سردیوں کی رات تھی، ہر طرف ہو کا عالم تھا. وہ تیز تیز
قدم بڑھا رہا تھا. اس کا ملیشیا کا شلوار قمیص اور ایک سویٹر سردی روکنے کے
لئے ناکافی تھے. اچانک اس کو محسوس ہوا کہ قرب و جوار میں کہیں کوئی بچہ
رورہا ہے. شاید نزدیک ہی کچھ کتے سرگوشیوں کے انداز میں بھونک اور غرا رہے
تھے یا پھر شاید اس کے کان دهوکا دے رہے تھے... مگر لاشعوری طور پر اس نے
قدم آواز کی طرف بڑها دیئے. کچرا کنڈی کے اوپر کتوں کا ایک گروہ نظر آیا جو
کسی گٹھڑی پر منہ مار رہے تھے. بے اختیار ہی اس نے ان کتوں کو لکڑی سے
ڈرایا اور کتے چوں چاں کرتے بهاگ گئے. اس نے گٹھڑی کو اٹھایا اور ایک لمحے
کے لئے وہ مبہوت ہوگیا وہ گٹھڑی نہیں ایک گل گوتھنا سا خوبصورت شیرخوار بچہ
تھا، جو شاید کچھ گھنٹے پہلے ہی اس ظالم دنیا میں آیا تھا. اگر اس کو
پہنچنے میں ذرا سی بهی تاخیر ہو جاتی تو یہ نومولود کتوں کی خوراک بن جاتا.
اس کے بدن میں ایک سنسناہٹ سی پهیل گئی. اس نے خاموشی سے بچے کو اپنے سویٹر
میں لپیٹا اور گھر کی جانب چل پڑا.
ایک متوسط طبقے کے محلے میں ایک درمیانے سے گهر کے سامنے پہنچ کر اس نے
کواڑ کهٹکهٹایا، دروازہ کهولنے والی خاتون نے بچے کو اس کے سویٹر میں لپٹا
دیکھ کر کوئی سوال کئے بغیر بچے کو پکڑ لیا .وہ دبلا پتلا سا شخص ایک ٹھنڈی
سانس بھر کر اندر داخل ہوگیا.
آج کے اخبار کی سب سے بڑی شہ سرخی یہی تهی کہ اللہ کا پیارا اللہ کو پیارا
ہوگیا . جنازے پر لوگوں کا اژدہام تھا.
عاقب اور اس کے دوستوں کے اعزاز میں آج بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا گیا تها
جامعتہ الازهر سے اپنی تعلیم مکمل کرکے پچهلے ہفتے ہی تو وه واپس وطن پہنچے
تهے . دعوت کے دوران ملک کے حالات، سیاسی قیادت، میڈیا اور بـےحیائی کا
فروغ ... غرض ہر موضوع پر خوش گپیاں ہورہی تهیں کہ اچانک کچھ لوگوں نے "اس
پیارے" کے جنازے کا اور اس میں شامل ہو نے والی کثیر تعداد میں شریک خلقتِ
خدا کا ذکر چهیڑدیا. ایک باریش شخص نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پهیرتے ہوئے
فرمایا :
"×××× کے پالنے والے کی بخشش کیسے ہوگی؟ جہنم کا ایندھن بن گیا ہوگا. "
بہت سے حاضرین محفل نے اس بات پر وجد میں سر دهنا. عاقب اور اس کے قریبی
ساتھی بے اختیار کهڑے هوگئے اور قدم دروازے کی طرف بڑها دیئے. رانا صاحب نے
ان کو آواز دے کر کہا کہ اب تو محفل میں ایک رنگ آیا ہے اور کام کی گفتگو
شروع ہوئی ہے اور عاقب اور اس کے ساتھی رخصت لے رہے ہیں. رانا صاحب نے عاقب
سے پوچھا کہ اس کا کیا خیال ہے جنجوعہ صاحب کی اس بات پر؟
عاقب اور اس کے ساتھی یک زبان ہو کر بولے :
"ہم سب کی ولدیت کے خانے میں ایک ہی نام درج ہے اوروہ اسی بندۂ خدا کا ہےجس
کے جہنمی ہونے کی آپ بشارت دے رہے ہیں.ہماری جس دینی تعلیم کےحصول کی
مبارکباد کے لیے آپ نے اس محفل کا انعقاد کیا ہے. اس کا بنیادی کردار وہی
صاحب ہیں جن کی وجہ سے آج ہم اس مقام تک پہنچے ہیں. میری اور میرے جیسے
ہزاروں کی ولدیت کے خانے میں اُنہی کا نام درج ہے"
حاضرین محفل پر سکوت طاری ہو گیا. عاقب نے دروازے سے نکلتے ہوئے مڑ کر کہا
:
"میں ہی وہ پہلا بچہ ہوں جسے ان صاحب نے کچرہ کنڈی سے کتوں سے بچایا تھا
اور میرے ملنے کے بعد ہی بےشمار مزید بچے انہوں نے گود لئے اور بے شمار
نامعلوم بچوں کو شناخت دی"."ایک معصوم کو رات کی تاریکی میں کچرے کے ڈھیر
پر پهینکنا بہت آسان اور دن کی روشنی میں اس کو گلے لگانا اور اپنا نام
دینا بڑی دل گردے کا کام ہے. معصوم بچے گناہگار ہیں یا وہ معاشرہ جس کے عزت
کے نام نہاد ٹھیکیدار جو ان بچوں کی پیدائش کے ذمہ دار ہیں؟ میرا آپ سب سے
معذرت کے ساتھ ایک سوال ہے: ان معصوم روحوں کے لئے تو آپ کی زبان میں ایک
خاص لفظ ہے مگر پهینکنے والوں کے لئے؟ شاید ہم سب شیشے کے گھروں میں رہتے
ہیں مگر دوسرے پر سنگ باری سے گریز نہیں کرتے. "
کون گناہ گار اور کون بےگناہ اس کا فیصلہ قادر مطلق پر ہی چهوڑ دینا بہتر
ہے. میں اتنا جانتا ہوں کہ ان کی بخشش کے طلبگار بےشمار ہاتھ هیں. "
حاضرین محفل ندامت سے بغلیں جھانک رہے تھے. |