بادشاہ

1978 کا خاموش دن تھا شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی بڑی شان و شوکت سے کوروش کبیر (سائرس دی گریٹ) کی قبر پر کھڑے کہ رہے تھے اے عظیم بادشاہ ! اے بادشاہوں کے بادشاہ ! آج ہم اپکی قبر کے سرہانے اس لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ آپکو کہ سکیں کہ آپ آرام سے سوئیں اب ایران جاگ چکا ہے ابھی ان الفاظ کی باز گشت ہوا میں ہی ہو گی کہ ایران جاگ چکا تھا عوام نے شاہ ایران کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا انقلاب ایران کی کرن کو تابندہ تہران یونیورسٹی کے اس طالبعلم نے کیا جس نے رضا شاہ پہلوی کے خلاف نعرہ لگایا کہ ہم لوگ شاہ کے غلام نہیں ہیں اگلے چند دن میں اس طالبعلم کو ابدی نیید سلا دیا گیا تاریخ میں اس کانام نہیں ملتا مگراسکا یہ نعرہ انقلاب ایران کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور یوں بادشاہ کوروش سے لیکر خود ساختہ رضا شاہ پہلوی تک دو ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا تین دہائیاں پہلے 100 ملین سے زائد جائیداد رضا شاہ پہلوی کا تخت نہ بچا سکی۔

1942تپتے ہوئے صحرا میں چند خیموں کی اک بستی آباد تھی اسی ایک خیمے میں دنیا کا اک بڑا ڈکٹیٹر پیدا ہوا معمر قدافی 1961میں ملٹری کو جوائن کیااس وقت لیبیا پر اٹلی کا قبضہ تھا اور لیبیا پورپ کو تیل سپلائی کرنے والا ایک اہم ملک تھا 1969 میں لیبا کا بادشاہ ادریس میڈیکل کے لیے ترکی گیا تو 27سال کی عمر میں معمر قدافی لیبیا کا بادشاہ بن گیا خوبصورت عورتوں کی پوری فوج اسکے ارد گرد رہتی وہ لیبیا کی تیل کی پیداوارکا 40 سال واحد مالک رہا اسکے اثاثے 200 بلین سے بھی زائد کے تھے مگر اسکی عوام دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے ہی پوری کرتی تھی اسی دوران لیبیا کی اک گمنام لڑکی نے فیس بک پر معمر قدافی کے خلاف پیج بنایا ایک ہی دن میں لاکھوں لائک نے حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی اگلے ہی چند روز میں اس لڑکی کو غائب کر دیا گیا اور وہ تاریخ کے گمنام ہیروز میں شامل ہو گئی اور20اکتوبر2011کو معمر قدافی کو لیبیاکی عوام نے گلیوں میں گھیسٹ کر مار دیا اور یوں دنیا کے اک اور ڈکٹیٹر کی کہانی ختم ہو گئی-

28اپریل1937 کو عراق کے ایک چورواہے کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام صدام حسین رکھا گیا20سال کی عمر میں اس نے سیاست میں قدم رکھا اور1968میں حسن الباکر کو عراق کا صدر جبکہ صدام حسین کو ڈپٹی صدر بنایا گیا 16جولائی 1979کو صدام نے حسن الباکر سے زبردستی استعفیٰ لیا اور عراق کا مطلق العنان صدر، چیف ایگزیکٹو بن گیا 13اکتوبر 2003کو صدام حسین زیر زمین بنکر سے برآمد ہو اورعراقی عدالت میں ٹرائل کے بعد 30دسمبر2006 کو صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی۔۔

پچھلی چند دہایؤں کے یہ مطلق العنان بادشاہ جب کرسی بادشاہت پر متمکن تھے تو انکو ہر چیز چھوٹی نظر آتی ہے انکے اثاثے برق رفتاری سے آسمان کی بلندی کو چھوتے چلے جاتے ہیں یہ امیر اور انکی عوام غریب ہوتی جاتی بلاآخر کسی گمنام انسان کی آواز انکے زوال کا سبب بن جاتی اور پھر کئی ہزار سالوں پر محیط موروثی بادشاہت ہو یا کئی دہائیوں پر پھیلا ہو اقتدار بلاآخر ختم ہو جاتا ہے۔

میاں نواز شریف کی مثال بھی انہی بادشاہوں جیسی ہے جنہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو انکا اقتدار اور دولت دونوں برق رفتاری سے آسمان کی بلندی تک پہنچنے لگے1981میں اپنی سیاست کا سفر بطور وزیر خزانہ اور1985میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور پھر1993میں پہلی دفعہ وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے یہ پاکستان میں تین دفعہ وزارت اعظمیٰ کے عہدہ پر فائز رہے تین میں سے دودفعہ انکی حکومت کو صرف کرپشن کی وجہ سے ختم کیا گیا24اگست2014کو پاکستان کا ایک درویش صفت آدمی سپریم کورٹ میں نواز شریف کی کرپشن کے خلاف پٹیشن لے کر پیش ہوا جب کرپشن کے کیس ذرا واضح ہوتے نظر آئیں تو پاکستان کی دوسری جماعتوں کے سربراہ بھی نے بھی سپریم کورٹ کا رخ کیا اس درویش صٖفت آدمی کا نام سراج الحق ہے اور یوں تاریخ کے پچھلے بادشاہوں کی طرح نواز شریف کا اقتدار بھی اک آواز سے ختم ہو گیا اور25جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تا حیات نااہل قرار دے دیا حالات کا دھارا مڑاگیا اور عوام کا رخ تاریخ کی کتاب کا صفحہ پلٹااور اسکی آخری سطر پر لکھا تھاـ "خدا جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے"بُگل بجایا گیا نواز شریف نے سامان لیپٹا اور چلا گیا پاکستانی میڈیا نے سراج الحق کی بجائے زیادہ کریڈٹ تحریک انصاف کو دیا جبکہ اصل کریڈٹ سراج الحق کو جاتا ہے ۔

تاریخ ہمیشہ لوگوں کو سبق ضرور دیتی ہے شاید جون ایلیا نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ہم ایک ہزار سال سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے علاوہ کچھ نہیں کرر ہے تاریخ ہمیشہ سے پکار پکار کر اک ہی سبق دے رہی ہے کہ اقتدار پر بیٹھنے والے جب عوام سے غداری کرتے ہیں تو پھر انکے اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیر نہیں لگتی سکندر مرزا کا بنایا ہوا آئین اسے نہ بچا سکا ایوب خان کا بنایا ہوا آئین اسے نہ بچا سکا بھٹو کا بنایا ہوا آئین اسے نہ بچا سکاان سب میں مشترک بات ایک ہی تھی عوام کا کے ساتھ غداری اور اپنے بچ نکلنے کے راستے۔ کیا آنے والے وزیر اعظم تاریخ کا یہ سبق پڑھ پائیں گے؟

Rana Khuram Javed
About the Author: Rana Khuram Javed Read More Articles by Rana Khuram Javed: 4 Articles with 3998 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.