سرخ لہنگے میں سجی دھجی وھ واقعی کوئی الپسرا لگ رہی تھی.
اپنا عکس آئینے میں دیکھ کر ایک لمحے کے لیے وہ حیران ہی ھوگئ. ایسا جوبن
اس پر دلہن کے روپ میں آئے گا اس نے تو سوچا بھی نہ تھا. اچانک اس کو اپنے
ماں، باپ اور دیگر گھر والے یاد آگئے، ایک لمحے کے لئے اس کی آنکھیں نم
ہوئی مگر ساتھ ہی اس نے خود کو جھڑکا، جب انہوں نے اس کی پسند کو قبول نہیں
کیا تو وہ اور کیا کرتی.آج رامیز کے دوست کے گھر ان کا نکاح تھا . اس کے
فورا بعد ان کی دبئی کی فلائٹ تھی. گھر والے کچھ دن پریشان ہو نگے اور جب
وہ واپس آکر رامیز کو اپنے مجازی خدا کے طور پر متعرف کروانے گئ تو وہ
مجبورا مان ہی جائنگے. رامیز کے گھر سے بھی اس نکاح میں کوئی شریک نہیں تھا
کیونکہ وہ لوگ برادری سے باہر رشتہ نہیں کرتے تھے. رامیز نے اس کو یقین
دہانی کرائی تھی کہ ایک دفعہ ان کی شادی ہو جائے اس کے بعد اس کے گھر والوں
کو وہ منا لے گا.
نکاح کی تقریب کے دوران نور کی آنکھیں بھرتی رہئ مگر حسین کی بیوی کے
ڈانٹنے پر وہ مجتمع رہی.
نکاح کے بعد رامیز کے سارے دوست انھیں ائرپورٹ چھوڑنے آئے. دبئی پہنچ کر
نور سارے اندیشے بھول کر نئی زندگی کے مزے لوٹنے میں مصروف ہوگئی. کبھی ماں
باپ کا یہ بہن کا خیال آتا تو سر جھٹک دیتی اور خشونت سے سوچتی؛
"یہ سارا کیا دھرا امی کا ہے. کیا ہے اگر رامیز اپنے گھر والوں کو رشتے کے
لئے ہمارے گھر نہیں لاسکتا تھا. میرے گھر والوں کو میری خوشی کے لیے مان
جانا چاہیئے تھا مگر انھوں نے تو قسم کھالی تھی کہ جب تک رامیز اپنے گھر
والوں کو ساتھ نہیں لائے گا وہ شادی نہیں کرینگی. "
نور نے آئینے میں اپنا سجادھجا سراپا دیکھ کر کہا "مگر شادی تو میں نے کرلی
اور رامیز تو میرا دیوانہ ہے. "
یوں ہی خوشیوں کی پینگ پر جھولتے تین مہینے گزر گئے. ایک دن اچانک رامیز کے
گھر سے اس کے ابا کو دل کا دورہ پڑنے کی خبر آئی. رامیز کو ہنگامی طور پر
پاکستان جانا پڑا. نور کو مجبورا اکیلے رہنا پڑا. پاکستان پہنچ کر رامیز سے
اس کی صرف ایک دفعہ بات ہوئی اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ رامیز غالب ہوگیا
ہے. کچھ دنوں بعد نور کو رامیز کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ پاکستان جاکر
رامیز کو ڈھونڈنے کی کوشش کرئے.
نور کو بھی اور کوئی راستہ نظر نہ آیا اور ایک سہ پہر وہ پاکستان پہنچ گئ.
مجبور ہو کر اس نے اپنے والدین کے گھر کا رخ کیا. تین مہینے میں اس کے
والدین برسوں کے مریض لگ رہے تھے. نور کو دیکھ کر انھوں نے نہ صرف اسے گلے
لگا لیا بلکہ اپنے داماد کو اپنانے پر بھی رضامند ہوگئے.
نور کے ابا اور ماموں کی کوشش کے بعد ایک دن رامیز اور اس کے گھر والے ان
کے گھر آنے. مگر رامیز آنکھیں چار کرنے سے کتراتا رہا، ایسا محسوس ہوتا تھا
کہ وہ اپنے گھر والوں کے آگے بےبس ہے. رامیز کے والدین کی طرف سے بھی کافی
سردمہری دیکھنے میں آئی. باتوں باتوں میں انھوں نے یہ باور کروادیا کہ ماں
باپ کی دی گئی آزادی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج کل کی لڑکیاں بھولے بھالے لڑکے
پٹا لیتی ہیں.
کچھ مہینے دونوں پارٹیوں کا آنا جانا لگا رہا. نور کے والدین اس کو عزت سے
رخصت کرنا چاہتے تھے مگر رامیز کے گھر والوں کے تیور درست نظر نہیں آتے
تھے.
ایک روز دروازے پر دستک ہوئی، نور نے دروازہ کھولا تو اپنے نام رجسٹرڈ ڈاک
پائی. کھولنے پر پتا چلا کہ وہ اس کا طلاق نامہ تھا. وھ تیورا کے فرش پر گر
کر ہوش وہواس سے ماورا ہوگئ. جس محبت کے پیچھے اس نے اپنے رشتوں کو رسوا
کیا تھا. آج وہ اس کو رسوا کرکے اکیلا چھوڑ گیا تھا. جس کو اس نے ہمسفر
سمجھ کر اپنا آپ سونپ دیا تھا، وہ تو راہزن نکلا تھا. افسوس ہے ان بچیوں پر
جو ان راہزنوں کی چکنی چوپڑی باتوں میں آکر اپنا آپ خس و خاشاک کرلیتی ہیں. |