سن ڈے اور سن رائز

اتوار کا دن تھا اور ہم ہفتے کی رات منصوبہ بندی کر چکے تھے کہ اس اتوار سن رائز دیکھنے جائیں گے۔در اصل آج کی اس بھا گتی دوڑتی مشینی زندگی میں اپنے لیے وقت نکالنا سب سے مشکل کا م ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اتنی مصروفیت اور مسلسل کام کے بعد بھی ہم خوشیوں اور سکون کو ترستے ہیں۔ہم چاربچپن کے دوست وقت نکال کر کچھ نہ کچھ ایسا کرتے ہی رہتے ہیں کہ جس سے خوشی کے کچھ پل حاصل ہوں بالخصو ص یہ احسا س اجا گر رہے کہ ہم انسان ہی ہیں کوئی مشین نہیں۔خیر آپ بھی کہیں گے کہ میں نے یہ کیا کتابی باتیں شروع کر دی ہیں تو آئیے آپکو اس دلچسپ سفر کی روداد سناؤں جو ہمارے گھر سے شروع ہو کر سی.ویو پر ختم ہوا۔ ہم چار دوست جو فی الحال کنوارے اور نوجوان ہیں حالانکہ گھر والے اس بات سے شدید اختلاف رکھتے ہیں کہ ہم نوجوان ہیں لیکن ہم بھی ایک ڈھیٹ ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب تک مرد کی شادی نہ ہو وہ نوجوان ہی ہوتا ہے چاہے اس کی عمر چالیس برس ہی کیوں نہ ہو جائے لیکن اس بات کا قطعاََ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم چالیس برس کے ہیں۔ہم سب حضرات کی عمریں 26 اور 28 برس کے درمیان ہیں۔بہر حال بات پھر کہیں سے کہیں جا نکلی تو جناب میں آپ سے یہ کہہ رہا تھا بلکہ بتا رہا تھا ہم کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ہر ویک اینڈ پر دستیاب وسائل کے اندر منصوبے بناتے ہیں۔اس بار فیصلہ کیا کہ صبح صبح سن رائز دیکھا جائے پھر

کہیں ناشتہ کیا جائے،تو جناب رات کو ہم سب نے اپنے موبائل پر ۵بجے کا الارم لگایا تاکہ جلدی اُٹھ کر وقت سے وہاں پہنچ سکیں۔ اگلی صبح میری آنکھ پانچ بجے کھلی پہلے تو سمجھ نہ آیا کہ نیند میں خلل کیوں واقع ہو اہے پھر معلوم ہوا کہ سر ہانے پڑا موبائل چیخ رہا ہے اور کمبخت چیخ بھی ایسے رہا تھا کہ جیسے انسان ڈروانا خواب دیکھتے ہوئے چیختا ہے اور جب تک ساتھ سونے والا اُسے اُٹھا نہ دے وہ چُپ نہیں ہوتا ایسے ہی موبائل بھی تب ہی خاموش ہوا جب میں نے اُسے اُٹھا کر خاموش کیا۔ بہرحال بادل نخواستہ بستر سے اُٹھا،نماز پڑھی اور ۰۲:۵ پر اپنے دوست آفاق عر ف سائیں کے گھر پہنچ گیا۔ایک مختصر تعا رف آفا ق عرف سائیں کا۔یہ ہماری دوستانہ محفل کے ہر دلعزیز اور محبوب شخصیت ہیں۔اصل نام تو آفاق ہے لیکن سائیں کا لقب ہم سب کی متفقہ قرار دادکے بعد دیا گیا۔سائیں سے مراد ہر گز کوئی روحانی شخصیت نہیں ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں ہم ان سے اپنے دنیا وی مسئلے مسائل حل کرواتے ہوں۔دراصل ان کی ایک خصوصیت ہے گم ہو جانے کی۔بیٹھے بیٹھے،چلتے، چلتے، بات بات کرتے کرتے،ٹی وی دیکھتے حتیٰ کہ گاڑی چلاتے ہوئے کسی بھی وقت ذہنی طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔اگر آپ ان سے بات کر رہے ہوں اور ان پر یہ کیفیت طاری ہو جائے تو کچھ ہی لمحوں کے بعد آپ کو ایسا محسوس ہو گا کہ جیسے کہ آپ دیواروں سے بات کر رہے ہیں اور سامنے موجود شخص موجود ہے ہی نہیں اور اگر آپ خاموش نہ ہوئے تو خود کو بے وقوف محسوس کریں گے۔یہ کیفیت اس وقت زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے جب یہ صاحب گاڑی چلا رہے ہوں۔ایک دفعہ میں ان کے ساتھ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر موجود تھا اور یہ حضرت گاڑی چلا رہے تھے کہ اچانک یہ گم ہو گئے۔ مجھے احساس نہ ہو سکا میں سمجھا احتیا ط سے ڈرائیونگ کی جا رہی ہے۔ سڑ ک کے بیچوں بیچ ایک مین ہول کو عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت اچھے خاصے بڑے پتھر سے ڈھک دیا تھا اور دور سے ایسا محسوس ہو تا تھا کہ جیسے سڑک کے درمیان ایک پہاڑی اُگ آئی ہو۔میرے سائیں دوست نے ایسے اُس پر گاڑی چڑھائی کہ جیسے وہ پتھرہمارے لیے ہی رکھا گیا تھا اور وہ ہی ہماری منزل تھا۔وہ تو خدا کا شکر ہے کہ گاڑی اُلٹ نہ گئی البتہ میرا دل اُچھل کر حلق میں آگیا۔میں نے اپنے دوست کی طرف شاکی نظروں سے دیکھا تو وہ کہنے لگاارے بھا ئی تم نے مجھے بتا یا کیوں نہیں!الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔اب آپ میرے دوست آفاق عرف سائیں سے متعرف ہو چکے ہوں گے اور یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم ان کے ساتھ کہیں جانے کا رسک لیتے ہی کیوں ہیں تو جناب ہماری بھی کچھ مجبوریا ں ہیں۔صرف یہ ہی حضرت ہیں جن کے پاس گاڑی ہے لہذا مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق ان کے ساتھ جانے کا رسک لینا ہی پڑتا ہے۔قصہ مختصر ہم لو گ روانہ ہوئے ایک دوست کو اس کے گھر سے لیا پھر دوسرے دوست کو لینے گئے تو انھوں نے نیچے اُترتے اُترتے 10 منٹ ضائع کردیے جس کے بعد جب گاڑی چلی تو ہمیں ایسے ہی لگا کہ جیسے ہم موت کے سفر پر روانہ ہو گئے ہوں،حالانکہ اپنےسائیں دوست کو متعدد بار سمجھانے کی کوشش کی کہ سن رائز کھلی آنکھوں کے ساتھ ہی دیکھا جا سکتا ہے اگر یہاں سے قبروں میں پہنچے تو اعمال کی بدولت سورج غرب ہی ملے گا لیکن میرا سائیں دوست کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہ تھا حتیٰ کہ میں نے ہم سب کی ڈری سہمی اور یتیمانہ شکلوں کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن اس نے ایسے ہی منہ پھیرا جیسے کہ سیاست دان منتخب ہونے کے بعد عوام سے منہ پھیرتے ہیں۔ بہر حال ماں کی دعاؤں کی بدولت ہسپتال کی بجائے ساحلِ سمندر پر پہنچ ہی گئے۔ گا ڑی سے جلدی سے نکلے اور سورج کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے کہ اس منظر کو دیکھیں جس کا ذکر کتابوں میں پڑھا اور سنا ہے۔لیکن یہ کیا! سورج کہیں دکھائی نہ دیا حالانکہ روشنی تو چاروں طرف تھی پھر جناب ہمارے ہی دوست فیصل نے توجہ دلائی کہ ہم سب سورج کے غروب ہونے والے رُخ کی طرف کھڑے ہیں تو سورج کیا خاک دکھے گا۔بہرحال جب مشرق کی طرف منہ کیا تو سورج بھی ہم پر ہنسنے لگا کیوں کہ وہ تو اچھا خاصہ سفر طے کر چکا تھااور ہماری اتنی محنت بے کار گئی۔منہ لٹکا کر بیٹھ گئے پھر سوچا تھوڑی چہل قدمی کر لی جائے اس کے بعد ناشتہ۔ابھی ہم واپس جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک ہم سب کی نظر ساحلِ سمندر پر ہجوم پر پڑی جو ایک گاڑی کے گر داکٹھا تھا۔ مارے تجسس کے ہم بھی وہاں چل دیے کہ دیکھیں کیا معاملہ ہے۔قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایک منچلے صاحب،منچلے کے ساتھ آپ نے اکثر نوجوان کا لفظ پڑھا ہو گا لیکن یہاں صاحب کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ان کی عمر کسی طرح بھی 50 سے کم نہ ہو گی اپنی فیملی کے ساتھ پراڈو میں موجود تھے اور گاڑی کو ریت میں پھنسا بیٹھے تھے۔ہجوم میں موجود لوگ گاڑی کو نکالنے کے لیے زور لگا رہے تھے لیکن جیسے جیسے گاڑی کے ٹائر گھومتے مزید ریت کے اندر دھنستے جاتے جس سے صورتحال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔قصہ کچھ یوں تھا کہ منچلے صاحب کچھ زیادہ جو ش میں تھے اور گاڑی کوساحل پر چلانے لگے پانی کے زیادہ قریب لے گئے اور کھڑی کر دی۔ٹائر وں کے نیچے سے ریت پھسلتی رہی اور جن انھوں نے گاڑی اسٹارٹ کی تو نتیجہ یہ صورتحال۔بہرحال ہم نے بھی اس کا رِ خیر میں حصہ ڈالنے کی ٹھا نی۔ہم سب بھی اس ہجوم میں شامل ہو گئے اور لگے زور لگانے یہ الگ بات ہے کہ ہمارا سارا زور دوسرے افراد کو دھکے دینے میں لگنے لگا کیوں کہ گا ڑی پر ہاتھ رکھنے کی جگہ ہی نہ تھی اور لوگ مدد کی بجائے مزہ لینے میں مصروف تھے ہمیں پہلے تو غصہ آیا لیکن سچ بات تو یہ تھوڑی دیر بعدہمیں بھی مزہ آنے لگااور خود کو لعنت ملامت کرتے ہوئے وہاں سے آگے روانہ ہو گئے کیوں کہ صا ف ظاہر تھا کہ اس زور آزمائی کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہو نا ہاں اتنا ضرور کیا کہ گاڑی والے حضرت کو مفت مشورہ دے آئے کہ مدد منگوا کر گاڑی باہر نکلوا لیں۔اس کے بعد ہم وہاں سے چل دیے۔اس دھینگا مشتی میں رہی سہی طا قت بھی ختم ہو چکی تھی اور بھوک کے مارے بُرا حال تھا لہذاایک ہوٹل کے قریب گا ڑی رکوائی ڈھیر سارا ناشتہ کیا جس میں تندوری پرا ٹھے،انڈے آملیٹ،ملائی، چائے وغیرہ شامل تھی ہمارے کھانے کی رفتار اور مقدار کو دیکھ کر ہوٹل والے ہمیں گھورنے پر مجبور تھے شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ کھانے کے بعد ہم ان سے بل پر معذرت کر کے برتن دھونے کی خدمات کی پیشکش کریں گے۔بہرحال ناشتے کا بل ادا کیا تو ان کی جان میں جان آئی اور ہم نے گھر کی راہ لی۔آئند ہ پھر کسی سفر نامے کے ساتھ حاضر ہوں گے۔

Sohail raza
About the Author: Sohail raza Read More Articles by Sohail raza: 19 Articles with 30487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.