سپریم کون ؛ مقننہ ، انتظامیہ ، عدلیہ، ریاست یا پھرقانون ؟

ٹریفک لائٹ کی لال بتی پر ساری گاڑیاں کیوں رک جاتی ہیں اور اگر کوئی نہ رکے تواسکے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟ جواب بڑا آسان اور سادہ ہے جسے جاننے کیلئے کسی ڈگری ، تعلیم و تجربہ کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ عام فہم کی بات ہے کہ لال بتی پر رکنا ٹریفک کا قانون ہے اور اسکی خلاف ورزی پر چالان کی صورت میں سزا ہو سکتی ہے۔ گاڑی بس ، ٹرک، ٹیکسی ، کارہو یا موٹر سائیکل اور اس میں کتنی ہی بڑی شخصیت یا عہدیدار کیوں نہ بیٹھا ہو اسکی گاڑی لال بتی پر رکنے کی پابند ہے کیونکہ یہ قانون ہے ۔کیا ریاست میں کوئی اس قانون کو ماننے سے انکار کر سکتا ہے یا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ لال بتی کے قانون سے بالا تر ہے ؟

ریاست کا وجود کیسے عمل میں آیا اور معاہدہ عمرانی کیا تھا ؟ریاست کا جنم معاہدہ عمرانی کے بطن سے ہوا اور معاہدہ عمرانی ریاست اور افراد کے درمیان ایک اقرار تھا جس کے تحت افراد نے خود کو ریاست کو سونپ دیا اور بدلے میں ریاست نے انکے جان اور مال کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائی ۔ اس معاہدے کے تحت کچھ اصول طے ہوئے ، کچھ شرائط پر اتفاق ہواجو ریاست کا ابتدائی دستور کہلائے ۔

اقتدار اعلیٰ ؛ ریاست کی وہ سب سے اعلیٰ اور برتر قوت جس کی تابعداری ہر خاص و عام پر لازم اور نافرمانی مستوجب سزا ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ریاست میں یہ قوت کس کے پاس ہوتی ہے ؟کیا مقننہ ، انتظامیہ یا پھر عدلیہ اس قوت کی حامل ہوتی ہے ؟ اگر ریاست میں لال بتی پر رکنا لازم اور نہ رکنے پر سزا کا کوئی قانون نہ ہوتو پھر لال بتی پر نہ رکنے کی صورت میں کیا مقننہ ، انتظامیہ یا پھر عدلیہ کسی کو نا فرمان قرار دیکر سزا دے سکتی ہے ؟ کیا ان اداروں میں سے کوئی بھی کسی قانون کی عدم موجودگی کی صورت میں افراد کے افعال کو کنٹرول کرنے کی طاقت اور بد فعلی کی صورت میں سزا دینے کا اختیار رکھتا ہے ؟اگر نہیں تو پھر ان میں سے کوئی بھی ادارہ وہ اعلیٰ اور بر تر قوت ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا جسکا حکم ماننا ہر خاص و عام پر لازم اور حکم عدولی قابل سزا جرم ہوتا ہے ۔ کوئی فعل کسی قانون کے تحت جرم قرار دیا جائے گا توہی اس کی خلاف ورزی کسی حکم کی نافرمانی کہلائے گی اور تب ہی سزا و جزا کا سوال اٹھے گا۔ کسی قانونی حکم کی عدم موجودگی کی صورت میں نہ تو کوئی نافرمانی ہوگی اور نہ سزا کا عمل شروع ہو سکے گا۔ افراد جس مرضی فعل کا ارتکاب کریں اگر قانون نے اس فعل کے کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی تو پھر نہ انتظامیہ کاروائی کا جواز رکھتی ہے اور نہ ہی عدالت سزا دینے کا اختیار ۔ اگر کسی فرد کے خلاف کاروائی کرنی ہے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا اسکا فعل کسی قانونی حکم کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ۔نکتہ یہ ہے کہ ریاست کی وہ بر تر قوت قانون ہوتا ہے جس کی تابعداری ہر خاص و عام پر لازم ہوتی ہے اور جو اسکی تابعداری نہیں کرتا اسے سزا بھی قانون دیتا ہے مقننہ ، انتظامیہ یا عدلیہ نہیں ۔مزید یہ کہ ریاست کی حدود کے اندر پائے جانے والے تمام افراد خواہ وہ ریاست کے شہری ہوں یا نہ ہوں وہ مقننہ، انتظامیہ یا عدلیہ کے احکامات پر نہیں بلکہ ریاست کے رائج الوقت قوانین پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں ۔

ریاست کا ڈھانچہ قانون کی بیساکھیوں پر کھڑا ہوتا ہے اور سارا ریاستی نظام اور تمام ریاستی ادارے بشمول مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اس کے تابع ہوتے ہیں۔الیکشن ہوتے ہیں تو قانون کے تحت، مقننہ کے ارکان حلف اٹھاتے ہیں تو قانون کے تحت، حکومت بنتی ہے تو قانون کے تحت، حکمرانی ہوتی ہے تو قانون کے تحت، ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے تو قانون کے تحت، عدالتوں میں جج مقرر ہوتے ہیں تو قانون کے تحت، انکا حلف ہوتا ہے تو قانون کے تحت، انہیں سزا و جزا کا اختیار ملتا ہے تو قانون کے تحت، ریاست میں ہر کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار قانون دیتا ہے ، کسی فعل کے جائز یا ناجائز ہونے کا تعین قانون کرتا ہے ، کسی جرم کے ارتکا ب کی صورت میں سزا کا تقرر قانو ن کرتا ہے ۔ مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات، حقوق و فرائض اور حدود و قیود کا تعین قانون کرتا ہے ، مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کی تخلیق قانون کے تحت ہوتی ہے ، قانون کہتا ہے کہ ملک میں ایک مقننہ ہوگی جسکا کام قانون سازی ہوگا، قانون کہتا ہے کہ ریاست کا کاروبار انتظامیہ چلائے گی اور قانون ہی کہتا ہے کہ ملک میں ایک نظام عدل ہوگا ۔ اگرقانون میں یہ نہ لکھا ہوتا کہ ریاست میں ایک قومی اسمبلی اور ایک سینیٹ ہوگی بلکہ یہ لکھا ہوتا کہ دس یا بیس افراد پر مشتمل ایک کمیٹی ہوگی تو پھر یہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کدھر سے آتے ، اگر قانون میں یہ لکھا ہوتا کہ ملک میں کوئی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ نہیں ہوگی تو پھر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کہاں سے آتی ؟
 
کوئی شک نہیں کہ قانون سازی مقننہ کرتی ہے لیکن قانون سازی مقننہ کا اختیار نہیں بلکہ فرض ہے جو آئین نے اسکے ذمہ لگایا ہے ۔ انتظامی معاملات ریاستی مشینری کے ذمہ ہوتے ہیں لیکن انتظام و انصرام کرنا انکا حق نہیں بلکہ فرض ہوتا ہے ۔ انصاف کی فراہمی عدالتوں کے ذمہ ہے لیکن یہ انکا اختیار نہیں بلکہ فرض ہے ۔ پاکستان میں عجیب باز گشت شروع ہو گئی ہے مقننہ نے رٹ لگائی ہے کہ ہم سپریم ہیں اور قانون سازی ہمارا حق، انتظامیہ ملکی نظام چلانے کے کلی اور حتمی اختیار کی دعویدار ہے اور عدلیہ انصاف کی فراہمی کا حق مانگ رہی ہے ۔ تینوں کی منطق ہی الٹ ہے وہ " فرض کو حق " اور " اختیار کو ملکیت " سمجھنے لگے ہیں ۔ اور اسی الٹی منطق کے تحت ہر کوئی اس زعم میں متبلا ہوگیا ہے کہ وہ دوسرے سے سپریم اور بالاتر ہے ۔جبکہ قانون کے تحت سونپی گئی ذمہ داریوں کی ادائیگی ''فرض'' ہوتی ہے'' حق'' نہیں اور کسی عوامی عہدے کے تحت ملنے والے اختیار ات اس عہدیدار کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ دونوں چیزیں انکے پاس اس وقت تک امانت ہوتی ہیں جب تک وہ اپنے عہدے پر فائز رہتے ہیں اور وہ پابند ہوتے ہیں کہ انکا استعمال قانون کی منشا کے مطابق کریں ۔ پاکستان میں جب کوئی کسی عہدے پر فائز ہوجاتا ہے تو وہ اس کرسی سے الگ کیوں نہیں ہونا چاہتا اسلیئے کہ اسے ان دونوں چیزوں کے ذاتی استعمال کا چسکا لگ جاتا ہے وہ انہیں اپنی ذات کا حصہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے ۔ اسے لگتا ہے کہ یہ چیزیں اس سے چھن جائیں گی تو وہ خالی ہاتھ رہ جائے گا اسی بنا پر سرکاری افسران مدت ملازمت پوری ہونے کے باوجود چارج نہیں چھوڑتے ، اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ملازمت میں توسیع مل جائے تاکہ کچھ دن اور مزے لوٹ سکیں ۔ اسی بنا پر وہ وزیروں مشیروں کے آگے پیچھے بھی گھومتے پھرتے ہیں تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی نہ کسی جگہ فٹ ہو سکیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے ۔ اسی طرح سیاستدان بھی ان اختیارات کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کیونکہ یہی اختیارات ان کی طاقت ہوتے ہیں جسے وہ بھی ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور آئین و قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اور خود کو سپریم خیال کر تے ہیں جبکہ ریاست میں نہ تو کوئی ادارہ سپریم ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرد ،اگر سپریم ہوتا ہے تو ریاست کا قانون Law of the Land۔

اگر مقننہ، انتظامیہ یا عدلیہ میں سے کوئی ادارہ اپنے آپ کو Supreme Power of the Stateسمجھتا ہے تو پھر میرا چیلنج ہے کہ زینب کے قاتل کو سرئے عام پھانسی لگا کر دکھا دیں ۔مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کوئی ادارہ ایسا نہیں کر سکے گا اسلیئے کہ یہ سب بے بس ہیں کیونکہ قانون سرئے عام پھانسی کی اجازت نہیں دیتا۔ جب یہ تمام ادارے قانون کے سامنے بے بس ہیں تو پھر انہیں اپنی بالادستی کا دعویٰ کرنے کی بجائے قانون کی بالادستی کو تسلیم کر لینا چاہیے ۔

Zahid Abbasi
About the Author: Zahid Abbasi Read More Articles by Zahid Abbasi: 24 Articles with 22386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.