونے والا جوروستم کئی گنا
زیادہ ہے ۔ شری شری روی شنکر جس کے ساتھ وعدہ وعید کیا جارہا ہے ہندو سماج
میں اس کی حیثیت مولانا سلمان ندوی جتنی بھی نہیں ہے۔ شری شری روی شنکر
کوتو حکومت یا سنگھ پریوار جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتا ۔ اس لیے اس
بیچارے کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے کیونکہ اس
کے پاس قوت نافذہ ا ور اختیار نہیں ہے۔
بابری مسجد کے تنازع میں ہندو شدت پسند آستھا کی بات کرتے تھے اور مسلمان
زمین کی ملکیت کو بنیاد بناتے تھے۔ حکومت ہند نے جب عدالت عظمیٰ کو روزآنہ
مقدمہ سن کر جلد فیصلہ سنانے پر آمادہ کیا تو اس نے صاف کہہ دیا ہم آستھا
کی بنیاد پر نہیں بلکہ زمین کی ملکیت کا قضیہ چکائیں گے۔ عدالت کے اس موقف
نے ہندو احیاء پرستوں کی حالت خراب کردی۔ یہ قدرت کا کرنا ہے کہ ایسا
معروضی موقف مودی سرکار کے زیراقتدار ایک براہمن چیف جسٹس نے اختیار کیا
ورنہ حکومت پر مسلمانوں کی خوشنودی کے لیے عدلیہ پر دباو ڈالنے کا الزام
لگتا۔ ہندو احیاء پرستوں اپنی شکست کو بھانپ کر چور دروازہ تلاش کرنے لگے
تو انہیں سلمان ندوی مل گئے جنہوں نے آستھا کے موقف کو تسلیم کرلیا اور
کہنے لگے ہیں کہ عدلیہ کسی ایک کے حق میں فیصلہ سناکر دلوں بانٹتا ہے اور
ہم مصالحت کرکے جوڑیں گے ۔ اس طرح گویا ملک کو جوڑنے کے لیے عدالتوں کو
توڑنے کی وکالت شروع ہوگئی؟
مولانا کواپنے موقف کی حمایت میں پنجاب و ہریانہ کی وہ مساجد یاد آنے لگیں
کہ جن پر زبردستی قبضہ کرلیا گیا ہے۔ وہ ماضی کا ایک خوفناک باب تھا اس
زمانے میں کئی مدارس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوالیکن اگر یوگی جی اس کو
نذیر بناکر جامعہ ندوہ کو گئوشالہ بنانے کی تجویز پیش کرے تو امن عامہ کے
قیام کی خاطر کیامولانا اس اقدام کا خیر مقدم کریں گے۔ اس پرخدا نخواستہ
زبردستی کی جائے تو اس خیال سے عدالت نہیں جائیں کہ وہاں سے تو دل پھٹتے
ہیں اور دلوں کو جوڑنے کی خاطر کیا ونئے کٹیار جیسے لوگوں سے مفاہمت
فرمائیں گے؟ انسان کو اپنی غلطی کا احساس ردعمل سے بھی ہونا چاہیے ۔ مولانا
کو سوچنا چاہیے کہ وہ راتوں رات اس ذرائع ابلاغ کے منظور نظر کیونکر بن گئے
جس نے دہشت گردی اور تین طلاق کے معاملات کو اچھال کر اسلام اور مسلمانوں
کو بدنام کرنےمیں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔بقول احمد فراز ؎
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمھارے ساتھ ہے کون؟آس پاس تو دیکھو
ایک دانشور فرمانے لگے کہ رام مندر کے مسئلے پر سنگھ پریوار کا ہمیشہ سے
فائدہ ہوا ہے اور مسلمان خسارے میں رہے ہیں اس لیے ہمیں چاہیے کہ مسجد بصد
شوق ان کے حوالے کردیں ۔ بھولے بھالے لوگ نہیں جانتے کہ معرکۂ جبر وجور
میں لینے والا قوی ہوتا ہے اور چھین جھپٹ کرکے مزید طاقتور ہوجاتاہے نیز
دینے اور گنوانے والے کمزورتر ہوجاتے ہیں۔ ویسے سنگھ کے دانشوروں کا خیال
ہے کہ رام مندر تحریک سے ان کا نقصان ہوا ہے۔ اسی لیے اس کا ٹھیکہ وی ایچ
پی کو دے کر وہ لوگ کنارے ہوگئے ہیں۔ رام مندر کے مہارتھی اڈوانی جی اسی
کلنک کے چلتے نہ تو وزیراعظم اور نہ صدر مملکت بن سکے ۔ مودی کے وزارت
اعلیٰ کوگودھرا فساد سے تقویت ملی ۔مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ’سب
کا ساتھ سب کا وکاس‘ والا نعرہ لگانا پڑا۔ مودی جی نے اپنی انتخابی مہم کے
دوران ایک مرتبہ بھی ایودھیا کا رخ کرنے کی زحمت نہیں کی اس لیے کہ انہیں
پتہ تھا یہ گھاٹے کا سودہ ہے۔
مولانا سلمان ندوی کو چاہیے کہ پرسنل لا بورڈ کو اپنے حال پر چھوڑ کر اولین
فرصت میں ایودھیا سدبھاونا سمنوے مہاسمیتی کے امرناتھ مشرا کے خلاف ہتک عزت
کا دعویٰ کریں ۔ یہ سمیتی شری شری روی شنکر کے آشیرواد سے بنائی گئی ہے
اور امرناتھ مشرا اس کے صدر گرامی قدر ہیں۔ انہوں نے مسلم پرسنل لابورڈ کے
صدر رابع حسن ندوی کو مصالحت کا ۸ صفحاتی خط لکھا اور اس کی نقول وزیراعظم
، یوپی کے وزیراعلیٰ اور دیگر ۶ افراد کو ایک ہفتہ قبل بھیجی ۔ مشرا کا
الزام ہے کہ مولانا سلمان نے اس سے ۲۰۰ ایکڑ زمین ، ایوان بالا کی رکنیت
اور ۱یک ہزار کروڈ روپئے کا مطالبہ کیا۔ مولانا کا کسی مشرا کو جاننے سے
انکار ناقابلِ یقین ہے۔ مشرا نے چونکہ کھلے عام یہ الزامات لگائے ہیں اس
لیے اس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جانی چاہیے محض شیطان قراردے کر اس پر
منافرت پھیلانے کا الزام لگا دینا کافی نہیں ہے۔ مولانا کو مشراجی کے اس
الزام کے بعد اندازہ ہوگیا ہوگا کہ شری شری روی شنکر اور ان کا چیلا
امرناتھ مشرا کس قدر قابلِ اعتماد ہے اور ان کے بھروسے قائم ہونے والا امن
کتنا پائیدار ہوگا۔
سلمان بھاگوت کے بعد آئیے موہن ندوی کو دیکھیں ۔ جس طرح مولانا سلمان کا
تعلق ایک محترم علمی خانوادے سے ہے اسی طرح ڈاکٹر موہن بھاگوت کا تعلق بھی
ایک سنگھی پریوار سے ہے۔ موہن بھاگوت کے والد مدھوکر راو بھاگوت سنگھ
پرچارک تھے۔ انہوں نے چندرپور کے علاوہ گجرات میں بھی سنگھ کے کام کو فروغ
دیا۔ موہن بھاگوت جانوروں کے ڈاکٹر بن کر سرکاری ملازمت کرنے لگے لیکن
۱۹۷۵ میں اپنا پیشہ چھوڑ کریکسوئی کے ساتھ زندگی سنگھ کے لیے وقف کردی اور
ترقی کرتے کرتے ۲۰۰۹ میں سب سے کم عمر سرسنگھ چالک بننے کا اعزاز حاصل
کیا۔ بھاگوت جی چونکہ جانوروں کے ڈاکٹر رہے ہیں اس لیے انسانی جذبات و
احساسات کا خیال کیے بغیر بچکانہ بیان دیتے رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج
تک کسی سرسنگھ چالک کے ساتھ ایسا تضحیک آمیزلب لہجہ اختیار نہیں کیاگیا
جیسا کہ راہل گاندھی نے بھاگوت پر تبصرے میں کیا ۔ یہ ذلت بھاگوت کے اپنے
ہاتھ کی کمائی ہے۔
مظفر پور میں آر ایس ایس کے ایک پانچ روزہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آر
ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے حال میں کہا کہ ’’اگر ضرورت پڑی اور ملک
کا آئین اجازت دے توقوم کے لیے لڑنے کی خاطر آر ایس ایس کے پاس تین دن کے
اندر ’فوج‘ تیار کرنے کی صلاحیت ہے۔فوجیوں کو اس کام کے لیے تیار کرنے میں
فوج کو چھ سے سات مہینے لگ جائیں گے، لیکن آر ایس ایس کے سویم سیوک تین دن
میں یہ تیاری کر لیں گے۔‘‘ یہ بڑا دلچسپ بیان ہے۔ اس میں دوشرائط ہیں پہلی
تو اگر ضرورت پڑی اور دوسرے ملک کا آئین اجازت دے۔ مودی جی اپنے چہیتے
اجیت ڈوبھال کی مدد سے جس طرح کی خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اس سے کسی
بھی وقت چین یا پاکستان سے جنگ ہوسکتی ہے یعنی ضرورت تو پڑسکتی ہے لیکن
دستور کی اجازت والی شرط ذرا ٹیڑھی ہے۔ اول تو کیا موہن جی بھاگوت کو اتنا
بھی نہیں معلوم کہ ہمارے ملک کا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا؟ یا اگر معلوم
ہے تو کیا یہ نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی والی فریب کاری نہیں
ہے؟
بھاگوت جی جانتے ہیں ہمارے ملک کے اندر بلند بانگ دعووں پر جی ایس ٹی نہیں
لگتا اس لیے جو من میں آئے بولا جاسکتا ہے۔ ورنہ جو سنگھ پریوار ۹۰ سالوں
میں ایک وزیردفاع پیدا نہ کرسکا وہ کس منہ سے یہ بات کررہا ہے۔ اٹل جی کے
زمانے میں جارج فرنانڈیس کو وزیر دفاع بنایا گیا ۔ جارج پر فوجیوں کے لیے
استعمال کی جانے والے تابوت میں بدعنوانی کا سنگین الزام لگا اور بالآخر
انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ مودی جی وزیراعظم بنے تو وزیرخزانہ کو یہ ذمہ داری
سونپی گئی بڑی لے دے کے بعد منوہر پاریکر کو وزیردفاع بناگیا اور پھر
وزیراعلیٰ بناکر گوا دفع کردیا گیا۔ آج کل نرملا سیتارامن وزیر دفاع ہیں
اور مودی جی خود تین گنا زیادہ قیمت ادا کرکے رافیل جنگی طیارے خرید رہے
ہیں ۔ اس سے سنگھ کی فوجی صلاحیت اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
سنگھ کی دلیری کا مظاہرہ ماضی میں کئی بار ہوچکا ہے۔ سرحد پر جاکر لڑنا تو
دور خالصتان کی تحریک کے دوران یہ لوگ پنجاب سے دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوے
تھے۔ کیرالہ میں اشتراکیوں سے مارے جانے کا ماتم یہ دن رات کرتے رہتے ہیں۔
مرکزی حکومت کے باوجود جو تنظیم اپنے کارکنا ن کی حفاظت سے قاصر ہوکیا اس
کے رہنما کی یہ بے پرکی مضحکہ خیز ہے؟ مرلی منوہر جوشی کی ایکتا یاترا کو
سرینگر کے لال چوک میں ترنگا لہرانا تھا۔ بی جے پی کے سارے رہنما جموں سے
لوٹ آئے۔ نرسمھا راو نے چند لوگوں کو ہیلی کوپٹر سے ایک فوجی چھاونی میں
بھیجا جہاں کانپتے ہاتھوں سے اوما بھارتی نے الٹا پرچم لہرا دیا۔ انڈیا
ٹوڈے کی کیسیٹ میں وہ مناظر محفوظ ہیں ۔ فی الحال جموں کشمیر کی حکومت میں
بی جے پی شامل ہے اس کے باوجود کئی بار اعلان ہو اکہ یوم جمہوریہ یا یوم
آزادی کو لال چوک پر ترنگا لہرایا جائیگا لیکن یہ خواب ہنوز شرمندۂ تعبیر
نہیں ہوسکا جبکہ وادی میں سر سے پیر تک اسلحہ بردار لاکھوں فوجی موجود ہیں۔
اس لیے راہل گاندھی کا اس بیان کو فوج کی توہین قرار دینا اور اس پر معافی
کا مطالبہ کرنے پر حق بہ جانب ہیں ۔
اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنا بھاگوت جی کا شعار ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے
کہا تھا ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر فرد ہندو ہے۔ ہندوستان کے سارے لوگ
ہندو ہیں ۔ کوئی بعید نہیں کہ بھاگوت جی آگے چل کر اعلان کردیں کہ اس ملک
کے سرے لوگ سنگھی ہیں اس طرح وہ فوج کے بھی آرایس ایس میں شامل کرکے کہہ
دیں ہماری ہی تنظیم کے لوگ سرحد پر لڑ رہے ہیں۔ کہنے میں کیا جاتاہے؟۲۰۱۵
میں وزیراعظم مودی نے اعلان کیا کہ ملک میں دستوری اعتبار سے کوئی بھی شخص
بلا لحاظ مذہب ملت کسی بھی بچے کو گود لے سکتا ہے لیکن اس کے بعد بھاگوت جی
نے کہہ دیا کہ مدر ٹریسا کی نیت خراب تھی وہ بچوں کا مذہب بدل کر ان
عیسائیت کا سپاہی بنانا چاہتی تھیں۔ اس لیے انہیں روکنا چاہیے۔
خواتین کی عصمت دری سے متعلق بھاگوت کا کہنا تھا کہ یہ بھارت میں نہیں
انڈیا میں ہوتے ہیں یعنی مغرب زدہ شہروں میں جنسی جرائم ہوتے ہیں ۔ بھاگوت
کی یہ بات غلط ہے کہ دیہاتوں میں جرائم نہیں ہوتے بلکہ شہروں میں ان کی
شکایت ہوجاتی ہے گاوں میں انہیں دبا دیا جاتا ہے۔ شہروں میں ذرائع ابلاغ کے
سبب وہ بہ آسانی منظر عام آتے ہیں دیہی علاقہ میں یہ نہیں ہوتا۔ سب سے
اہم بات یہ ہے کہ سنگھ اور بی جے پی دونوں شہروں کی تنظیمیں ہیں ۔ اب سوال
یہ ان کے اثرات کے باوجود شہروں میں آبرو ریزی کے سنگین واقعات کیوںرونما
ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی تنظیم اور حکومت کے باوجود اس پر قابو پانے میں کیوں
ناکام ہے؟ محمد اخلاق کے قتل پر یہ کہہ کر موہن بھاگوت نے اپنی اور پریوار
کی رسوائی کرائی کہ افریقہ میں ایک قبیلہ گائے کا خون پیتا ہے مگر اس کو
مرنے نہیں دیتا۔ اس احمقانہ بیان کا مطلب خود بھاگوت کے سوا کوئی نہ سمجھ
سکا ۔بہار انتخاب سے قبل بھاگوت نے ریزرویشن پر نظر ثانی کی تجویز پیش کرکے
بی جے پی کو مصیبت میں ڈال دیا۔ بڑی مشکل سے مودی اور شاہ نے اس سے پلہ ّ
جھاڑا لیکن جو نقصان ہونا تھا سو ہو گیا۔ شری بھاگوت اور مولانا سلمان
جیسوں کے ہوتے کسی تنظیم یا تحریک کو دشمن کی چنداں ضرورت پیش نہیں آتی۔
بقول شاعر؎
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
|