شام میں لگ بھگ سات برس سے انتہائی گھناؤنی شام کا راج ہے۔
ہر سمت زخم ہیں، لہو ہے نعشے ہیں۔ جن پہ ماتم کرنے والے بھی زخموں سے چور
ہیں۔ قیامِ امن کے لیے اب تک ہونے والی تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں۔ خیر
قیامِ امن کی کاوشوں کے نام پہ جو ہوتا چلا آ رہا ہے وہ کچھ ایسا حوصلہ
افزا بھی نہیں کہ اسے خلوص نیت سے کیے گئے اقدامات میں شامل کیا جائے۔ ہر
بڑی طاقت یہاں اپنے مفادات اور تحفظات کے لیے برسرِ پیکار ہے۔ شام کے لوگ
تو اس گھاس کی مانند ہیں جو ہاتھیوں کی لڑائی کی نذر ہو جاتی ہے۔ سات برس
قبل بشارالاسد کے خلاف اور جمہوریت کے حصول لیے نکلنے والی عوام نہیں جانتی
تھی کہ ان کا احتجاج ایک دن ایسے مدار میں داخل ہو جائے گا کہ جس کا مرکز
خونی کشش پہ قائم ہے اور جس کے بیرونی مدارج میں عالمی اژدہے منہ کھولے
گھومتے ہیں۔ جو زہر تھوکتے ہیں تو سینکڑوں بدن نیلے پڑ جاتے ہیں۔ عوامی سطح
پہ ہمارے ہاں اکثریت شام کی اصل صورتِ حال سے آگاہی نہیں رکھتی۔ انھیں صرف
نعشے دکھائی دیتے یں۔ یہ نعشے کیوں گر رہے ہیں انھیں نہیں معلوم۔ سو یہاں
اس مسئلہ کو کئی رنگوں میں دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ عوامی اذہان پہ اثر
انداز ہونے والے مقررین و لکھاریوں کی اکثریت نے بھی ایسے میں کسی خاص رخ
سے ہی معاملہ کو دیکھنے اور اشتہار بنانے میں اپنی ذمہ داری پوری جانی ہے۔
ایسے رویے کے پسِ پردہ کچھ تو دستیاب معلومات میں ابہام کی بھرمار ہونا اور
کچھ اپنی نسبتوں کا پاس رکھنا بھی شاملِ حال رہا۔ جہاں ابہام رہا وہاں
اکثریت نے تحقیق کی جانب توجہ کرنے کی بجائے اپنی نسبتوں کو اضافی نمبر
دیتے ہوئے تساہل پسندی سے کام لیا اور عوام کے سامنے بالکل مختلف تصویر پیش
کی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام کی زیادہ معلومات متاثرہ
ہی ہوتی ہیں، شام کے حوالے سے مختلف جذباتی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ کوئی
شامی حکومت کو قصوروار ٹھہراتا ہے اور کوئی باغیوں کو…… کسی کے نزدیک شام
اس وقت جہاد کی سرزمین ہے اور کسی کے نزدیک فتنہ۔
آخر شام کی موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے اور آئندہ یہ جنگ کس جانب
کو جا رہی ہے یہ سب سمجھنے کے لیے اس مسئلہ کا پسِ منظر سمجھنا ضروری ہے۔
بشارالاسد اپنے باپ حافظ االاسد کے انتقال کے بعد صدر منتخب ہوئے۔ حافظ
الاسد نے ایک طویل عرصہ شام پہ حکومت کی۔ اس دوران انھیں کئی ایک محاذوں کا
سامنا بھی رہا لیکن ان کے اقتدار کا سورج غروب نہ ہو سکا۔ اسد کے دورِ
حکومت میں شام، اسرائیل، عرب لیگ، لبنان اور فلسطین نے تاریخ کو تلخ ترین
واقعات سے پُر کیا ہے لیکن اس سب سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں یہ بنیادی
نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسد کے دورِ حکومت سے ہی شام کی خارجہ پالیسی کا
بنیادی جزو اسرائیل مخالف ہونا رہا ہے لیکن یہ ابہام بھی دور کر لینا چاہیے
کہ اس مخالفت میں بنیادی حیثیت مذہبی بنیاد کو نہیں حاصل رہی بلکہ یہاں
جغرافیائی پہلو زیادہ نمایاں رہا ہے۔ ہر دو طاقتیں اپنے پھیلاؤ اور بقا کی
جنگ لڑتی رہی ہیں۔ ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم رکھنے میں بھی اسرائیل
مخالف پالیسی اور جغرافیائی پوزیشن نے اہم کردار ادا کیا۔ اگر یہ کہا جائے
تو غلط نہ ہو گا کہ دونوں ممالک نے دشمن پہ اتفاق کرتے ہوئے اپنا اتحاد بنا
رکھا ہے۔ اب دشمن خواہ اسرائیل ہو یا عرب ممالک۔ ایران اور شام کی حکومتوں
نے ایک دوسرے سے تعاون کے کئی معاہدے بھی کر رکھے ہیں جن میں عسکری معاہدے
بھی شامل ہیں۔
آج شام میں جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے یہ پہلے صرف ایک احتجاج تھا جو مارچ
۲۰۱۱ میں سامنے آیا جب لوگ جمہوریت کی مانگ لے کر گھروں سے نکلے تھے۔ وقت
کے ساتھ ساتھ یہ احتجاج وسیع ہوتا گیا۔ احتجاج نے تب خونی رنگ میں ڈھلنا
شروع کر دیا جب حکومتی فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں
پہ گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ ردِ عمل میں عوام بھی تشدد کی راہ پہ چل
نکلی اور ملک میں بغاوت سر اٹھانے لگی۔ جسے مزید طاقت شامی فوج میں تقسیم
نے فراہم کی۔ فوج کا ایک حصہ الگ ہو کر باغیوں کے ساتھ جا ملا اور یوں ملک
خانہ جنگی میں مبتلا ہو گیا۔ اگلے ایک دو برس میں عراق و افغانستان میں
مصروفِ کار شدت پسند تنظیموں خصوصاً القاعدہ کے جنگجو بھی شام کا رخ کرنے
لگے اور یوں شام میں حکومت مخالف عسکریت پسندوں میں خاطر خواہ اضافہ ہونے
لگا۔ خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کردوں نے بھی عسکری کارروائیوں کا
آغاز کر دیا۔ ایسے عالم میں سعودی عرب اور ایران کی جانب سے شام میں مداخلت
کا آغاز ہوا۔ سعودی عرب نے جہاں ایک طرف باغی گروہوں کے لیے وسائل کی
فراہمی کے اسباب کیے وہیں ایران نے شامی حکومت کو باغیوں کے خلاف ہر قسم کی
مالی اور افرادی قوت فراہم کی۔ ۲۰۱۳ میں شام میں بشارالاسد کی جانب سے
باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات سامنے آئے جس کا
عالمی سطح پہ بہت چرچا رہا اور یہیں سے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو
شام میں دخل اندازی کا راستہ مل گیا۔ امریکہ اور اس کے ہم نواؤں کی جانب سے
مسلسل بشارالاسد کی حکومت کے خلاف بیانات اور پالیسیاں سامنے آنے لگیں۔
امریکہ اور سعودی عرب نے باہم مل کر باغیوں کو مالی و عسکری مدد فراہم کرنا
شروع کر دی۔ یہی باغی جن میں عراق و افغانستان سے القاعدہ کے لوگ بھی شامل
ہو چکے تھے اور جو امریکہ و سعوودی عرب کے تعاون کے ساتھ شامی فوج کے خلاف
لڑ رہے تھے۔ انہی میں سے ایک گروہ ۲۰۱۴ میں الگ ہوا جس نے داعش کے نام سے
اپنی پہچان بنا لی اور باغی گروہوں سے لڑائی شروع کر دی۔ داعش نے ساتھ ہی
عراق اور شام کے کافی حصے میں خلافت کا اعلان کر دیا۔ گویا امریکہ نے جہاں
سعودیہ کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد کی وہیں دنیا کو
ایک اور بڑے دہشت گرد گروہ کا تحفہ بھی دے دیا جو خلافت کے اعلان کے ساتھ
بہت جلد ہی خود سعودی عرب کے نظامِ شاہی کے لیے خطرہ کی علامت بن گیا۔ اب
امریکی پالیسی نے نیا رخ اختیار کیا اور امریکی جہاز داعش کے ٹھکانوں پہ
بمباری کرنے لگے لیکن ساتھ ہی ساتھ امریکہ نے کردوں اور دیگر باغیوں کی
حمایت بھی جاری رکھی اور یوں کردوں کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔ کردوں کی
بڑھتی ہوئی طاقت ترکی کے لیے بھی کسی خطرے سے کم نہیں تھی کیونکہ کردوں کی
جنگی حکمت عملی کردستان کے قیام کے لیے تھی اور کردستان کے قیام کی صورت
میں ترکی کو بھی اپنے ایک بڑے حصہ سے محروم ہونا پڑ سکتا تھا۔ ۲۰۱۵ میں
ایسا وقت پڑا کہ ترکی بھی براہِ راست اس جنگ میں شریک ہو گیا اور ترکی
فضائیہ نے کردوں پہ بمباری شروع کر دی۔ شام کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال میں
بشارالاسد نے روس سے مدد کی درخواست کی اور یوں روس بھی اس جنگ کا حصہ بن
گیا۔ روسی افواج کی مدد سے شامی افواج نے باغیوں کے قبضہ سے کئی علاقے واپس
لینے میں کامیاب ہوئے۔ تاحال بشارالاسد تمام ملک میں اپنی حکومت بحال کرنے
میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن دن بدن شام میں موجود مختلف ممالک کی پالیسیاں
مختلف روپ اختیار کر رہی ہیں۔ ایک جانب شامی حکومت کو ایران اور روس کی
حمایت حاصل ہے تو دوسری جانب ترک حکومت کی جانب سے بھی شام کو دھمکیاں دی
جا رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ وہ امداد ہے جو کرد جنگجو روس سے حاصل کر رہے
ہیں۔ شام میں مصروفِ کار باغی گروہوں اور عالمی قوتوں کا نظام اتنا گنجلک
ہے کہ لڑنے والوں کی دو گروہوں میں تقسیم آسان نہیں۔ باغی جہاں ایک جانب
حکومت مخالف محاذ کھولے بیٹھے ہیں وہیں ان کی آپسی جنگ بھی جاری ہے۔ امریکہ
اور عرب جہاں ترکوں کے اتحادی ہیں وہیں ترکوں کے مخالف کردوں کو بھی حمایت
فراہم کر رہے ہیں۔ داعش کے وسائل پہ بھی بہت سے سوال اٹھتے ہیں۔ لیکن اس
سارے معاملے میں سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہو رہا ہے۔ باغی حملہ کرتے ہیں
تو عوام مرتی ہے۔ شامی یا غیر ملکی فوج بمباری کرتی ہے تو بھی عوام مرتی ہے۔
موجودہ حالات میں اگر بشارالاسد کو منظرنامہ سے ہٹا بھی دیا جائے تو شام کے
حالات اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں کہ یہاں خانہ جنگی پہ گرفت پانا آسان نہ ہو
گا اور باغی گروہوں کی سرکوبی اور عوامی حکومت کی تشکیل میں ایک طویل وقت
درکار ہو گا اور شاید زندگی کو واپس لوٹنے میں دہائیاں لگیں گی۔ لیکن ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ یہ جنگ یہاں رکنے والی نہیں بلکہ یہ شام کی حدود سے باہر
نکل کر دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی اور ایسے میں ترکی، اردن،
اسرائیل، ایران اور سعودی عرب خصوصاً متاثر ہوں گے۔
|