ایران کے صدر حسن روحانی کا حالیہ دورہ بھارت اور چاہ
بہار بندر گاہ کے پہلے فیز شاہد بہشتی پورٹ کے اپریشنل کا کنٹرول 18 مہینوں
کے لیے،انڈیا کے سپرد کرنا مشرق وسطیٰ اور پاکستان کے لیے کن خطرات کی نوید
ہے۔؟پاکستان کے صوبے بلوچستان سمیت خطے میں امن و امان کی صورت حال مخدوش
ہے۔ایران بھارت گٹھ جوڑ دراصل ایسے حالات میں تیزی دیکھا رہا ہے،جس وقت کہ
پاک امریکہ تعلقات میں دراڑیں آچکی ہیں۔پاکستان کو عالمی مالیاتی دہشت گردی
لسٹ میں شامل کر دیا گیا،اور بھارت امریکہ کی جیب میں گھسنے کی کوشش کر رہا
ہے۔ایران اپنے جوہری معاہدے ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگرچہ امریکہ
اعلان کر چکا ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پلانٹ بند نہ کیے تو، تمام معاہدات
پر زد پڑ سکتی ہے۔ایسے میں ایران کو بھارتی کاندھا نظر آیا،جس پر بندوق رکھ
کر وہ پاکستان کی امریکہ سے دوری اور بھارت کی امریکہ سے قربت کا فائدہ
اٹھا سکتا ہے۔ چاہ بہار بندر گاہ کا کنٹرول 18 مہینوں کے لیے بھارت کے
حوالے کرنا،اور 85 ملین ڈالر کی انڈین انوسٹمنٹ گوادر سے صرف 90 کلو میٹر
کی دوری پر کرنا حالات کا رخ کس طرف متعین کررہے ہیں؟
ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان چین اکنامک کوریڈار عظیم منصوبہ ہے۔اور اس
منصوبے کی شکل سنجیدہ حلقوں کو گوادر مستقبل کا دبئی نظر آرہا ہے۔چین کی
اتنی بڑی سرمایہ کاری انڈیا ایران سے برداشت نہیں ہو رہی ہے۔دوسری طرف
ایران کو،پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی عدم تکمیل کا غصہ اپنی جگہ
موجود ہے۔پیپلزپارٹی کے دور میں سابق صدر آصف علی زرداری نے (IPI)منصوبہ
شروع کیا تھا، اس منصوبے میں پاکستان،ایران، بھارت شامل تھے کیونکہ اس وقت
پاک امریکہ تعلقات کا دور اچھا تھا۔بھارت امریکہ کے قریب ہونا چاہتا تھا
لہذا بھارت پہلی فرصت میں اس (IPI)منصوبے سے الگ ہو گیا۔ایران نے اس
علیحدگی کاالزام پاکستان پر عائد کر دیا،کہ پاکستان بھارت سے کشیدگی کو ختم
کرے اور اپنے حصے کی پائپ لائن بچھائے۔لیکن پس پردہ انڈیا ایران گٹھ جوڑ
پاکستان کو عالمی سیاست میں تنہا کرنا تھا،جس پر حکومت وقت، سیاسی جماعتوں
کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنے،مل کرملکی استحکام کو اپنے مفادات سے مقدم رکھنے
کے لیے ضروری ہے۔
ایران پڑوسی ملکوں سے تعلقات کو کتنی اہمیت دیتا ہے اس کا ندازہ اس بات سے
بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان نے بلوچستان سے بھارتی جاسوس
کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا۔بھارت نے عالمی سطح پر جو بندر تماشے کیے وہ
کسی آنکھ سے اوجھل نہیں۔کلبھوشن یادیو نے اپنے مکروہ جرموں کا عتراف کیا،
پاکستان سرخرو ہوا،اور بھارتی جاسوس کو سزا موت سنا دی گئی۔ایسے سنگین ترین
صورت حال میں ایران کی کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کی درخواست،اور پوچھ
گچھ کی اجازت مانگنا اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں؟ اورکیا ایران پہلے
کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے تھا جب اس کی سر زمین بھارتی جاسوس کے
لیے تَرنوالہ ثابت ہورہی تھی؟ایران میں بھارتی مداخلت کے باوجود ایران نے
کبھی بھی بھارت کو عالمی افق پر شرمندہ نہیں کیا۔بجائے ایک ہمسایہ ملک ہونے
کے ایران کا بھارت سے دوستی کی بانگیں بھڑانا،سوائے اپنے قلبی بھڑاس نکالنے
کے اور کس چیز سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
افغانسان پاکستان کی سٹرٹیجک ڈیپتھ ہے۔یہ ایسی پالیسی ہوتی ہے،جس کے ذریعے
کوئی بھی ملک،اپنے دشمن ملک کے خطرات سے نمٹنے،قریبی ممالک سے خوشگوار
تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔دنیا کے ہر ملک کا ایک سٹرٹیجک ڈیپتھ
ہوتا ہے۔سوویت یونین کے افغانستان میں در اندازی کے بعد پہلی بار 1980 میں
افغانستان کو سٹر ٹیجک ڈیپتھ ڈیکلیر کیا گیا۔انڈیا ایران کے باہمی تعلقات
کی ابتدا 1950 میں ہوئی۔1979 کے خمینی انقلاب میں انڈیا نے انقلاب خمینی کا
ساتھ نہیں دیا۔اور عراق ایران جنگ میں بھی انڈیا نے عراق کو سپورٹ کیا
تھا۔1990 میں افغانستان کی جنگ میں انڈیا ایران نے افغان طالبان کے خلاف
شمالی اتحاد کا ساتھ دیا تھا۔اور اب تک افغانستان میں انڈیا ایران کا باہمی
انفراسٹراکچر کے کاموں میں تیزی اور دونوں ممالک کا افغانستان پر خاص کرم،
پاکستان کے لیے خطرے کے خدشات کو مہمیز دے گا۔
(TAPI)منصوبہ جو 1919 تک مکمل ہوگا،اور اس سے ترکمانستان سے افغانستان کے
راستے پاکستان پھر بھارت کو گیس سپلائی کی جائے گی۔ایران کے اپنے منصوبے
(IPI) سے متصادم ہے۔(TAPI) ملک کو ناصرف مائع گیس کے بحران سے نکالے گا،
بلکہ خطے کی معاشی،سیاسی اور ثقافتی شعبوں کو بھی باہم جوڑنے میں مدد گار
ہوگا۔ (TAPI)کی سیاسی اہمیت اور (IPI) کا مخدوش مستقبل ایران کو ہضم نہیں
ہورہا۔وقت کی اہم ضرورت،اور جنوبی،وسطی ایشیا کی عوام اور حکومتیں بھی
چاہتی ہیں کہ پاکستان دنیا کے لیے تجارت،توانائی اور مواصلاتی رابطوں کا
ذریعہ بنے،جو کہ پاکستان چین اکنامک کوریڈار سے ممکن ہے۔بھارت اپنے مفادات
کی سوچ کا متحمل ملک ہے،اور ایران ہمیشہ سے پاکستانی تجزیہ نگاروں کی آنکھ
میں تنکا بنارہا ہے،ایسے میں دونوں ملکوں کا افغانستان کے منصوبوں میں بھر
پور توجہ دے کر پاکستان کو دیوار سے لگانے کا آغاز ہے۔
تحریر: ڈاکٹررابعہ اختر |