یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

میں اپنی بات کا آغاز میڈیا پر چلنے والی ایک چھوٹی سی خبر سے کرتا ہوں
خیبر پختونخواہ حکومت کے وزیر برائے صنعت تجارت جناب شوکت یوسفزئی صاحب کے گھر کی گیس کا کنکشن کاٹ دیا گیا ۔ شوکت یوسف زئی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں پشاور کے علاقے گلبہار میں کرائے کے مکان میں رہتاتھا ، گزشتہ دو ماہ سے گیس کا بل ادا نہ کرسکا اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز کے اہلکار آئے انہوں نے گیس کنکشن منقطع کیا اور میٹر بھی اتار کر لئے گئے ،اس ضمن میں جناب شوکت یوسف زئی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس ماہ بچوں کی اسکول فیس اور داخلہ فیس ادا کرنے کی وجہ سے ان کا بجٹ آؤٹ ہوگیا اور تنخواہ میں سے رقم نہیں بچی یو ں دو مہینے تک بل ادا نہ کرسکے اور نتیجتاً ان کا گیس کنکشن منقطع ہوگیا۔

محترم قارئین! ویسے تو یہ ایک عام سی خبر ہے کہ کسی صارف نے گیس کا بل ادا نہ کیا اور گیس کنکشن منقطع کردیا گیا جوکہ گیس کے محکمے کی معمول کی کاروائی ہے ،مگر غور طلب امر یہ ہے کہ کنکشن کس کا کاٹا گیا شوکت یوسف زئی جوکہ پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ حکومت کے ایک انتہائی اہم رہنما ہیں ، ممبر صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر برائے صنعت و تجارت ہیں اور حکمرانوں میں شمار ہوتے ہیں ۔۔۔

یہاں میرا ایک سوال ہے کہ کیا پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں کسی وزیر کے گھر کی بجلی ،گیس یا ٹیلی فون عدم ادائیگی کی بناء پر کاٹنے کا کوئی تصور کرسکتا ہے ،سندھ جہاں حکمران جماعت کے مرکز بلاول ہاؤس کے ارد گرد30 سے زائد عمارتو ں اور گھروں پر حکمران جماعت کے بندے قبضہ کرچکے ہیں اور اطراف کی تمام سڑکیں اور گلیاں بند کرکے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اور ہزاروں اہل علاقہ جوکہ متمول اور بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں مگر وہ ان کی اس کھلی بدمعاشی کے سامنے چوں بھی نہیں کرسکتے وہ علاقہ کلفٹن جہا ں بلاول ہاؤس واقع ہے کراچی بلکہ پاکستان کا انتہائی مہنگا علاقہ ہے اور وہاں رہنے والے کو ئی عام لوگ نہیں بلکہ ہائی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور سب کے بہت اعلیٰ پیمانے پر تعلقات بھی ہیں مگر سندھ کے حکمرانوں کی فرعونیت کے سامنے کوئی ٹک نہیں سکتا اور کوئی آواز بلند نہیں کرسکتا ،ابھی حال ہی میں ایک پولیس افسر جوکہ 10 سالوں سے ایک مقام پر SSPتعینات تھا اور اس نے مبینہ طور پر 450سے زائد بے گناہ لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا اور پورا پاکستان جانتا ہے کہ وہ کس سیاسی شخصیت کا ذاتی دوست اور آلۂ کار تھا اور کس کی آشیر باد سے وہ یہ سب دھندے کرتا تھامگر نقیب اللہ محسود نامی ایک قبائلی نوجوان کے ایک اور ماورائے عدالت قتل ، جسے ہمیشہ کی طرح پولیس مقابلے کا نام دیا گیا اس واقعے کے بعد اس کے برے دن شروع ہوگئے اورعہدہ چھوٹا ،اس کی ٹیم کے ارکان گرفتار ہوئے اور پھر اسے فرار ہوکر کراچی سے اسلام آباد جانا پڑا ،اور اسلام آباد سے جعلی کاغذات پر بیرون ملک فرار ہوتے ہوئے اسے روک لیا گیا اور ائیر پورٹ سے واپس کردیا گیا ۔۔۔ واپس کردیا گیا ؟ایک انتہائی مطلوب ملزم جو کہ ائیر پورٹ پر ایکسپوز ہوگیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں میں بھی آگیا صرف اسے روک دیا گیا ، گرفتار نہیں کیا گیا ،کیوں؟ اس سوال کا جواب ہے کسی کے پاس ؟ کیا یہی سلوک کسی عام مجرم یا قاتل سے کیا جائے گا کہ اگر وہ گرفت میں آبھی جائے تو صرف روکا جائے ، گرفتار نہ کیا جائے !

اب آئیں’’ بڑے بھائی ‘‘ یعنی پنجاب کی طرف جہاں تخت لاہور کے بادشاہ اور شہزادے ،شہزادیاں اپنے پورے کرو فر کے ساتھ حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں ’’ماڈل ٹاؤن ‘‘ہو یا ’’جاتی امراء‘‘ ہر جگہ ان کی فحش اور ننگی تجاوزات عوام الناس کا تمسخر اڑاتی نظر آتی ، جب بھی پنجاب کے ’’بادشاہوں‘‘ کی شاہی سواریاں گزرتی ہیں تو کئی کئی گھنٹے سڑکیں بند کرکے عوام کو دھوپ ، گرمی اور بارش میں باقاعدہ ذلیل و خوار کیا جاتاہے۔ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ان کے محلات پر پنجاب پولیس کے 2000 سے زائد اہلکار عوام کے خزانے سے تنخواہ وصول کرکے ان کی ذاتی محلات پر سیکیورٹی کررہے ہیں جن کا خرچہ اربوں روپے سالانہ بنتا ہے،ایک عدد SSP،4عددDSPپتہ نہیں کتنے درجن انسپکٹر لیول کے افسران ان کی خدمت پر مامور ہیں ۔
ایک نااہل وزیر اعظم ، جوکہ اب انشاء اللہ کسی گلی کے کونسلر تک نہیں بن سکتے وہ اعلیٰ ترین عدالت سے نااہل ہونے کے باوجود پچھلے تقریباً6ماہ سے وزیر اعظم کا پروٹوکول انجوائے کررہے ہیں اور جب بھی اپنی چوری چکاری کے مقدمات کے سامنا کرنے عدالتوں میں حاضر ہوتے ہیں تو حکومت پاکستان کے افسران کی دوڑیں لگ جاتی ہیں یہ تماشا ہم آئے روز میڈیا پر دیکھتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں کہ سبحان اللہ کیا ملک ہے ؟اور کیا نظام ہے ؟

ایک طرف یہ حکمران ان کا جاہ و حشم ہے ،ان کا تام جھام ہے جو اب درحقیت حکمران بھی نہیں ہے بلکہ ملزمان او ر مجرمان کے سطح تک پہنچ چکے ہیں اور دوسری طرف۔۔۔۔۔۔۔

شوکت یوسفزئی جو ایک کماؤ پوت منسٹری کا۔۔و زارت صنعت و تجارت کا حاضر سروس وزیر ہے مگر بے چارے کے گھر کی گیس صرف29 ہزار روپے کی عدم ادئیگی پر کٹ گئی اور وہ میڈیاکے سامنے مسکین صورت بنائے بول رہا ہے !

’’بس یار کیا کروں ،میں افورڈ نہیں کر پارہا ،تنخواہ میں بچوں کی فیس ادا کردی بل ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں بچے ‘‘

کیاسندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں کسی وزیر کی گھر کی گیس اس طرح کوئی محکمہ کاٹ سکتا ہے اور وزیر تو چھوڑئیے کسی وزیر کے چیلے کے چمچے کے مالشئیے کے کتے کے گھر کی گیس بھی اس طرح کوئی کاٹ سکتا ہے؟؟؟؟

لگتا ہے جیسے کہ کسی خلافت راشدہ کے دور کا کوئی حکمران ہو، بادشاہی میں فقیری کی زندگی گزارتے تھے یہ کیا ہے عمران خان اس کو تبدیلی کہتا ہے مگر درحقیت یہ انقلاب کا آغاز ہے اور اگر وزیر اتنے ایماندار ہوگئے تو پھر پاکستان کو ترقی کرنے اور سپر پاور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا !ایک مصرعہ اس بات کی ترجمانی کرسکتا ہے۔

؂ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
 

Kaleem Ahmed Shaikh
About the Author: Kaleem Ahmed Shaikh Read More Articles by Kaleem Ahmed Shaikh: 11 Articles with 7240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.