اگر آپ خوبصورت اور صاف سُتھرے ساحل کے دیوانے ہیں اور
تھائی لینڈ، ملائیشیا وغیرہ جا نے کا زادِ راہ نہیں رکھتے تو آئیے ہم آپ کو
ایسی جگہ لے چلتے ہیں جہاں آپکو آپ کے خوابوں جیسا ساحل، شیشے کی طرح سمندر
کا صاف پانی،انسانوں کے ہجوم سے خالی سکون سے بھری اور ارد گرد بکھرے
منٖفرد نظارے میسر ہیں۔
کراچی سے تقریبا َ ۰۴۲ کلومیٹر دور بلوچستان میں کُنڈ ملیر کے نام سے ساحل
ہے جسے بلاشُبہ پاکستان کا خوبصورت ترین ساحل قرار دیا جاتا ہے۔ آبادی سے
پرے پہاڑوں کے درمیان یہ ساحلی پٹی ایسا ہی اثر رکھتی ہے جیسے کہ صحرا میں
کوئی نخلستان۔ آپریشن ضربِ عضب کے بعد سے پاکستان کے امن و امان کی صورتحال
میں ایک جادوئی سی تبدیلی رو نما ہو چُکی ہے۔آرمی چیف اور افواجِ پا کستان
کی انتھک محنت اور قربانیوں کی بدولت یہ ممکن ہو ا کہ بلو چستان کے علاقوں
کی سیاحت کی جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ جب دوست و احباب نے بلوچستان کے ہنگول
نیشنل پا رک اور کُنڈ ملیر کی سیاحت کا پروگرامبنایا تو تھوڑی سی سوچ و بچا
ر کے بعد ہم نے ہاں کر دی۔
کراچی کے با سیوں کے لیے یہ ایک مختصر، دلچسپ، لُطف سے بھر پو رسفر ہے جس
کے لیے اپنے آفس یا کام کی جگہ سے خصوصی چُھٹی نہیں لینی پڑتی۔ہفتے کی رات
سفر کا آغا ز کریں اور اتوار کی شامواپس کراچی پہنچ جائیں۔کراچی کی مصروفیت
سے بھرپو ر، بھا گتی دوڑتی زندگی میں یہ مختصر سی سیا حت ایک خو شگوار
تبدیلی کا با عث بنتی ہے۔ہم دوستوں کا تیرہ افراد کا گروپ تھا۔ لہذا ہم نے
ہا ئی ایس کی بُکنگ کی۔عام طور پر کراچی سے اس سفر کے لیے ڈرائیور حضرات۵۱
سے ۸۱ ہزار کے درمیان کی رقم طلب کر تے ہیں جو منا سب ہے۔ اس سفر پر نکلنے
سے پہلے کچھ ضروری سامان ساتھ لے جا نا ضروری ہے جس میں کھانے کا سامان،
پینے کا پا نی، کھیل کو د کی اشیا ء وغیرہ شا مل ہے۔ ان سب کا بندوبست آپ
کو کراچی سے کر کے جا نا ہو گا وہاں اُس علا قے اور ساحل پر کچھ بھی میسر
نہیں کیو نکہ دور دور تک آبا دی کا کو ئی نا م و نشان نہیں۔جہاں اس خو
بصورت سا حل پر سہولیات کی کمی کچھ مشکلات کا با عث بنتی ہے وہیں اس ساحل
کا قدرتی حسن شاید اسی وجہ سے اب تک برقرا رہے۔بہر حال خد اخدا کر کے ہمارا
سفر اتوار کی صبح ۰۳:۳ پر شروع ہو ا(دیسی زبان میں ہفتے کی رات ۰۳:۳)۔گا ڑی
میں بیٹھتے ہی ہم تو نیند کی وادی میں کھو گئے تمام انتظامات کی تیاری میں
تھک چکے تھے۔گا ڑی کب کر اچی سے حب،حب سے گڈانی اور گڈانی سے وندر پہنچی
ہمیں کچھ نہیں پتا چلا آنکھ کُھلی تو ہم وندر میں داخل ہو چکےتھے اور صُبح
کے ۰۳:۵ ہو رہے تھے۔تقریباََ ۲ گھنٹوں میں ہم کراچی سے وندر پہنچے۔ حب سے
مکران کو سٹل ہا ئی وے کا آغا ز ہو جا تا ہے۔ مکران کو سٹل ہا ئی وے کی
تعمیر کا آغا ز ۲۰۰۲ ء میں ہو ا اور یہ ۴۰۰۲ ء میں مکمل ہو ئی۔ اس کی
لمبائی ۳۵۶ کلو میٹر ہے۔یہ نیشنل ہا ئی وے اتھا رٹی کے زیرِ نگرانی
ہے۔مکران کو سٹل ہو ئی وے کر اچی کو گوادر سے جو ڑتی ہو ئی پسنی اور اومارہ
تک جا تی ہے۔ اس ہا ئی وے کی وجہ سے کراچی سے گوادر کا سفر جو ۶ سے ۷ دنوں
میں ہو تا تھا اب ۶ سے ۷ گھنٹوں پر سُکڑ کر رہ گیا ہے۔وندر پہنچ کر ڈرائیور
نے ایک چائے کے ہو ٹل کے سامنے گا ڑی رو کی۔صبح کے ۰۳:۵ کا وقت تھا۔ ہماری
آنکھیں بھی کُھلیں۔قریب ہی ایک مسجد تھی ہم نے وہاں نما زادا کی اور نا شتے
پر ٹوٹ پڑے پیٹ بھر کر نا شتہ کیا اور یقین جا نیے مزہ آگیا۔ اب سورج کی
روشنی پھیلنے لگی ارد گرد کے منا ظر بھی واضح ہو نے لگے یہ ایک چھو ٹا سا
با زار تھا جہاں مسافر نا شتے اور چا ئے کے لیے رُکتے ہیں کیو نکہ یہاں سے
آگے کچھ ملنا مشکل ہو تا ہے۔دل میں ایک خو ف بھی تھا جو ہمارے سا تھ ساتھ
سفر کر تا یہاں تک پہنچ گیا تھا ہم ایک با ر پھر ڈرا ئیور کے پا س پہنچ گئے
جس نے ہمیں تسلی دی کہ وہ کئی با ر اس را ستے پر سفر کر چکا ہے سیکو رٹی
اطمینان بخش ہے۔مختصر سی نیند اور نا شتے کے بعد اب ہم سب کا فی ترہ تا زہ
ہو چکے تھے۔ایک با ر پھر سفرکا آغا ز ہو ا۔ مو سم کی تبدیلی کا بھی احساس
ہو ا۔کرا چی کے گرم مو سم کے مقابلے یہاں خوشگوار ٹھنڈک محسوس ہو ئی۔ گاڑی
کا اے۔سی بند کر واکر کھڑکیاں کھلوادیں۔ کو سٹل ہا ئی وے نہایت آرام دہ اور
شاندار بنی ہو ئی ہے جس پر سفر کا اپنا مزہ ہے۔وندر سے سومیا نی، اگور اور
اگور سے کُنڈ ملیر یہ ایک جا دو بھرا سفر ہے۔اگر آپ کے اندر فطرت سے ذرا سا
بھی لگا ؤ ہے تو آپ مبہو ت ہو کر رہ جا تے ہیں۔ کھڑکی سے با ہر جیسے کو ئی
اور ہی دُنیا تھی۔ایک طرف صحرا تو دوسری طرف پہاڑ ایک الگ ہی منظر ہے۔کہیں
صحرا کی ریت کا رنگ سُرخی مائل برا ؤن تو کہیں سفید۔ ایسا محسوس ہو تا ہے
کہ جیسے کسی پینٹر نے اپنی مرضی کے رنگ بکھیر رکھے ہوں۔ایسے خوبصورت اور
دلکش پہاڑ میں نے کبھی نہیں دیکھے حالانکہ میں شمالی علا قہ جا ت اور گلگت
بلتستان تک گھوم چکا ہوں سر سبز پہاڑوں سے لے کر گلیئشیر تک دیکھ چُکاہوں
لیکن ان پہاڑوں کا ایک اپنا ہی سحر تھا۔یہ ریت کے پہاڑ ایک عجیب ہی کشش لیے
ہو ئے تھے کہیں کہیں یہ پہا ڑ ریت کےٹیلوں کی شکل اختیا ر کر جا تے تھے۔ان
پہاڑوں کا قدرتی کُٹاؤ عجیب ہی تھا لیکن یہ کٹاؤ ان پہاڑوں کو ایک نا ختم
ہو نے والا سحرعطا کیے ہو ئے تھا۔اس صحرا اور ریتیلے پہا ڑوں کے درمیان سے
گزرتی شاندار کو سٹل ہا ئی وے پر سفر ایک نا قابلِ بیان سی کیفیت لیے ہو ئے
تھا۔کہیں کہیں زمین بالکل سپا ٹ ہو جا تی تھی جس پر چھو ٹے چھوٹےسے ٹیلے
قطا ر در قطا ر دور تک پھیلے ہو ئے تھے۔پہلی نظر میں ایسا محسوس ہو تا تھا
جیسے سیکڑوں کی تعداد میں قبریں ہو ں۔بعض جگہوں پر درخت اور تھوڑی بہت
ہریالی حیرانی کا با عث بھی تھی۔را ستے میں پو لیس چیک پو سٹ، کو سٹ گا رڈز
اور رینجرز کی چیک پو سٹ سے سامنا ہو ااور پو لیس والوں کی خوش خلقی پر
خوشگو ار حیرت بھی ہو ئی کر اچی سے آنے کا سُن کر ان کا رویہ نہایت
برادرانہ ہو گیا تھا۔راستے میں کہیں کہیں مقامی لو گ بھی دکھائی دیے۔ را
ستے میں ہی ڈرائیور نے ہمیں ایک جگہ گا ڑی رو ک کر کچھ قبریں دکھا ئی جن کے
بارے میں مشہو ر ہےکہ یہ محمد بن قاسم کی فو ج میں شامل سپا ہیوں کی قبریں
ہیں۔تقریبا َ ۲ گھنٹوں کے بعد ہم ہنگول کے نیشنل پا رک کے علا قے میں داخل
ہو گئے جہاں سے ساحلی پٹی بھی نظرآنا شروع ہو گئی تھی۔ یہاں ہمیں کا فی
تعداد میں لو گ نظر آئے جو ہمارے لیے حیرانی کا با عث تھے۔یہاں ہمارے لیے
ایک بُری خبر بھی منتظر تھی۔راستے میں جوہمیں لو گو ں کی اتنی تعداد نظر
آئی وہ سب ہندو یا تری تھے۔ہنگول کے نیشنل پا رک میں بہت پُرانا ہنگلا ج کا
مندر ہے جسے نانی کا مندر بھی کہا جا تا ہے۔یہاں سالانہ میلہ چل رہا تھا
اور ہندو دور دور سے اس مندرمیں حاضری کے لیے آرہے تھے۔ان کے نزدیک یہ مندر
بہت مقدس تھا ان کا ماننا تھا کہ رام سیتایہاں آئے تھے اور رُکے تھے۔ہمارے
لیے بُری خبر یہ تھی کے ہندوؤں کے علاوہ با قی تمام سیا حوں کا داخلہ منع
تھا۔ لہذا ہم وہاں سے سیدھا کُنڈ ملیر کے ساحل کی طرف چل پڑے۔منا سب جگہ
دیکھ کر ڈرائیور نے گا ڑی پا رک کی۔ سڑے سے نیچے ریت شروع ہو جا تی ہے جو
انتہائی صاف ہے اُس پر ننگے پا ؤں چلنے کا اپنا ہی لُطف ہے۔ہم سب نے اپنی
چپلیں اور جو تے وہیں اُتارے اور تمام ضروری سامان لے کر نیچے چل پڑے۔ ریت
میں پا ؤں ٹخنوں تک دھنستے جا تے ہیں جو ایک منفرد احساس سے مزین کر تا
ہے۔جیسے جیسے آپ ساحل کے قریب ہو تے ہیں ریت کم ہو تی جا تی ہے اور نم زمین
آپ کے پاؤں کو ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہے، اور پھر آپکی نگا ہ اس نظارے سے
خیرہ ہو تی ہے جس کے لیے آپ اتنا سفر طے کر کے آتے ہیں۔حدِ نگا ہ پانی ہی
پانی اونچی نیچی لہریں خدا کی قدرت اور طاقت کا احساس دلاتی ہیں۔کنڈ ملیر
کے ساحل کی خا ص بات کیا ہے جو اُسے کراچی کے دیگرساحلوں سے منفرد کرتی
ہے؟یہاں کا پا نی سبز ما ئل انتہائی صاف اور شفاف ہے عام طور پر ساحلوں کا
پانی اتنا صاف نہیں ہو تا کُنڈملیر کے ساحل کا پانی اس قدر شفاف ہے کہ آپ
اپنے پا ؤں کو پا نی کے اندربا آسانی دیکھ سکتے ہیں۔پانی کا کھا را پن بھی
کم ہے۔ساحل اتنا پیارا اور صاف ہے کہ آپ خود کو کسی بیرونِ ملک کے ساحل پر
محسوس کرتے ہیں لگتا ہی نہیں کہ یہ پاکستان کا کو ئی ساحل ہے۔اس ساحل کی
ایک خاص بات اور یہ ہے کہ اس کی ریت با ریک اور نہ چپکنے والی ہے۔کراچی کے
کسی بھی ساحل چا ہے وہ ہا کس بے ہو یا سینڈزپٹ، زیرو پو ائنٹ ہو یا منوڑہ
یا پھر سنہرا بیچ میں ان تمام ساحلی پٹی پر گھوم چکا اور سمندر میں نہا بھی
چکا ہو ں نہانے کے بعد آپ کی حالت نا گفتہ بہ ہو جا تی ہے جا بجا کپڑوں اور
جسم پر ریت چپک جا تی ہے اور جب تک آپ میٹھےپانی سے نہا نہ لیں آپکو سکون
نہیں ملتا۔لیکن کُنڈ ملیر کے ساحل پر سمندر میں نہانے سے نہ تو ریت نے چپک
کر حالت خراب کی نہ ہی ہم بھوت کی شکل میں تبدیل ہو ئے۔ساحل پر کہیں کہیں
خو بصورت پہاڑ ی پتھر ہیں جن کے قدموں سے لہریں جب آکر اپناماتھا رگڑتی ہیں
تو ایسا محسوس ہو تا ہے جیسے ساحل کے اوپرچھو ٹے چھوٹے جزیرے وجو دمیں آگئے
ہو ں۔ ساحل کے اوپر تھو ڑادور چلنے کے بعد مچھیروں کی کشتیاں اور اُن کے جا
ل نظر آتے ہیں جب آپ اُن کو پا ر کر کے تھو ڑا اور آگے جا ئیں تو ساحل ایک
ایسے کُٹاو میں تبدیل ہوتا جس کا حُسن بیان کرنے سے زبان قاصر ہو جا تی
ہے۔دا ئیں اور با ئیں دو نو ں طرف پہاڑی پتھر ہیں جو حجم میں کا فی بڑے ہیں
جن میں قدرتی چھوٹے چھوٹے سے سوراخ بن گئے ہیں یہ سوراخ ان پتھروں کو ایک
عجیب سی شکل عطا کرتے ہیں ایسا محسوس ہو تا ہے جیسا کہ یہ قدرتی جالی دار
پتھر ہوں۔یہ پتھر اتنے خو بصورت اور سحر انگیز ہیں کہ آپ رُکنے پرمجبور ہو
جا تے ہیں۔ہم نے بھی ان پتھروں کے ساتھ ڈھیر سا ری تصاویر کھنچوائیں۔خو ب
سا ری مستیاں کیں۔پا نی میں نہائے ایک دوسرے کو زبردستی پا نی کے غو طے
دیے۔ بھوک نے ستا یا تو واپس ساحل پر پہنچ گئے۔ یہاں یہ بات بھی آپکے گو ش
گزار کرتا چلوں کے حکو متی سطح پر تو اس ساحل کے لیے کچھ نہیں کیا گیا لیکن
مقامی افراد نے یہاں آنے والوں کے لیے با نس کے ڈنڈوں اور درختوں کی چھال
سے چھو ٹے چھوٹے ہٹ بنا دیے ہیں جس کا کرا یہ وہ ۰۰۵ سے ۰۰۰۱ کے درمیان
لیتے ہیں۔
یہ ہٹ لینا اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنا سامان یہاں رکھ سکتے ہیں اور اس سے
آپکو سایہ بھی میسر ہوتا ہے۔ہٹ نما جھو پنڑ میں پہنچ کر ہم نے کھا نا کھا
یا،کو لڈڈرنک پی آخر میں چائے کا بھی انتظام تھا۔ کھا نے کے کچھ دیر بعد
ساحل پر ہم کرکٹ کھیلنے لگے۔ساحل پر کرکٹ کا اپنا ہی لُطف ہے۔ اب سورج کا
سفر مشرق سے مغرب کی جا نب آدھے سے زیا دہ طے ہو گیا تھا۔ڈرائیور نے ہمیں
واپسی کا اشارہ کیا۔ ہم الوداعی طو ر پر ایک با ر پھر سمندر میں کُود پڑے۔
دل تو نہیں تھا کہ اس جا دو بھری جگہ کو چھو ڑ کر جا ئیں لیکن تمام تر
صورتحال کے باوجود رات کا سفر خطرنا ک تھا لہذا اندھیرا ہو نے سے پہلے وندر
پہنچنا لا زمی تھا۔ دوپہر ۳ بجے واپسی کےسفر کا آغاز ہو ا۔ اُنھی منا ظر کو
دیکھتے ہو ئے بلو چستان اور اس کی سر زمین سے ایک عجیب سی محبت اور اپنا
ئیت کا احساس ہو رہا تھا جیسے کہ اپنے ہی گھر کے کسی کمرے میں جا نے سے رو
کا گیا ہو اور تا لہ لگا دیا گیا ہو تو جب پہلی با ر آپکو اس کمرے میں جانے
کا مو قع ملے تو ایک عجیب سا احسا س، اپنا ئیت، تجسس سا ہو تا ہے آپ کمرے
کی ہر چیز کو غور سے دیکھتے اور چھو کر محسوس کرتے ہو ئے خودکو یہ یقین دلا
تے ہیں کہ یہ چیزیں آپکی بھی ہیں یہ کمرہ بھی آپکے گھر کا حصہ ہے۔بس کچھ
ایسا ہی احسا س اس وقت مجھ میں تھا۔معلوم نہیں کہ با قی افراد بھی ایسا
محسوس کر رہے تھے یا نہیں۔شام ۷ بجے ہم واپس کرا چی ایک نئے سفر، احساس اور
تجربےکے ساتھ پہنچ چُکے تھے۔آپ سب کو کم از کم ایک با ر یہاں ضرور جا نا
چاہیے۔ |