زرینہ بیگم یوں تو ہر دل عزیز شخصیت کی مالک تھیں ،مگر
بعض اوقات وہ ظرافت کی حدود پار کرجاتی تھیں اور اس بات کا ان کو چنداں
احساس نہیں تھا.
اکثر اوقات وہ مذاق کرتے ہوئے لوگوں کے رنگ، وزن ، قد یا رنگت پر جملے
کستیں اور ان کی سہیلیوں کی محفلوں کو کشت زعفران بنا دیتی تھیں.
ابھی کل ہی قاضی صاحب کے بیٹے کے ولیمے پر دلہا دلہن کو دیکھ کر گویا ہوئیں
:
"ارے دیکھو بھی یہ تو بلیک اینڈ وائٹ کپل ہے. "
چوٹ دلہے کی گہری رنگت اور دلہن کے سفید رنگت کے امتزاج پر کی گئی تھی.
خواتین خوب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتی گئیں ،وہیں پر دلہا دلہن کے گھر والوں
کی خفت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی.
ابھی کل ہی وہ ناصرہ بیگم کے چوتھے پوتے کی مبارکبادی کے لیے گئیں، ناصرہ
کی بہو کا یہ چوتھا سی سیکشن تھا، خون کی کمی کی وجہ سے افشین کا وزن کافی
بڑھ گیا تھا. مگر زرینہ بیگم کی زبان کی دھار سے کون محفوظ رہ سکتا تھا ایک
دم سے بولیں :
اللہ بہن، یہ تمہاری بہو ہے یا فارمی مرغی؟ بالکل بوائلر بن گئی ہے. طنز
افشین کے وزن پر کیا گیا تھا.
ساتھ آنے والی دوستیں تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتی گئیں وہیں پر ناصرہ بیگم
اور افشین کے جسم میں یوں لگتا تھا جیسے کہ خون کی رمک بھی نہ بچی ہوں.
افشین تیزی سے چائے رکھ کر کمرے سے نکل گئی.
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا زرینہ بیگم کی زبان کی افترا انگیزیاں بڑھتی گئیں.
محلے کے ہر شخص کا کوئی نہ کوئی تضحیک آمیز لقب ضرور تھا اور ان کی
سہیلیوں، ان کی نہ صرف بھرپور حوصلہ افزائی کرتیں بلکہ نت نئے القابات
تراشنے میں ان کی مدد کرتیں.(پھیجا قصائی، اشرف گنجا، نسرین موٹی، سنہیا
کالی .......)
غرض ایک نہ ختم ہونے والے عجیب و غریب القابات کا سلسلہ تھا اور نہ ختم
ہونے والے قہقہہوں کی بوچھاڑ تھیں.
ان ہی دنوں ان کے محلے میں ایک اور خاندان شامل ہوا. یہ پڑھے لکھے میاں
بیوی پر مشتمل تھا. لڑکی کسی مقامی سکول میں ٹیچر تھی اور لڑکا کسی سرکاری
دفتر میں ملازمت کرتا تھا.لڑکی جہاں پر بہت خوبصورت اور نازک اندام تھی
وہیں پر لڑکا گہری رنگ اور پستہ قامت کا حامل تھا، مگر دونوں میں پیار بہت
مثالی دکھتا تھا. ان کو دیکھ کر زرینہ بیگم کی ٹوہ لینے کی عادت پوری شدت
سے بیدار ہوئی اور وہ بغیر اطلاع دئیے عفت کے گھر اپنی سہیلیوں کے ساتھ ٹپک
پڑیں. انہوں نے آج دل میں ٹھانی تھی کہ وہ عفت کو احساس دلانے گئی کہ وہ
کیسے ایک پستہ قامت، گہری رنگت کے شخص کے ساتھ ہنسی خوشی
رھ رہی ہے.
جب انہوں نے عفت سے یہ رام کہانی کرنے کی کوشش کی تو وہ مسکرائی اور بولی :
مجھے داؤد کا کالا رنگ یا پستہ قامتی نہیں نظر آتی. سفید رنگ کفن کا ہوتا
ہے مگر خوف کی علامت ہے کعبہ کا غلاف کالا ہے مگر آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث
ہے. "
شاید آپ نے کبھی قرآن کو غور سے نہیں پڑھا
سورہ الحجرات میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتے ہیں :
"اور نہ مسلمان مرد ایک دوسرے کو برے القابات سے پکاریں اور نہ مسلمان
عورتیں ایک دوسرے کو برے القابات سے پکاریں. ہوسکتا ہے وہ تم سے بہتر ہوں."
زرینہ بیگم یہ سن کر شرمندگی سے پانی پانی ہوگئی ان کو پہلی بار اس بات کا
شدت سے احساس ہوا کہ وہ اپنی حماقت اور جہالت کے باعث خلق خدا کا دل دکھانے
کا باعث بنی ہوئی تھیں انہوں نے دل ہی دل میں اللہ سے استغفار کی اور عفت
سے مخاطب ہویں ::
"بیٹا ،تم نے میرے لیے آگاہی کا وہ در کھولا ہے جو میں نے اپنی جہالت کے
سبب بند کیا ہوا تھا.
میں جس کو مزاح تصور کرتی تھی وہ درحقیقت تو اللہ کے بندوں کی دل آزاری
تھی. "
عفت نے مسکرا کر زرینہ بیگم کو گلے سے لگا لیا اور سارے لوگ ہی کھلکھلا کر
ہنس پڑے، آج یہ قہقہہ کسی کی تذلیل کے لیے نہیں تھا بلکہ بادلوں کے چھٹنے
کے بعد قوس قزح کے چھانے کا تھا. |