عظیمہ نے 1990ء کی شب جمعرات 2 دسمبر کو لاھور میں رھائش
پزیر گھر میں جنم لیا۔عظیمہ تیسرے نمبر پر تھی اپنے بہن، بھائیوں میں ،
عظیمہ اپنے والدین کی لاڈری تھی جو بھی فرمائش کرتی پوری ہوتی تھی۔وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ والد کا کاروبار زوال کا شکار ہوا ، ایسا زوال جس نے
عظیمہ کی خوشیوں کو ندی میں بہادیا۔ عظیمہ کا بھائی اور بہن تعلیم مکمل کر
چکے تھے ۔ عظیمہ کے بھائی احمد کی شادی ہوچکی تھی وہ اپنے بیوی ،بچوں کے
اخراجات کو مشکل سے پورا کرتا تھا جبکہ گھر عظیمہ کی بڑی بہن نعیمہ چلاتی
تھی، وہ صبح سکول میں پڑھاتی تھی اور پھر گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی
ان پیسوں سے گھر چلاتی تھی ۔ عظیمہ کے والد صاحب روز گار سے محروم تھے ۔
عظیمہ کو ہر فیس کے لیے اپنی بہن کے سامنے جھکنا پسند نہیں تھا، پھر بھی
اپنی ماں کے کہنے اور باپ کے نرم غصہ میں چھپی شفقت عظیمہ کو مجبور کرتی کہ
وہ نعیمہ کے ٹیوشن کے بچوں کو پڑھائے لیکن نعیمہ نے اس بات کی ضد شروع کردی
کہ جتنا کام میں کرتی ہوں اتنا کام عظیمہ بھی کرے ۔ عظیمہ ہر روز آنسوئوں
کی مالا سجائے ہوئے یونیورسیٹی چلی جاتی تھی۔ پھر ایک دن آیا جب عظیمہ کو
کتابوں کے لیے پیسے چاہے تھے اور نعیمہ نے دینے سے انکار کردیا ۔ والد صاحب
عظیمہ پر غصہ ہونے لگے ، عظیمہ بھی بڑبڑانے لگی نوبت یہاں تک آگئی کہ والد
صاحب عظیمہ پر ہاتھ اٹھانے لگے تو ماں نے والد کو روک دیا ۔ عظیمہ نے
یونیورسیٹی جانا چھوڑ دیا اوراگلے ہی روز نوکری کی تلاش کے لیے 20 صفحوں کی
CV لے کر گھر سے نکلنے لگی تو ماں نے 100 روپے دیے جسے وہ نہیں لے رہی تھی،
لیکن ماں نے بیگ میں ڈال دیے ۔ عظیمہ اتنی نازک تھی کہ یونیورسیٹی سے بس پر
بیٹھ کر گھر سے قریب بس سٹاپ پر اترتی تھی وہاں سے گھر تک پیدل فاصلہ 10
منٹ کا تھا، لیکن وہ پیدل نہ جاتی بلکہ اپنے والد کو فون کرتی وہ اسے موٹر
بائیک پر لینے آتے ۔ چونکہ اب حالات بدل چکے تھے ۔ عظیمہ کو اب نوکری کرکے
پیسے کمانے تھے ،عظیمہ نے گاڑی پر کیے جانے والا سفر پیدل کیا کیونکہ اس کے
پاس کل 460 روپے تھے ۔اسکے جذبےہارے نہیں تھے جبکہ پاؤں تھک چکے تھے گیارہ
سکولوں میں CV جمع کروائی ،ہر سکول انتظامیہ نے کہا ہم آپکو بلائیں گے تین
دن گزر چکے تھے عظیمہ کو نوکری نہ ملی اسکا مقصد ہار رہا تھا ،جذبے ماند
پڑھے تھے ۔ اس نے اپنے وجود کے خاتمے کی کوشش شروع کردی منصوبہ تیار کیا کہ
وہ ٹرین کے نیچے آکر موت کو گلے لگا لے پھر اس کو اپنی ماں کا پیار یاد
آیا ،اپنے والد کے وہ جھمکے یاد آئے جو عظیمہ کو عید پر اسنے لے کر دیے
تھے پھر اس کو خیال ٓایا کہ یہ خودکشی ہے اور یہ حرام ہے کبھی ریل کی پٹری
سے ایک قدم باہر کرتی تو کبھی اندر اسی کشمکش کے بعد اس نے ارادہ بدل ڈالا
اور گھر جانے لگی کے زندگی کو ایک اور موقع دینا چاہیے شاید کے حالات بدل
جائیں وہ سڑک پار کررہی تھی کہ مخالف سمت سے ٹرک آیا اور عظیمہ سے ٹکرایا
،لوگ اکھٹے ہوئے ،ایمبولنس کو فون کیا ،ہسپتال پہنچنے پر پتہ چلا کہ عظیمہ
دنیا فانی سے کوچ کر چکی ہے ۔ ڈاکٹر نے عظیمہ کی ہاتھ کی بند مھٹی کو کھولا
تو اس کے ہاتھ میں ایک صفحہ تھا جس میں لکھا تھا ۔۔۔۔۔
پھر نوکری ہم کو تلاش کرے گی
پھر ہو جائے گی انمول زندگی
پھر ہم بھی نکلیں گے بے وفا
جیسے تو نے کی تھی ہم سے وفا
اسکی تحریر نے ہسپتال کے عملے کو رونے پر مجبور کردیا ۔ گھر اطلاع دینے
کےلیے عظیمہ کے موبائیل سے نمبر ملانے لگے تو تین میسج آئے ہوئے تھے، تو
نمبر ملانے والے نے سوچا کے کیسے جانے کے اس کے گھر والوں کا نمر کیا ہوگا
؟ تو اس نے میسج پڑھے جن میں لکھا ہوا تھا کہ آپ کل فلاں جگہ آجائیں آپ
کو APPOINT کر لیا گیا ہے اور لکھا تھا کل 11:00بجے آپکا انٹرویو ہے۔ لیکن
اگلے ہی روز منگل کو 11:00 بجے اس کے گھر والوں اور ماں کی سسکیوں میں
جنازہ گاہ میں نماز جنازہ ادا کی جارہی تھی اتنے میں موبائیل پر گھنٹی بجی
نعیمہ نےفون اٹھایا خاتون بولی عظیمہ آپ آج آئیں نہیں ہمارا اسٹاف آپکا
انتظار کرہا تھا ہمارے ہیڈ آپکی قابلیت سے مطمئن ہیں اسکی بہن نے جواب دیا
وہ چلی گئی ہے روتے، روتے ۔۔۔۔ فون والی نے پوچھا کہاں'
اپنے رب کے پاس
نوکری تلاش کرنے |