سعودی عرب دنیا میں مسلمانوں کے روحانی مراکز کے باعث
قابل احترام اور مذہبی بنیادوں پر عقیدت کا مرکز سمجھا جاتا ہے ، جبکہ
اسرائیل اور ہندوستان دنیا کے مسلم ممالک اور مسلمانوں کے نزدیک اسلام دشمن
سمجھے جاتے تھے اور ہیں۔
جمعرات کو ہندوستان کی سرکاری فضائی کمپنی ایئر انڈیا کی پرواز سعودی فضائی
حدود استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے شہر تل ابیب کے بن گوریوں ہوائی اڈے پر
پہنچ گئی، واضع رہے کہ سعودی عرب اسرائیل کو ملک تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی
دونوں ممالک کے درمیان کسی قسم کے سفارتی تعلقات ہیں مگر پھر بھی سعودی عرب
نے ہندوستان سے اسرائیل جانے والے طیارے کو جانے کی اجازت مرحمت فرماکر
اپنے لبرل یا ترقی پسند ملک کا ہونے کا شائد ثبوت دیا ہے یا پھر امریکہ سے
اپنی بادشاہت کی گارنٹی حاصل کرلی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان پر ہر
لمحے الزامات اور لعن طعن کرنے والے ہمارے برادر اسلامی ملک کی اس دلیری پر
اپنا حق کیسے استعمال کرتے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ سعودی معاشی ماہرین اور صاحب اقتدار کی یہ پہلی اور آخری
اجازت نہ سمجھی جائے بلکہ اب دونوں ممالک یعنی سعودی عرب اور اسرائیل میں
تجارتی بنیادوں پر روابط پیدا ہوگئے ہیں اور مزید پیدا ہونگے سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ ایک ملک دوسرے ملک کو جب ریاست مانتا اور سمجھتا ہی نہیں تو پھر
اس سے تجارتی روابط کی پوزیشن کیا ہے۔ کیا سعودی عرب اسرائیل کی جارحیت اور
خطے میں اس کے مکروہ کردار کو یکسر فراموش کرکے یہودونصریٰ سے محبت اورالفت
کی نئی داستان رقم کرنے میں اتنا نڈر ہوگیا ہے کہ عالم اسلام کا اصولی موقف
نظر انداز کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔
اسی تناظر میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان جیسے غریب اور
قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک اپنے معاشی معاملات کے پیش نظر اسرائیل کے ساتھ
ایسے تجارتی روابط پیدا کرتا تو ہم پاکستانیوں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں
کی نظروں میں ہم ہی ملعون اور قابل مذمت گردانے جاتے اور ہمارے اسلامی
برادر ملک سعودی عرب کہ جس کے وسائل اور دولت کا حساب لگانا بھی مشکل ہے وہ
اسرائیل اور انڈیا کے درمیان سفر میں ٢ گھنٹے کی کمی جیسے معمولی معاملے پر
اپنے موقف میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوکر بھی سرخرو ٹہرا، اور خدانخواستہ
اگر پاکستان ایسی کوئی اجازت دینے کا سوچ بھی لیتا تو پھر ملک میں اٹھنے
والے طوفان اور احتجاجات اور جلائو گھیرائو کا تصور ہی خوف کردینے والا ہے۔
|