شمال مشرق کے تین صوبوں میں انتخاب ہوا جس میں سے دو میں
بی جے پی ہار گئی اور ایک میں کامیاب ہوئی لیکن ایسا تاثر دینے کی کوشش کی
جارہی ہے گویا ہر جگہ زعفرانی پرچم لہرا گیا۔ ان تینوں صوبوں میں کل ۱۷۷
نشستوں پر الیکشن لڑا گیا ۔ اس میں بی جے پی کو ۴۹ مقامات پر کامیابی ملی
یعنی صرف ۷ء۲۷ فیصد نشستوں پر جیت حاصل ہوئی۔ ووٹ کا تناسب دیکھیں تو جملہ
۶ء۲۲ فیصد ووٹ حاصل ہوئے ۔کیا یہ کوئی بہت کامیابی ہے۔ ان صوبوں میں سب سے
پہلے میگھالیہ میں نئے وزیراعلیٰ کی حلف برداری ہوئی ۔ وہاں پر این پی پی
کے رہنما کونارڈ سنگما نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ۔ این پی پی انتخاب سے
قبل این ڈی اے سے الگ ہوگئی تھی اور اس نے اپنے بل پر انتخاب لڑ کر ۱۹
نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ اس کے بعد میگھالیہ ڈیموکریٹک الائنس قائم کیا
جس میں سب سے چھوٹی جماعت بی جے پی ہے۔ سنگما کو ۳۴ ارکان کی حمایت حاصل ہے
جس میں سے صرف ۲ بی جے پی کے ہیں یعنی اگر بی جے پی حمایت نہ کرے تب بھی وہ
حکومت بنا سکتے ہیں ۔
کونارڈ سنگما کے والد پی این سنگما طویل عرصہ کانگریس میں رہے ۔ کونارڈ نے
ساری اہم وزارتیں اپنے پاس رکھیں مگر وزارتِ داخلہ اپنے بھائی جیمس سنگما
کو تھما دی۔ اس کے علاوہ تین وزارتوں سےحال میں کانگریس سے نکل این پی پی
میں شامل ہونے والے ارکان کو نوازہ ۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کی جانب سے
وزیر بننے والے ہیک بھی جنوری تک کانگریس پارٹی میں تھے ۔ یو ڈی ایف کے ۶
میں سے ۳ کو وزیر بنایا گیا اور بی جے پی کی مانند ۲ نشستوں پر کامیاب ہونے
والی ہل اسٹیٹ پارٹی کے رکن کو بھی وزارت ملی ۔ یعنی کل ۱۱ میں سے ۴ وزراء
ابھی چند روز پہلے تک کانگریس میں تھے اور دو خاندانی کانگریسی ہیں۔ ان میں
سے ایک بھی سنگھ کی شاکھا سے نہیں آیا ۔ ایچ ایس پی ڈی نے بی جے پی کی
شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے خود این پی پی سے دور کرلیا۔ کونارڈ نے صاف
اعلان کیا کہ ہم اپنے عاھئد و نظریات کی بنیاد پر کامیاب ہوئے ہیں اور صوبے
کے سیکولر اقدار کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائیگی۔کیا اس حکومت کو بہت بڑی
زعفرانی فتح قرار دینا ذرائع ابلاغ کا کھیل نہیں ہے؟
ناگا لینڈ میں نائیفیو ریو وزیراعلیٰ بنے ۔ ریو ۱۹۸۹ میں پہلی بار کانگریس
کے ٹکٹ پر کامیاب ہوے تھے اور ۲۰۰۲ تک کانگریس کی حکومتوں میں وزیر رہے
اور اس کے بعد وزیراعلیٰ جمیر کے ساتھ اختلافات کے سبب الگ ہوگئے۔ ۲۰۰۳ سے
۲۰۱۴ تک وہ ناگا پیوپلس فرنٹ کے وزیراعلیٰ رہے۔ گزشتہ سال مئی میں انہوں
نے این ڈی پی پی نامی نئی علاقائی جماعت قائم کی اور بی جے پی کے ساتھ
انتخاب لڑ کر چوتھی بار وزیراعلیٰ بنے۔ اس طرح ریو کا وزیراعلیٰ بننا بھی
بی جے پی کے مرہونِ منت نہیں ہے وہ پہلے بھی چار مرتبہ اس عہدے پر فائز
ہوچکے ہیں ۔ بی جے پی نے یہ سوچا تھا کہ ریو کی علٰحیدگی کے بعد یہ دونوں
علاقائی جماعتیں کمزور ہوجائیں گی اور اس کے اچھے دن آجائیں گے لیکن ایسا
نہیں ہوا۔ ریو کی حمایت کے باوجود اس کو ۱۲ نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا اور
ریو نے ۱۶ نشستیں جیت لیں ۔ اس کے برعکس اکیلی این پی ایف نے ۲۷ نشستوں پر
کامیابی حاصل کی لیکن دو لت کی حرص نے دو عدد ارکان کو بھی اس کے ساتھ نہیں
آنے دیا اور ریو کو پھر سے وزیر اعلیٰ بننے کا شرف حاصل ہوگیا ۔ ریو نے
بھی اقتدار کے لالچ میں نہ صرف ۱۲ نشستوں پر کامیاب ہونے والی بی جے پی کا
نائب وزیراعلیٰ بنوا دیا بلکہ اپنی جماعت کے ۴ تو بی جے پی کے ۶ لوگوں
وزارت سے نوازہ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ریو کے نزدیک اپنی پارٹی کے مفادات
کے مقابلے اپنےاقتدار کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟
تریپورہ وہ واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے اور اس کے
۳۵ امیدوار کامیاب ہوئے ۔ اس کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ انڈِجینس
پیوپلس فرنٹ آف ناگا لینڈ کا ہے جس کو ۷ فیصد ووٹ ملے ورنہ سی پی ایم اور
بی جے پی کے ووٹ کا فرق صرف ۳ء۰ فیصد ہے۔ سی پی ایم کے وزیر اعلیٰ مانک
سرکار اپنی ہزاروں خوبیوں کے باوجود ایک غیر قبائلی بنگالی تھے۔ بی جے پی
نے علٰحیدگی پسند پیوپلس فرنٹ کے دل میں بنگالی اور قبائلی کے درمیان کی
نفرت کو ہوا دی اور وعدہ کیا کہ وہ کامیاب ہونے کے بعد صوبے کو ایک قبائلی
وزیراعلیٰ سے نوازے گی ۔ بی جے پی اگر حکومت سازی کے لیے فرنٹ کا ساتھ لینے
پر مجبور ہوتی تو ممکن ہے ناگالینڈ کو پہلا قبائلی وزیراعلیٰ مل جاتا لیکن
بدقسمتی سے بی جے پی کو اپنے بل بوتے پر اکثریت مل گئی اور وہ فوراً اپنے
وعدے سے مکر گئی نیز بپلب داس کے نام کا اعلان کردیا جن کے آباواجداد
بنگلا دیش سے آئے تھے ۔ وہ بھی مانک کی طرح قبائلی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ فرنٹ نے حکومت میں شامل ہونے کے بجائے احتجاجاً باہر سے حمایت کا اعلان
کیا ہے حالانکہ بی جے پی کو اس ضرورت نہیں ہے۔
تریپورہ کی کامیابی کو بی جے پی نے اپنی نظریاتی کامیابی قرار دیا تو ضرورت
اس بات کی ہے کہ بی جے پی کی نظریاتی بنیادیں تلاش کیا جائے ۔ بی جے پی
اکھنڈ بھارت میں وشواس رکھنے والی ایک ہندو جماعت ہے جو بنگلادیشیوں کو ملک
سے نکال باہر کرنا چاہتی ہے۔ وہ گائے کو ماتا یعنی ماں کا درجہ دیتی
ہے۔گائے ذبح کرنے والے کو واجب القتل سمجھتی ہے۔ بی جے پی اپنے نظریات کے
تئیں مخلص ہے تو اس نے تریپورہ علٰحیدگی پسند قبائلی جماعت کے ساتھ الحاق
کیوں کیا؟ تریپورہ میں تو پہلے ہی ایک ہندو وزیراعلیٰ تھا مگر اس کی جگہ
بنگلادیش سے آنے والے ایک مہاجر کے بیٹے کو وزیراعلیٰ کیوں بنایا؟ دیگر دو
ریاستوں میںہندو کے بجائے کانگریس کے تربیت یافتہ اور نظریات کے حامل
عیسائی وزرائے اعلیٰ کی حمایت کیوں کی ؟ ۔ اس نظریاتی انقلاب کے باوجودگائے
کے ذبیحہ پر پابندی کیوں نہیں لگی؟ یہ اگرحقیقی معنیٰ میں نظریاتی فتح ہوتی
تو ان صوبوں میں گئو ماتا کا تقدس بھال ہوجاتا ۔
یہ کوئی نظریاتی فتح نہیں بلکہ محض ایک سیاسی کامیابی ہے جس کریہہ چہرہ
حکومت سازی سے قبل اس طرح سامنے آیا کہ امیت شاہ جیسےڈھیٹ سیاستداں کو بھی
اس کی مذمت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ راجناتھ کو وزیراعظم سے مشورے کے بعد
اس کے خلاف احکامات جاری کرنے پڑے اور یوگی ادیتیہ ناتھ کو مجسموں کو تحفظ
فراہم کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑا۔ تری پورہ میں اقتدار حاصل کرنے کا
جشن مناتے ہوئے بولونیا اور سبروم شہروں میں لینن کے دو مجسموں کو گرادیا
گیا۔ اس حرکت کی اولین حمایت آرایس ایس سے بی جے پی میں آنے والے جنرل
سکریٹری رام مادھو نے کی ۔ انہوں نے اس اس کی تصویر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر
شیئر کرتے ہوئے لکھا "لوگ لینن کے مجسمے کو گرا رہے ہیں،روس میں نہیں
تریپورہ میں ۔" رام مادھو کو بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں
نے اس ٹویٹ کو ہاندیا لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اور مہذب نقاب کے پیچھے
چھپا بھیانک باہر آچکا تھا ۔ اب تو یہ حالت ہے کہ انسان تو درکنار مجسموں
کے اندر پوشیدہ اقدار بھی خوفزدہ ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں؎
شاید ادھر سے کوئی تیشہ بہ دست گزرے
میں اک مجسمہ ہوں پتھر میں سو رہا ہوں
تریپورہ کے بدنامِ زمانہ تیشہ بدست گورنر تتھا گت رائےاس سانحہ کے بعد
میدان میں اترے اور کہا یہ واقعہ تشدد کا نہیں بلکہ شرارت کا ہے۔ اس میں
ملوث لوگوں نے قابلِ ضمانت جرم کا ارتکاب کیا ہے (یعنی انہیں گرفتار کرکے
ضمانت پر رہا کردینا چاہیے)۔ ایک زمانے میں خانہ جنگی کی بات کرنے والے تھا
گت رائے نہیں جانتے کہ نفرت کی یہ آگ تریپورہ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ
ملک کے طول و عرض میں پھیل جائے گی۔رائے صاحب اپنے ٹویٹ میں یہ بھی کہا کہ
جمہوری طریقے سے منتخب کی گئی ایک حکومت کا کام کو دوسری جمہوری طریقے سے
منتخب شدہ حکومت ختم کر سکتی ہے۔ یہ دراصل ہندوستان کی قدیم روایت ہے کہ جس
میں راجہ مہاراجہ جب کوئی ملک فتح کرتے تھے تو وہاں مندروں کو لوٹ لیتے اور
برباد کردیتے تھے ۔ اس زمانے مندر میں نصب اصنام کے نام پر حکومت کی جاتی
تھی ۔ دورِ جدید میں چوراہوں پر لگے مجسموں کی آڑ میں سرکار چلتی ہے اس
لیے مجسموں کے ساتھ کیا جانے والا تشدد مندر سے نکل کر چوراہوں پر آگیا
ہے۔ اس بابت محمود غزنوی بہت بدنام ہے لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ مراٹھوں کے
لیے لڑنے والی فوج نےمیسور میں شرینگیری کا مندر لوٹ لیا تھا اور ٹیپو
سلطان نے وہاں کے شنکراچاریہ کو تحفظ فراہم کیا تھا۔
بی جے پی میں تتھا گت رائے جیسے سرپھروں کی بہتات ہے ان میں سے ایک سبرا
منیم سوامی نے کہا ’’لینن تو غیر ملکی ہے،ایک طرح سے دہشت گرد ہے،ایسے شخص
کا مجسمہ ہمارے ملک میں کیوں؟ کمیونسٹ پارٹی اپنے مرکزی دفتر کے اندر مجسمہ
رکھ کر پوجا کر سکتی ہے"۔ سوامی جی کی اس دلیل سے روشنی میں طالبان کا
بامیان میں گوتم بدھ کے مجسموں کو مسمار کرنا درست ہوجاتا ہے ۔ بہار کے
رہنے والے گوتم بدھ افغانستان میں غیر ملکی ہیں ۔ جہاں تک دہشت گرد کے لقب
کا سوال ہے وہ تو کوئی بھی کسی کو بھی دے سکتا ہے۔ کل تک طالبان کو دہشت
گرد کہا جاتا تھا آج افغان حکومت اسے کابل میں دفتر کھولنے کی دعوت دے رہی
ہے۔ سبرامنیم سوامی کے بیان سے ان کے اپنے صوبے تمل ناڈو میں بی جے پی
رہنما ایچ راجہ کو جوش آیا ۔ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ جو سلوک لینن کے ساتھ
ہوا ہے وہی حشر پیری یار کے مجسموں کا بھی ہوگا۔ اس پرسیاسی زلزلہ آگیا ۔
ڈی ایم کے نےراجہ کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا اور بی جے پی قومی قیادت کو
صلح صفائی کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگانے والےبی جے پی صدر امیت شاہ کو کہاب پڑا کہ
ان کی پارٹی ہندوستان کے اندر مختلف نظریات کی بقائے باہم میں یقین رکھتی
ہے۔ انہوں نے پارٹی کارکنوں کو تشدد یا کسی مجسّمے کی توڑ پھوڑ کے خلاف
تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی حرکتوں میں ملوث شخص کو پارٹی کی جانب سے سخت
کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مجسموں کی تباہی کا حالیہ مسئلہ انتہائی
بدبختانہ ہے۔ ہم بحیثیت ِ جماعت کسی کے مجسمہ کو ڈھانے کی حمایت نہیں
کرتے‘‘ ۔ سوال یہ ہے کہ مجسموں کو ڈھانے کی مخالفت کرنے والی بی جے پی
بابری مسجد کو شہید کرنے والوں کی مخالفت کیوں نہیں کرتی ۔ کیا یہ اس لیے
ہے کہ مجسموں کی مسماری سے سیاسی نقصان ہوتا ہے اور مسجد کی شہادت ووٹ ملتے
ہیں؟ شاہ جی نے لکھا ’’ بی جے پی کا بحیثیت ِ جماعت یہ ماننا ہے کہ
ہندوستان میں مختلف نظریات کی بقائے باہم ممکن ہے۔ ہمارے دستور سازوں نے
ہمارے عظیم ملک کے لیے یہی ویژن پیش کیا تھا۔ ہندوستان کے تنوع اور مباحث و
تبادلۂ خیال کا پرجوش جذبہ ہمیں مضبوط بناتا ہے۔ بی جے پی ہمیشہ فراخ
دلانہ نظریات اور تعمیری سیاست کی پابند رہے گی ، جس کے ذریعہ ہم عوام کی
زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کرسکتے ہیں اور ایک نئے ہندوستان کی تعمیر عمل
میں لاسکتے ہیں‘‘۔امیت شاہ جس خیالی بی جے پی کی بات کررہے ہیں اس کا دنیا
میں وجود نہیں ہے۔ ان کے اس گمراہ کن مضمون کو پڑھ کر یہ شعر یاد آتا ہے ؎
کسی نے دُھول کیا آنکھوں میں جھونکی!
میں اب پہلے سے بہتردیکھتا ہوں
نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو نے مجسموں کی توڑ پھوڑ کو شرمناک پاگل
پن قرار دیا۔ اس کی وجہ لینن سے ہمدردی نہیں ہے بلکہ تریپورہ کے واقعات
شمال مشرق سے نکل کر مغربی بنگال ،تمل ملناڈو اور اتر پردیش تک پہنچ گئے
ہیں ۔ جن لوگوں نے لینن کے مجسموں کو توڑ کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ
اب وہ طاقتور ہو گئے ہیں اور ان کے مخالفین کی کمر ٹوٹ گئی ہے انہیں بہت
جلد پتہ چل گیا کہ اس کے لیے کوئی بہت بڑی طاقت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مرکز
میں بی جے پی کی حکومت اور بنگال میں غیر کمیونسٹ سرکار ہونے کے باوجود جن
سنگھ کے بانی شیامہ پرشادد مکرجی کی جنم بھومی میں ان مجسمے کی بے حرمتی
کردی گئی۔ تمل ناڈو میں دو لوگوں نے پیری یار کے مجسمے کو نقصان پہنچایا تو
اس کا بدلا کھلے عام دس براہمنوں جینو کا ٹ کر لیا گیا۔ اتر پردیش میں
ڈاکٹر امبیڈکر کے مجسمے کو نقصان پہنچایا گیا تو اس کے جواب میں یوگی سرکار
کے ہوتے ہنومان کے بت کو توڑ پھوڑ دیا گیا۔ اب تو یہ خبر ہے کہ تمل ناڈو
میں بھی نہ صرف ڈاکٹر امبیڈکر بلکہ گاندھی جی کے مجسمے کو بھی نشانہ بنایا
جا چکا ہے۔ مجسموں کی سیاست کا یہ کھیل ابھی جاری ہے اور کہاں جاکر رکے گا
کون جانے؟ لیکن اس میں شک نہیں کہ اس نے بی جے پی کی تریپورہ فتح کے منہ پر
کالک پوت دی ہے۔اس بت شکنی کے پس منظر میں وطن عزیز کی حالتِ زار پر سدرشن
فاکر کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
پتھر کے خدا پتھر کے صنم پتھر کے ہی انساں پائے ہیں
تم شہر محبت کہتے ہو ہم جان بچا کر آئے ہیں
|