گزشتہ روز ہاکورہ بدسگام میں تین نوجوان شہید ہو گئے۔ ان
میں سے ایک صورہ سرینگر کا عیسیٰ فاضلی، دوسرا کوکر ناگ جنوبی کشمیر کا
اویس شفیع اور تیسرا تلنگانہ حیدر آباد بھارت کا محمد توفیق تھا۔ جن میں سے
دو کشمیری اعلیٰ تعلیم یافتہ بی ٹیک کرتے ہوئے مجاہدین کی صفوں میں شامل
ہوئے۔ مگر کسی غیر معروف تنطیم نے ان میں سے ایک کا تعلق القائدہ یا داعش
سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اس داعش کو کبھی پاکستان میں نمودار کیا جاتا ہے۔
کبھی افغانستان اورکبھی دہلی سے۔ اب مقبوضہ کشمیربھی اس کا ٹارگٹ بنا یا جا
رہاہے۔ یہ کسی منصوبہ بندی سے ایسے نشانے باندھتے ہیں۔ ان کا ٹارگٹ زیادہ
تر مسلمان ہی بن رہے ہیں۔ اہل تشیع۔ مصر کے قبطی مسیحی، شام کے دروز، عراق
کے یزیدی بھی ان کا نشانہ بنے ہیں۔ اب یہ وہاں سے نکل کر تیونس، یمن اور
سعودی عرب تک پہنچ چکے ہیں۔ ان کی جنگ نظریاتی ہے۔ ان کا طریقہ واردات ایسا
ہے کہ اس سے اسلام دشمنوں کو ہی فوائد سمیٹنے کا موقع مل رہا ہے۔ مسلمانوں
میں خانہ جنگی کا لاوا پگلایا جا رہا ہے۔ مسلم دشمن اسلام کو زیر نہ کرسکے
اور اب وہی صلیبی جنگوں جیسا سٹائل اپنا رہے ہیں۔ تا کہ مسلمانوں کے اندر
نئے نئے فرقے جنم لیں۔ ان فرقوں کے درمیان پہلے علاقائی سطح پر اور پھر
عالمی سطح پر بڑی جنگ ہو۔ مسلمان ان جنگوں سے اس قدر کمزور یا تباہ ہو
جائیں تا کہ ایک بار پھر خلافت اسلامیہ جیسا منظر ہو۔ جب اس عظیم سلطنت کے
ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ انہیں انھوں نے آپس میں مال غنیمت کی طرح بانٹ دیا۔
شروع سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ مسلم دنیا کو بکھیر دینا ہی ان کا ایجنڈا ہو
سکتا ہے۔
ایران اور عراق جنگ سے مسلم دنیا کوتباہی کا شاید احساس نہیں ہو گا جو اس
خطے میں آئی لیکن اس کا خمیازہ مسلمانوں نے بھگتا۔ یہ کفار ایسا ہی کرتے
ہیں۔ آدھے ایک بلاک کے ساتھ اور دیگر دوسرے کے ساتھ۔ مالی مدد کی یقین
دہانیاں ہوتی ہیں ۔ اس کے عواض وسائل پر قبضہ۔ عراق نے سر اٹھایا۔ لیکن پھر
اس پر ایسا وار کیا کہ جس کے ذخم آج بھی رس رہے ہیں۔ یہ کفار کا ہمیشہ سے
ہی وطیرہ رہا ہے ۔ لیکن اس میں زیادہ قصوروار ہم خود ہیں۔ جو ان کے اشارے
پر ناچتے ہیں۔ ان ک جی حضوری کرتے ہیں۔ ان کی این جی از کئی مشن پر کام
کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ مختلف خطوں یا علاقوں میں مسلم
آبادی کا شرح تناسب معلوم کیا جائے۔ مسلمانوں کے فرقوں پر ریسرچ کی جاتی ہے۔
کسی دشمنی یا لڑائی جھگڑے کو سامنے لا کر اسے فرقہ ورانہ رنگت دی جاتی ہے۔
پاکستان میں ہی نہیں بلکہ مسلم دنیا میں بلیک واٹر جیسے نیٹ ورک یہی کام
کرتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں مشکوک رہتی ہیں۔ لیکن یہ ڈالرز، پاونڈز ، یورو دے
کر کام کرا لیتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تصدیق ہوئی کہ پی پی پی کے گزشتہ دور
حکومت میں ہزاروں غیر ملکی باشندوں کو ویزے دیئے گئے۔ یہ ہزاروں لوگ کہاں
غائب ہیں۔ کیا کر رہے ہیں۔ ان کے اہداف کیا ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں۔ حسین
حقانی جانتے ہوں گے۔یہ سب ڈیورڈ ریمنڈ ہیں۔ لیکن انہیں کوئی پکڑ نہیں سکتا
ہے۔ ان کے سامنے ہماری اوقات کیا ہیں۔ ہم اپنے وسائل پیدا نہ کریں گے تو
یہی ہو گا۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہے گا۔ پھر ہمارے دوست نما ممالک
بھی کام نہیں آ سکتے ہیں۔ ہر ایک کے اپنا مفادات ہیں۔ ممالک کی دوستی کا
معیار یہی ہے کہ اپنے مفادات کو فروغ ملے۔
سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے پاکستان میں قدرتی آفات
کے دوران اور بعد میں جو کام کیا۔ ریسکیو، ریلیف، آباد کاری، تعمیر نو
مثالی کام تھے۔ جو آج تک جاری ہیں۔ وہ ہماری مدد کر رہے ہیں۔ مسلم بردار
ممالک کی طرح۔ مالی، فنی اور دیگر تکنیکی معاوت فراہم ہو رہی ہے۔ اس سے
ہمارے درمیان برادرانہ اور دوستانہ تعلقات مستحکم ہو رہے ہیں۔ تجارت کو بھی
ان تعلقات کی وجہ سے فروغ ملے گا۔ جس سے ہماری معیشت میں اضافی یقینی سمجھا
جاتا ہے۔ چین بھی اس خطے میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ تا ہم
اس کے بارے میں بھی ایسی رپورٹیں سامنے لائی جا رہی ہیں کہ جن سے کسی بھی
مسلمان کی تشویش بجا ہوتی ہے۔ جیسے کہ وہاں روزہ داروں کے ساتھ حکومتی رویہ
اور پابندیاں۔ یہ اگر پروپگنڈہ ہے تو اس کا مقصد واضح ہے۔ اگر سچ ہے تو چین
کی حکومت کو اس بارے میں واضح پالیسی تشکیل دے کر اس کے اسباب تلاش کرنا
ہوں گے۔ ورنہ بلا شبہ پائیدار دوستی ہی قوموں کے درمیان تعلقات کی آئینہ
دار ہوتی ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ کل داعش والے سنکیانگ سے نمودار کر دئیے
جائیں۔ پھر ایغور مسلمانوں کی اسی بہانے نسل کشی کی راہ ہموار کی جائے۔
دنیا کے ہر ملک میں یہی خدشات ہیں کہ داعش کا استعمال استعمار اپنے مفاد کے
لئے کرے گا۔ جس سے مسلم دنیا کو نقصانات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ اس کا
اگر کوئی معقول حل تلاش کرنے کی کوشش نہ ہوئی تو منفی نتائج سے دنیا بھر کے
مسلمان متاثر ہوں گے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ عرصہ میں جب شام میں سعودی
عرب اور اس کے اتحادیوں نے باغیو ں پر حملے کئے تو سعودی اور ایران کے
درمیان اس طرح سے دوریاں پیدا کی گئیں کہ جیسے یہ جنگ مسلم دنیا کے یہ دو
بلاک لڑ رہے ہوں۔آج شام میں معصوموں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ لوگوں کی
نظریاتی اور جذباتی وابستگیاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا داعش کو مسلمانوں کے
درمیان خانہ جنگی کے لئے استعمال کرنے کی سازش میں ہمارا کا کردار ہے۔ کیا
ہم اس سازش میں کسی طور بھی شریک ہیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر۔ اس بارے
میں انتہائی گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ داعش، القائدہ یا طالبان
کے پرچم ، اس کے نعرے، اس کی نموداری کے پس پردہ کیا ہے۔ نشیمن میں کون ہے۔
کیسے یہ کبھی پاکستان ، کبھی بھارت، کبھی کشمیر، کبھی افغانستان سے نمودار
ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہیں اسے مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کے لئے استعمال
کیا جا رہا ہے اور کہیں مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے۔ اس پر ہمیں غور و خوض
کی ضرورت ہے۔ کشمیری واضح کرتے ہیں کہ ان کا کوئی عالمی ایجنڈہ نہیں۔ ان کا
کسی داعش ، القاعدہ یا طالبان سے تعلق نہیں۔پھر بھی بھارت اور اس کے سرپرست
کشمیر میں داعش کی موجودگی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔تا کہ مسلمانوں کی
نسل کشی مزید تیز کر دی جائے۔ |