اسرائیل کا غزہ پر قبضے کا منصوبہ اور مصر کا گیس معاہدہ
(Khursheed Alam Dawood Qasmi, India)
اسرائیل کاغزہ پر قبضے کا منصوبہ اور مصر کا گیس معاہدہ
بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی
غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ صہیونی کابینہ میں منظور: صہیونی ریاست اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مکمل قبضے کی بات کئی دنوں سے سننے میں آرہی تھی۔گذشتہ جمعرات کی شب صہیونی ریاست کےوزیر اعظم نیتن یاہو نے صہیونی کابینہ کے اجلاس میں، غزہ پر مکمل قبضے کے لیے ایک مفصل اور "مرحلہ وار منصوبہ" پیش کیا۔ اگلے دن یعنی بروز: جمعہ 8/ اگست 2025 کو صبح کے وقت، اس منصوبے کو کابینہ کی طرف سے منظوری مل گئی۔ اس منصوبے کی منظوری تقریباً دس گھنٹے طویل اجلاس کے بعد دی گئی۔ یہ دس گھنٹے کا وقت اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیلی قیادت کے اندر اختلاف وانتشار ہے، وہ اس حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اور موجودہ حکومت بہت حد تک کمزور ہے۔ اس منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج کو غزہ کے ان علاقوں میں داخل ہونا ہے، جہاں وہ ابھی تک مکمل کنٹرول قائم نہیں کر سکی ہے، خاص طور پر وسطی غزہ اور غزہ شہر کے مرکزی حصے۔ منصوبہ یہ ہے کہ پہلے غزہ شہر کے شہریوں کو جنوب کی طرف دھکیل کر وہاں کے گھروں اور علاقوں کو خالی کرایا جائے۔ پھر مکمل محاصرے کے ذریعے فوجی کارروائیاں شروع کی جائیں؛ تاکہ پورے علاقے پر مکمل قبضہ حاصل کیا جا سکے۔
یہ واضح رہے کہ سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ کے دوران، صہیونی قابض فوج نے غزہ کے کئی حصوں پر قبضہ کیا تھا؛ مگر اپریل 2024 میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حماس کا فوجی ڈھانچہ تباہ کر دیا گیا ہے اور پھر صہیونی فوج پیچھے ہٹ گئی تھی۔ اس وقت وسطی غزہ کے چند کلیدی علاقے، مثلا: مہاجر کیمپ النصیرات،المغازی، البریج، دیر البلح وغیرہ قابض فوج کے کنٹرول سے باہر ہیں؛ لیکن وہاں صہیونی قابض فوج وسیع پیمانے پر تباہی مچا چکی ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق یہ غیر مقبوضہ علاقے غزہ کی کل زمین کا صرف دس سے پندرہ فی صد ہیں۔
اسرائیلی چیف آف اسٹاف کے خدشات: اس منصوبے پر اسرائیلی فوجی قیادت کی طرف سے تشویش کا اظہار ہوا ہے۔ چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے اعتراف کیا ہے کہ اس طرح کا آپریشن انجام دینے کے لیے تقریباً دو لاکھ ریزرو فوجیوں کی ضرورت ہوگی، جن میں سے بیشتر پہلے ہی لمبے عرصے تک جنگ میں مصروف رہ چکے ہیں، جس سے ان کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے محض فوجی قوت کافی نہیں؛ بلکہ ایک مضبوط بنیادی ڈھانچہ بھی درکار ہے، جو اس وقت موجود نہیں ہے۔ مزید برآں، اس نے کہا کہ غزہ کے عام شہریوں کے لیے ہنگامی طبی سہولیات اور انسانی امداد کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہوگی، جو اسرائیلی فوج کی موجودہ صلاحیت سے باہر ہے۔ اس بیان کو اس اعتبار سے بھی دیکھا جانا چاہیے کہ یہ درحقیقت ایک طرح کا قبل از وقت اعتراف ہے کہ منصوبے کو مکمل کامیابی دلوانا آسان نہیں ہوگا اور ممکنہ طور پر یہ پسپائی کی طرف بھی اشارہ ہے۔
اکیسویں صدی میں استعمار کی نئی شکل: آج کی دنیا میں طاقتور ریاستوں کا کمزور قوم پر فوجی قبضہ، نہ صرف بین الاقوامی قانون؛ بلکہ انسانی حقوق اور اخلاقی اصولوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کا منشور ہر ریاست کی خودمختاری اور سرحدی سالمیت کے احترام پر زور دیتا ہے؛ مگر اسرائیل کی موجودہ کارروائیاں ان تمام اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ یہ قبضے کا منصوبہ دراصل ایک جغرافیائی و سیاسی بالا دستی کا خواب ہے اور ساتھ ہی ساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی کو چھپانے کی ایک اہم چال ہے۔ اکیسویں صدی میں، امن کے بہانے اس طرح قبضے اور کنٹرول کی بات کھلی جارحیت، دہشت گردی اور استعماری ذہنیت کا تسلسل ہے، جو صرف شکل بدل کر سامنے آتا ہے۔ موجودہ دور میں، جب عالمی معاشرہ آپس میں جڑا ہوا ہے اور انسانی حقوق کا عالمی معیار قائم ہے؛ تو ایسی ریاستی غنڈہ گردی کسی طور قبول نہیں کی جا نی چاہیے۔
مصر اور اسرائیل کے درمیان گیس کا معاہدہ: اسرائیلی مظالم کے دوران، حالیہ دنوں میں، مصر اور اسرائیل کے درمیان 35 ارب ڈالر کے قدرتی گیس معاہدے پر اتفاق ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت 2029 تک اسرائیل کے لیویاتھان گیس فیلڈ سے مصر کو گیس کی فراہمی تقریباً تین گنا بڑھا دی جائے گی۔ لیویاتھان گیس فیلڈ کی موجودہ سالانہ گیس فراہمی مصر کو تقریباً ساڑھے چار ارب مکعب میٹر ہے، جسے بڑھا کر 12 ارب مکعب میٹر کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، اگلے 15 سالوں میں مصر کو مجموعی طور پر 130 ارب مکعب میٹر گیس فراہم کی جائے گی، جو مصر کی دو سالہ توانائی کی کھپت کے برابر ہے۔ اس منصوبے کے تحت نئی سپلائی لائنیں بچھائی جائیں گی اور دو نئے کنویں کھودے جائیں گے، جن پر ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
معاہدہ کے خلاف مصری عوام کا غم و غصہ: یہ معاہدہ ایسے وقت پر طے پایا ہے جب مصر کے عوام اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصے میں مبتلا ہیں۔ عوامی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مصری حکومت غزہ کے مظلوم شہریوں کی مدد کرنے میں ناکام رہی ہے اورعوامی غصہ اور مایوسی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ماہرین مشرق وسطیٰ کے مطابق، غزہ کی جنگ نے مصر اور اسرائیل کے تعلقات کو تاریخ کی نچلی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ مصر کے مختلف سماجی اور سیاسی حلقوں میں، اپنی مصری حکومت کے خلاف شدید ناراضگی پائی جارہی ہے۔ گیس معاہدے کے وقت نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ انسانی ہمدردی کے تقاضوں پر معاشی مفادات کو فوقیت دی جارہی ہے۔
شیخ الازہر کے خلاف صہیونی میڈیا کی مہم: جہاں ایک طرف مصری حکومت صہیونی ریاست کے ساتھ وسیع پیمانے پر گیس کا معاہدہ کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف اسرائیلی میڈیا نے عالم اسلام کی عظیم دینی درس گاہ: جامعۃ الازہر کے چانسلر اور سربراہ شیخ احمد الطیب کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان کے قتل کی کھلی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ در اصل شیخ احمد الطیب نے گذشتہ ماہ یعنی جولائی 2025 میں ایک جرات مندانہ عالمی اپیل جاری کی تھی۔ اس اپیل میں دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں سے غزہ میں قحط اور نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ انھوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ جو بھی ملک یا ادارہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے، وہ اس نسل کشی میں شریک ہے۔ ممکنہ طور پر سفارتی دباؤ کی وجہ سے یہ بیان بعد میں جامعہ ازہر کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا کیا اور یہ بیان واپس لے لیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے شیخ الطیب کو اسرائیلی میڈیا میں مسلسل ہدف بنایا جا رہا ہے اور اب ان کے قتل کی کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ مصر کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اس سنگین مسئلے پر اب تک کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا ہے؛ جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا حکومت اس کی مذمت کرتی اور صہیونی ریاست سے اس حوالے سے سوال کرتی۔
اسلامی تعلیمات اور اخلاقی ذمہ داری: مصر کی عظیم شخصیت شیخ الازہر کے قتل کی کھلی اپیل ، مصر کے پڑوسی فلسطین پر صہیونی ریاست کی جانب سے جاری تقریبا دو سال سے کھلی دہشت گردی،پھر غزہ پر قبضے کا منصوبہ، اس سب کے باوجود مصر کا اسرائیل کے ساتھ گیس کا معاہدہ سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔مصری حکومت اسلامی اصولوں کے خلاف جا رہی ہے۔ اس سے امت مسلمہ کی وحدت اور باہمی تعاون کا اصول ٹوٹ رہا ہے؛ کیوں کہ غزہ کو طاقت و قوت فراہم کرنے کے بجائے، اس بڑے تاریخی معاہدے سے مصری حکومت صہیونی ریاست کی مدد کر رہی ہے۔ اسی طرح مصری حکومت کا قدم اس حدیث کے مخالف لگ رہا ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے دشمن کے حوالے کرتا ہے۔" (بخاری: 2442)
مصری حکومت کا یہ معاہدہ ظالم کی مدد کے بھی برابر ہے؛ جب کہ اسلام ہمیں یہ سیکھاتا ہے کہ ہم ظالم کی مدد یا ایسا کوئی عمل جو اس کے ظلم کو بڑھاوا دے، اس سے اجتناب کریں۔ ظالم کی طرف ہمارا کسی طرح کا جھکاؤ نہ ہو۔ قرآن کریم میں ہے: (ترجمہ) "اور (اے مسلمانوں!) ان ظالم لوگوں کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا، کہیں دوزخ کی آک تمھیں بھی آپکڑے۔" (ہود: 113) جب صہیونی ریاست اسرائیل غزہ میں قتل و بربادی کر رہی ہو، اس وقت اس کے ساتھ توانائی کا معاہدہ کرنا نہ صرف جھکنے؛ بلکہ اس کے ظلم کو دوام دینے کے مترادف ہے۔ غزہ کے مسلمانوں پر جاری ظلم کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنا، بالخصوص گیس جیسے اسٹریٹجک وسائل میں، عملی طور پر ظالم کو طاقت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ امت کی وحدت اور مظلوم کی نصرت کے حکم سے ٹکرانے والی روش ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، یہ طرزِ عمل نہ صرف مظلوم فلسطینی بھائیوں سے بے وفائی ہے؛ بلکہ ظالم کے ساتھ تعاون کے زمرے میں آتا ہے، جو صریح ناجائز اور گناہ ہے۔
سعودی عرب کی مذمت اور عالمی برادری کی ذمہ داری: اس حساس موقع پر سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بروز: جمعہ 8/ اگست 2025 کو ایک بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان میں صہیونی ریاست کے قبضےکے اقدامات کی شدید مذمت کی ہے۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں غزہ پر قبضے، نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو خبردار کیا کہ اگر اسرائیل کی جارحیت کو نہ روکا گیا؛ تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، جن سے پورے مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا۔ تاہم، سعودی عرب یا کسی دوسری ریاست کے محض مذمتی بیانات سے حالات قابو میں نہیں آئیں گے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی پلیٹ فارمز سےعملی اقدامات کے ذریعے ظالم قوتوں کو روکا جائے اور مظلوموں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
مصر کا عمل اورمستقبل کی راہیں: غزہ میں مظالم جاری ہیں، اسرائیل کے عزائم جارحانہ اور دہشت گردانہ ہیں اور صہیونی ریاست غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، ایسے وقت میں مصر جیسے اہم عرب و مسلم ملک کا اسرائیل کے ساتھ گیس کا اتنا اہم اور تاریخی معاہدہ امت مسلمہ کے لیے ایک بڑا صدمہ اور سیاسی و اخلاقی چیلنج ہے ۔ یہ صورتحال نہ صرف فلسطینیوں کی نسل کشی کو آگے بڑھاتی ہے؛ بلکہ امت کے اندر وحدت اور اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بھی ڈالتی ہے۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ حق کی آواز بلند کرنے پر شیخ الازہر بھی صہیونی میڈیا کے نشانے پر آ چکے ہیں اور ان کے قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حق گوئی اور انصاف کی حمایت کرنا کس قدر خطرناک ہو چکا ہے۔ یہ تمام حالات مسلم دنیا کے اخلاقی، سیاسی اور اسٹریٹجک بحران کی واضح عکاسی کرتے ہیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ امت مسلمہ اپنے دینی، اخلاقی اور انسانی فریضے کو پہچانے، مظلوموں کی حمایت کرے اور ظالم اور ظالم کے ساتھیوں کو تاریخ کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنی ہر ممکن قوت استعمال کرے۔ ایسے اقدامات ہی مشرق وسطی میں امن، انصاف اور استحکام کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔•••• |
|