پھر کہتے ہیں پارلیمنٹ کی کوئی عزت نہیں کرتا

ارکان پارلیمنٹ کو شکایت ہے کہ دنیا ان کی عزت نہیں کرتی ۔ جہاں تک اس شکایت کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ اراکین ہی اپنے قول و فعل سے ہر ادارے کی عزت و احترام میں کمی یا اضافے کا باعث بنتے ہیں ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان اور شیخ رشید نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی تھی ۔ اپنی حاضری اور غیر حاضری دونوں کی تنخواہ لینا نہیں بھولتے لیکن اس قانون ساز ادارے ٗ جس کا وہ خود حصہ ہیں ٗ جی بھر کے لعنت بھیجتے رہے ۔ ا ن کے اس عمل ہر جانب سے لعن طعن تو ہوئی لیکن سپیکر قومی اسمبلی سمیت کسی کو توہین پارلیمنٹ کی سزا کے طور ان کی رکنیت منسوخ کرنے کی جرات نہیں ہوئی ۔اس کا مطلب تو یہی لیا جاسکتا ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید نے جو کچھ کہاتھا ٗ وہ غلط نہیں تھا ۔ مزید برآں ہماری پارلیمنٹ ایسی ہی کالی بھیڑوں سے بھری ہے جو اپنے ضمیر اور ووٹ کو ہر انتخاب کے موقع پر فروخت کرنا نہیں بھولتے ۔ اگر کسی سے بات کی جائے تو ان کا جواب یہی ہوتاہے کہ ہم کروڑ وں روپے خرچ کرکے اسمبلی پہنچے ہیں ۔ا پنے سر مایے کی ریکوری بھی تو کرنی ہے ۔اگر حکومتی فنڈ میں خرد برد کی جائے تو نیب اور عدالتیں پیچھے پڑ جاتی ہیں لیکن ووٹ خریدنے اور فروخت کرنے کا نہ کسی کے پاس دستاویزی ثبوت ہوتا ہے اور نہ ہی عدالتیں اور دیگر احتسابی ادارے اس پر گرفت کرسکتے ہیں کیونکہ لینے اور دینے والوں کے سوا کسی کوکانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے سابق ادوار میں بھاری رقوم کے عوض ہارس ٹریڈنگ کی باتیں تو سب کو یاد ہیں لیکن حالیہ سینیٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے رہنماضیا اﷲ آفریدی کے بقول عمران خان اور پرویز خٹک نے چالیس چالیس کروڑ روپے کے عوض سینیٹ کے ٹکٹ اپنے امیدواروں کو فروخت کیے ۔ جبکہ شیخ رشید فرماتے ہیں کہ بلوچستان کی پوری اسمبلی ہی اس مرتبہ بک گئی۔ ہر ممبر صوبائی اسمبلی نے اپنا ووٹ چھ چھ کروڑ میں فروخت کیا ۔ اب ووٹوں کے بیوپاری آصف علی زرداری بلوچستان ٗ فاٹا سمیت تمام منتخب ہونے والے آزاد ممبران سینیٹ کو خریدنے کی جستجو کررہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ چیئرمین سینٹ ہمارا ہوگا اور اگلی حکومت بھی ہماری ہی ہوگی ۔ایک اورخبر کے مطابق چیئرمین سینٹ منتخب کرنے کے لیے اراکین کو بھاری رقوم ٗپرکشش ملازمتوں کی پیشکشیں کی جارہی ہیں ٗ گویا اس لوٹ مار کا تمام تر بوجھ اس قومی خزانے پر ہو گا جو غریبوں کے دیئے گئے ٹیکسوں سے بمشکل بھرتا ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہاتھا کہ آمریت میں ایک شخص لوٹتا ہے تو جمہوریت میں لاکھوں افراد قومی خزانے پر اپنا اور اپنے خاندان کا بوجھ ڈالتے ہیں ۔ بہرکیف حسب روایت اس مرتبہ بھی جمہوریت کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے چیئر مین سینٹ کے الیکشن کو دھن اور دولت کا کھیل بنالیا ہے ۔یہ بھی شنیدتھی کہ پیپلز پارٹی ٗ چیئرمین شپ حاصل کرنے کے لیے تحریک انصاف کو شیشے میں اتار رہی تھی لیکن عمران خان نے وزیر اعلی بلوچستان سے ملاقات کرکے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے تمام دعووں پر پانی پھیر کر ایک نئی گیم کا آغاز کردیا ہے ۔ جس طرح آصف علی زرداری کے اشارے پر بلوچستان کے تمام مسلم لیگی اراکین اسمبلی کی وفاداری کو منحرف کروا کر ان کے ذریعے ق لیگ کا وزیر اعلی منتخب کروایااور وہاں سے ایک بھی مسلم لیگی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا ۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کسی بھی طرح بلوچستان کے سینیٹر کو چیئرمین سینیٹ دیکھنا پسندنہیں کریں گے ۔اب تک کی صورت حال کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کے دعوی کررہی ہیں لیکن ان دعووں کی سچائی کا پتہ 12 مارچ کی شام ہی چلے گا کہ چیئرمین سینیٹ کی کرسی پر کس پارٹی اور کس صوبے کا سینیٹر براجمان ہوتا ہے ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جو شخص اربوں روپے خرچ کرکے چیئر مین سینٹ بنے گا کیا اس سے پارلیمنٹ اور قوم سے وفا کی امید رکھی جاسکتی ہے اور وہ سینیٹر جو خود بھی کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ہوئے ہیں اب وہ اپنی وفا داری کی بھاری قیمت وصول کررہے ہیں کیا وہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرسکیں گے ۔جس ادارے میں ایسے مکروہ اور لالچی لوگ بیٹھے ہوں ٗ کیا اس کی عزت اور احترام کیسے برقرار رہ سکتی ہے ۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کاکردار بہت مایوسانہ ہے ۔ اسکے باوجود کہ الیکشن کمیشن بہت طاقتور اور آزاد و خود مختارکہلاتا ہے لیکن اس کی حقیقی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس بات کا پہلا ثبوت تو ہر ضمنی الیکشن میں روکنے اور نوٹس دینے کے باوجود عمران خان کا جلسوں سے خطاب ہے ۔عمران خاں الیکشن کمیشن کے کسی بھی نوٹس کو خاطر میں نہیں لاتے اور ڈٹ کے جلسہ عام میں شریف برداران کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہار ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔کہنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا کام صرف نوٹس ہی جاری کرنا ہے ٗ عملی طور پرکاروائی کرنا نہیں ۔ ابھی تک کسی خلاف ورزی کرنے والے کی نہ تو رکنیت ختم ہوئی اور نہ ہی کسی کو جرمانہ ہوا ۔ اب سینٹ کے الیکشن میں تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور اراکین کی جانب سے پچیس پچیس کروڑ روپے کے ووٹ بکنے اور خرید ے جانے کے بیانات اخبارات میں تسلسل سے چھپ رہے ہیں الیکشن کمیشن حالت سکون میں ہے ۔ جب سینٹ الیکشن میں ووٹو ں کی خرید کے چرچے انتہائی نچلی سطح تک پہنچ چکے ہیں اور پاکستانی قوم کا بچہ بچہ اس سے آگاہ ہوچکا ہے تو اب الیکشن کمیشن کیا کارروائی کرے گا ۔وہ الیکشن کمیشن جس کی توہین کرنے والے عمران خان کو دو سال تک غیر حاضری پر کوئی سزانہیں مل سکی ٗجو غیر ملکی فنڈ پر کوئی جرات مندانہ کارروائی نہیں کرسکا ٗ وہ سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ پر کیا کارروائی کر ے گا۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارا قومی مزاج ہی ایسا بن چکا ہے کہ حکومتیں بننے اور گرانے میں ووٹوں کی منہ مانگی قیمتیں مانگی اور دینی پڑتی ہیں ۔ عہدوں کے شوقین لوگوں نے ہر سطح کے الیکشن کو پیسے کا کھیل بنا رکھا ہے۔ پھر کہاجاتاہے کہ پارلیمنٹ کی عزت نہیں کی جاتی ۔ جس ادارے میں ایسی گندی مچھلیاں کثرت سے موجود ہوں وہ اعلی ریاستی ترین ادارے کے لیے نیک نامی کا باعث نہیں بن سکتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کی توہین کرنے پر تو سزا مل جاتی ہے لیکن پارلیمنٹ کی توہین کرنے والے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دندناتے پھرتے ہیں ٗ ان کی ہوا کو بھی کوئی چھو نہیں سکتا ۔ عزت ان لوگوں کی ٗ کی جاتی ہے جن کا کردار ٗ گفتار اور عمل حقیقی معنوں میں فرشتوں جیسا ہے جہاں جعلی ڈگریوں والے اور بھاری رقوم دے کر ووٹ خریدنے اور بیچنے والے موجود ہوں ٗ وہ ادارے اپنی عزت برقرارنہیں رکھ سکتے ۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ قران پاک پر ہر ممبر پارلیمنٹ سے حلف لیاجائے جو جھوٹ بولیں گے وہ اﷲ کی گرفت میں ہوں گے اور جو پیسے لے کر ووٹ دینے اور لینے کااقرار کریں ان کی رکنیت قومی اسمبلی و سینٹ فوری طور پر منسوخ کر تے ہوئے ٗہمیشہ کے لیے انہیں نااہل قراردے دیا جائے ۔شاید اسی طرح پارلیمنٹ میں ہونے والے ہر الیکشن کو پیسوں کے لالچ سے پاک کیاجاسکے ۔ وگرنہ سیاسی داؤ پیچ کے ساتھ ساتھ پیسے کا بے جا استعمال نہ صرف پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کرتا رہے گا بلکہ عالمی سطح پر ملک کی بدنامی بھی ہوتی رہے گی۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.