امن لائین آف کنٹرول ہی نہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی ناگزیر ہے

راجہ مظفر صاحب کے استفسار پہ میں نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ ''آزاد کشمیر حکومت کا مطالبہ ہی امن ہے کہ کشمیر ہی نہیں جنوبی ایشیا میں بھی امن و ترقی کے لئے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ پرامن حل ناگزیر ہے۔تحریک آزاد ی کشمیر کی نمائندہ حکومت کے طور پر آزاد کشمیر حکومت کا قیام بھی کشمیریوں کے عزم آزادی کا اظہار ہے۔بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام کی شدید مزاحمت پر ہر طرح کے انسانیت سوز مظالم اور قتل و غارت گری کے باوجود ناکامی کا منہ دیکھتے ہوئے کشمیر کی سیز فائر لائین (لائین آف کنٹرول) پر فائرنگ اور گولہ باری کرتے ہوئے جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے۔کسی کو بھی یہ تاثر ہر گز نہیں لینا چاہئے کہ آزاد کشمیر کے غیور عوام بھارتی جارحیت سے مرعوب ہو کر مقبوضہ کشمیر کے اپنے بہن بھائیوں کے مصائب اور ان کے عزم آزادی کی غیر متزلزل حمایت سے پیچھے ہٹ جائیں گے''۔

ریاست کشمیر کو تقسیم کرنے والی سیز فائر لائین(لائین آف کنٹرول) کے مختلف علاقوں میں بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری میں تیزی آتی جا رہی ہے۔غیر فطری طور پر قائم اس لائین آف کنٹرول نے کشمیر کے خطے ہی نہیں بلکہ کشمیر کے لوگوں،خاندانوں کو بھی جبری طور پر تقسیم کر رکھا ہے۔لائین آف کنٹرول کے دونوں طرف شہری آبادیاں ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری سے شدید متاثر ہو رہی ہیں۔لبریشن فرنٹ کے ایک سنیئر رہنما جناب راجہ مظفر نے شیئر کردہ سوشل میڈیا پہ اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ '' اننت ناگ کشمیر سے آزادی پسند رہنما محمد یعقوب بھٹ صاحب نے بڑی اچھی تجویز دی ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر اور بھارتی زیر تسلط کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی ایک مقررہ تاریخ پر پاکستان اور بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے سیز فائر لائن پر ہو رہی فائرنگ بند کرانے کے لئیے اپنی اپنی اسمبلی ممبران کے ہمراہ دھرنا دیں احتجاج کریں ۔راجہ فاروق حیدر اور محبوبہ مفتی پہلے سے فائرنگ کی مذمت کر چکے ہیں اب اگر اس طرح کا مجوزہ مظاہرہ کا اہتمام کریں تو یہ ایک اچھا سیاسی اقدام ہو گا ۔میرا خیال ہے کہ ان کی تجویز پر عمل کرنے سے پوری دنیا کی توجہ مبذول ہو گی''۔

اس پوسٹ پہ میں نے اپنے کمنٹ میں کہا کہ ''پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر میں جنگ بندی لائین کا قیام مسئلہ کشمیر کے حل کے پہلے اقدام کے طورپر عمل میں لایا گیا تھا۔ہندوستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ پرامن حل سے انکار کی ہٹ دھرمی کے جواب میں مقبوضہ کشمیر میں مسلسل عوامی مزاحمت اور نہتے کشمیریوں کے خلاف مسلسل فوج کشی سمیت ہر طرح کے ظلم و ستم ،قتل و غارت گری کے ماحول میں سیز فائر لائین، جسے پاکستان اور ہندوستان نے باہمی طور پر سیز فائر لائین سے تبدیل کر کے لائین آف کنٹرول کا نام دیا اور اس اتفاق کے باوجود لائین آف کنٹرول دونوں ملکوں کے آئوٹ آف کنٹرول ہے ، پر امن کی توقع امن کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن ایس ہونا زمینی حقائق کے پیش نظر ممکن نظر نہیں آتا۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارت سے آزادی کا تہیہ کر رکھا ہے اور اس کے لئے بالخصوص گزشتہ تیس سال سے زائد عرصہ کی جدوجہد اور قربانیاں ایسی زندہ حقیقت سے جسے کوئی دوسرے معنی پہناتے ہوئے پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔اصل معاملہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے عزم آزادی کی جدوجہد اور قربانیاں ہیں اور اس مسئلے کے منصفانہ پر امن حل تک سیز فائر لائین (لائین آف کنٹرول) پر امن کی توقع خود فریبی ہی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں جاری و ساری جدوجہد اور قربانیوں کے اعتراف سے انکار کے بھی مترادف ہو سکتا ہے۔کیا یہ مناسب بات ہے کہ اس تجویز کی اپیل میں صرف سیز فائر لائین(لائین آف کنٹرول) پر امن کی بات کی گئی ہے،بھارتی مقبوضہ کشمیر میںامن کے تقاضے پورے کرنے پر نہیں۔''

اس پر راجہ مظفر صاحب کا کہنا ہے کہ ''میرا خیال ہے کہ اگر آپ بات آگے بڑھاتے ہیں تو دونوں جانب کی کشمیر کی حکومتیں عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئیے کچھ اقدامات اٹھانا چاہئے ۔ میں جو بات کہہ رہا ہوں کہ کشمیر کیس پر آزاد حکومت کا کوئی عمل دخل ہے ہی نہیں سوائے بیانات دینے کے اسی طرح محبوبہ مفتی کے اختیار میں نہیں کہ وہ امن لانے کے لئیے کوئی ا قدم اٹھا سکیں ۔ ہاں بیانات داغی جاتے ہیں ۔میں ان دونوں کے دائرہ اختیار اور احاطہ کار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس تجویز کی حمایت کی کہ اس اقدام سے یعنی دونوں جانب سے ایک دن اور ایک وقت میں ایک بڑا مطالبہ دنیا کی توجہ مبذول کرے گا ۔کشمیر آزاد نہیں ہو جاے گا ،وانی صاحب چلیں ایک قدم آگے بڑھ کر راجہ فاروق حیدر صاحب سے کہیں کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں فوجی انخلا کا مطالبہ کریں اور محبوبہ مفتی Demilitarization کی بات کریں ''۔اس پر میرا جواب یہی تھا کہ ''آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اور کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے '' بال دونوں ملکوں کے کورٹ '' میں ہے ۔ اگر حقیقت سے دیکھا جائے تو پاکستان تو مزاکرات پر آمادہ ہے لیکن بھارت مزاکرات پر آمادہ نہیں۔ اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قرار دادیں تو آزاد کشمیر حکومت کا بھی مطالبہ ہیں ۔ کشمیر کے ان دونوں خطوں کے درمیان امن کے لئے کوئی بھی متفقہ آواز اچھی تجویز ہو سکتی ہے تاہم اس حوالے سے کسی بھی تجویز کے اقدام کا ''بامقصد'' ہونا ناگزیر ہے۔''
راجہ مظفر صاحب نے کہا کہ ''سرینگر اور مظفر آباد میں دو ایسے صحافیوں کی توجہ اس تجویز کی جانب مبذول کرا رہا ہوں جو محبوبہ مفتی صاحبہ اور راجہ فاروق حیدر صااحب کے قریب ہیں یا ان کی حکومتوں میں کار سرکار انجام دے رہے ہیں،مظفر آباد میں اطہر مسعود وانی صاحب اور سرینگر میں نعیمہ آحمد مہجور صاحبہ۔نعیمہ احمد مہجور صاحبہ نے کہا کہ
"This killings from here n there should stop n we should all work for peace n save millions of people across the border from this dreadful hostility....everybody has to play role including our leaders n civil society. We cannot afford to lose life every moment...."
راجہ مظفر صاحب کے استفسار پہ میں نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ ''آزاد کشمیر حکومت کا مطالبہ ہی امن ہے کہ کشمیر ہی نہیں جنوبی ایشیا میں بھی امن و ترقی کے لئے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ پرامن حل ناگزیر ہے۔تحریک آزاد ی کشمیر کی نمائندہ حکومت کے طور پر آزاد کشمیر حکومت کا قیام بھی کشمیریوں کے عزم آزادی کا اظہار ہے۔بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام کی شدید مزاحمت پر ہر طرح کے انسانیت سوز مظالم اور قتل و غارت گری کے باوجود ناکامی کا منہ دیکھتے ہوئے کشمیر کی سیز فائر لائین (لائین آف کنٹرول) پر فائرنگ اور گولہ باری کرتے ہوئے جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے۔کسی کو بھی یہ تاثر ہر گز نہیں لینا چاہئے کہ آزاد کشمیر کے غیور عوام بھارتی جارحیت سے مرعوب ہو کر مقبوضہ کشمیر کے اپنے بہن بھائیوں کے مصائب اور ان کے عزم آزادی کی غیر متزلزل حمایت سے پیچھے ہٹ جائیں گے''۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698961 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More