چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے صادق سنجرانی کی کامیابی سے
پاکستانی سیاست کی نئ شروعات ہوئ. 2018پاکستان میں عام انتخابات کا سال ہے
اور پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات کے بعد اکثریت حاصل کرنے والے اسے
جمہوری تسلسل کے لیئے خوش آئند قرار دے رہے ہیں.جبکہ کچھ مبینہ بدعنوانی کی
بھی شکایت کرتے نظر آتے ہیں،کہیں الزام تراشی ہے کہ ان کے ووٹرز خرید لیئے
گئے کہیں پارٹی ورکرز سے متعلق وفاداریاں تبدیل کرنے کی بھی بات کی جارہی
ہے.مجموعی طور پر سینیٹ کے انتخابات میں ایک ایسی جماعت کے حمایت یافتہ
امیدوار کامیاب ہوئے جس سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کو کچھ ہی عرصہ پہلے
نااہل قرار دیا جاچکا تھا.ایسے میں چیئر مین سینیٹ کا انتخاب بھی سیاسی
پارٹیوں کے مابین ضد اور انا کا مسئلہ بن چکا تھا-
حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے راجہ ظفر الحق کو سینیٹ کے چیئرمین کا امیدوار
نامزد کر کے کر پاکستان کا دوسرا اعلیٰ ترین آئینی عہدہ پاکستان کے سب سے
زیادہ محروم سمجھے جانے والے صوبے کے بجائے سب سے زیادہ وسائل رکھنے والے
صوبے کے حوالے کرنے کی کوشش کی.
جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے اندر بغاوت پیدا ہوئ کیونکہ تحریک انصاف کے
سربراہ عمران خان کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے دوران بلوچستان کی
محرومیوں کے ازالے کے لیے ’سینیٹ چیئرمین بلوچستان سے ہونا چاہیے‘ تھا اور
اس سلسلے میں انھوں نے باقاعدہ ایک بیانیہ بھی جاری کیا.دوسری طرف ایم کیو
ایم بھی دونوں دھڑوں کے اتحاد کے باوجود سینیٹ میں بس ایک ہی سیٹ حاصل
کرپائی.
عمران خان جس موقف کو لے کے چل رہے تھے اسے شکست دینے کا ایک ہی طریقہ تھا
مسلم لیگ کے پاس کہ وہ اپنی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر حاصل
بزنجو کو سینیٹ چیئر مین کے لیئے امیدوار نامزد کرتی لیکن یہ فیصلہ بوجھل
دل کے ساتھ کیا جارہا تھا جسے انکی طرف سے رد کردیا گیا لیکن انھوں نے کہا
کہ مسلم لیگ اپنے کسی بھی امیدوار کو کھڑا کرتی ہے تو ان کی پارٹی حمایت کا
ووٹ ضرور ڈالے گی پارلیمنٹ میں اپنی ایک جذباتی تقریر کے دوران انھوں نے
عمران خان کے بیانیہ کو مصنوعی قرار دیا اور کہا کہ اس کا بلوچستان اور اس
کی محرومی سے کوئ تعلق نہیں.بلکہ جن لوگوں کو سامنے لایا جارہا ہے وہ
پاکستان عسکری پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی کے وفادار ہیں ان لوگوں کے
زریعے سینیٹ کا استحصال کیا جاسکتا ہے.
بہر حال حمایت ہو یا مخالفت ، نتائج کے بعد دونوں ہی طرح کے ردعمل سامنے
آرہے ہیں.اور اس حوالے سے عوام اور سیاستدانوں کے ملے جلے دلچسپ ٹوئیٹس بھی
سامنے آرہے ہیں.
سینیٹ کے انتخابات وقت پر ہوجانا ہی ملکی سیاست کے لیئے کافی خوش آئند ہے
وہ بھی ان حالات میں جب کافی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہو اور منتخب
وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی نااہل قرار دے کے منصب وزارت سے
ہٹادیا گیا ہو. ایسے میں ایک عام تاثر یہی پایا جارہا تھا کہ اسمبلیاں
ریزلوو کردی جائیں گیں.یا الیکشن بھی ملتوی ہوسکتے ہیں یا ہوسکتا ہے فوج ہی
مداخلت کرکے پھر سے مارشل لاء نافذ کردے یا سول ملٹری ملی جلی حکومت وجود
میں آجائے.ایسے میں سینیٹ انتخابات کا انعقاد جمہوریت کے لیئے ایک صحت
مندانہ قدم تھا.اور جہاں تک اپنے ووٹرز کے بکنے یا خریدے جانے کے الزام کا
تعلق ہے تو یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب پارٹی ممبرز اپنی لائن سے ہٹ
کر کسی اور پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں.ہمارا دستور یا ہمارا قانون
سیکرٹ ویلٹ کے ذریعے ووٹنگ پر مبنی ہے وہ یہ اجازت دیتا ہے کہ لوگ اپنی
پارٹی کے علاوہ بھی جسے چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں. ان پر کوئ پابندی نہیں اور
ان پہ ڈیفیکشن کی بھی کوئ کلاس لاگو نہیں ہوتی.اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں
ہوتا کہ کسی نے پیسے لے کے یا اپنے مفادات کے لیئے اپنا حق رائے دہی
استعمال کیا.بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنا ووٹ کسی اور
پارٹی کے نسبتا بہتر امیدوار کو دے دیا.یہ نظام 1973کے آئین کے تحت چل رہا
ہے اگر اس نظام کے نتیجے میں شکایات پیدا ہورہیں ہیں تو پارلیمنٹ میں نسبتا
بہتر قانون لے کے آئیں اور اسے اتفاق رائے سے منظور کرائیں.لیکن قانون میں
بظاہر کوئ خامی نہیں. اگر مسائل ہیں تو وہ سیاسی پارٹیوں کے اندرون ڈسپلن
کے پیدا کردہ ہیں.
تو پارٹی کے اندر اس صورتحال کا جائزہ لینا چاہیئے کہ وہ کیا وجوہ ہیں جن
کی بنا پر پارٹی ارکان اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور ہیں. دوسری طرف
عدلیہ کے سینیٹ انتخابات اور نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی کے فیصلوں
کو لے کر بھی پاکستانی سیاسی اور قانونی حلقوں میں مسلسل سوال اٹھ رہے ہیں.
ایک عام تاثر یہ جارہا ہے کہ یہ تمام فیصلے ایک خاص جماعت کے ہی اگینسٹ
کیئے جارہے ہیں.دوسری طرف مسلم لیگ نون عوامی حلقوں میں اسے اپنے حق میں
استعمال کررہی ہے کہ اسے پاکستانی سیاست کے اندر ایک وکٹم کی حیثیت حاصل ہے
اور الیکشن کے دوران بھی وہ اسے کامیابی سے استعمال کرے گی.ہمارے یہاں اس
طرح کے بیشتر مسائل سول ملٹری عدم توازن کی بھی پیداوار ہیں اور یہ عدم
توازن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کیوٹیکل مسائل یا خارجہ پالیسی سے متعلق
مسائل پر سول اور فوجی قیادت میں اختلافات پیدا ہوں. اس سے ملک کا سیاسی
ڈھانچہ بہت متاثر ہوتا ہے اور اسٹیبلٹی پیدا ہونے کے چانسس پیدا ہوجاتے
ہیں. ماضی میں اس کے نتیجے میں حکومتیں بھی بدلتی رہیں ہیں.اور مارشل لاء
بھی آتی رہی ہے.تو دیکھنا یہی ہے کہ اب سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے. فتح
جمہوری اقدار کی ہوتی ہے یا پھر سے سیاست اکھاڑے کا روپ دھار لیتی ہے.اور
یہ جب تک ہوتا رہے گا جب تک وفاق عدلیہ اور فوج ایک نقطے پر اکتفا نہیں
کرلیتے .جب تک ہم اندرونی مسائل سے نبرد آزمارہین گے تب تک ہم بیرونی خطرات
سے یکجا ہوکر مقابلہ نہیں کرسکتے. ہم بین الاقوامی سطح پر ایک مذاق بنتے
جارہے ہیں.ہمارے ملک کی ساکھ اس سے بری طرح متاثر ہورہی ہے اور بے چاری
عوام اس کے لیئے تو میں بس اتنا ہی عرض کروں
گی کہ
چلیئےتھوڑا سنبھل کےرستے میں
آدمی............آرہا ہے پیروں میں
حیاغزل |