آخر ہم کب تک شخصیات کے جال میں پھنس کر پاکستان سے بے وفائی کرتے رہیں گے؟ تحریر: ڈاکٹر افضل رضوی قوموں کی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب انہیں اجتماعی طور پر اپنا احتساب کرنا پڑتا ہے۔ آج پاکستان اسی نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں یہ سوال پوری شدت کے ساتھ سر اٹھا رہا ہے: “آخر ہم کب تک شخصیات کے جال میں پھنس کر پاکستان سے بے وفائی کرتے رہیں گے؟” یہ صرف ایک سوال نہیں، بلکہ ایک اجتماعی چیخ ہے جو ہماری سیاسی، سماجی اور فکری زوال پذیری کی نشاندہی کر رہی ہے۔ شخصیات پرستی: تاریخی و سماجی پس منظر برصغیر کی تاریخ میں شخصیت پرستی نئی بات نہیں۔ مغلیہ دور سے لے کر آج تک ہم نے فرد کو خدا کا نائب سمجھ کر اس کی ہر بات کو حرفِ آخر مانا۔ چاہے وہ کوئی بادشاہ ہو، روحانی پیشوا، یا سیاسی رہنما۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ہم نے اسی روایت کو جاری رکھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اصول، قانون اور اداروں کی بالادستی کی بات کی، لیکن ان کے بعد آنے والے ادوار میں ہم نے ہر بار کسی “نجات دہندہ” کی تلاش میں شخصیات کو اداروں اور آئین پر ترجیح دی۔ شخصیات کے جال کے نتائج جمہوری اقدار کا قتل: ہم نے جمہوریت کو ووٹ کی بجائے وفاداری کا کھیل بنا دیا۔ ’’میرا لیڈر، ہر حال میں صحیح‘‘ جیسے رویے نے سیاست کو انتقام، منافقت اور کرپشن کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اداروں کی تذلیل: جب ادارے افراد کے تابع ہو جائیں، تو ادارے مفلوج ہو جاتے ہیں۔ احتساب، انصاف، اور قانون پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ قوم کا انتشار: ہر فرد، ہر خاندان، اور ہر طبقہ مختلف ’’شخصیات‘‘ کے ساتھ جُڑ کر ایک دوسرے کا دشمن بن گیا ہے۔ کوئی ایک لیڈر کا سپورٹر ہے، کوئی دوسرے کا؛ اور سب اپنے مخالف کو غدار سمجھتے ہیں۔ نظریات کی موت: جب ہم اصولوں کی جگہ چہروں کو ترجیح دینے لگیں، تو نظریاتی سیاست دفن ہو جاتی ہے۔ پھر صرف اقتدار، مفادات اور ذاتی دشمنیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ فکری بنیاد: شخصیت اور اصول کا فرق اسلامی تعلیمات بھی ہمیں شخصیت پرستی سے روکتی ہیں۔ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر خلیفہ جب غلطی پر ٹوکے گئے تو انہوں نے جواباً فرمایا: “اگر تم ہمیں درست راستے سے ہٹتا دیکھو تو ہماری تلواروں سے درست کرنا۔” یہی اصل قیادت ہوتی ہے—جو جواب دہ ہو، اور اصولوں کے تابع ہو۔ علامہ اقبالؒ بھی خبردار کرتے ہیں: “قوموں کی تقدیر وہی بدلتا ہے، جو خود اپنی تقدیر بدلنے کی جُرأت رکھے” اور یہ تبدیلی شخصیت پرستی سے نجات حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔ راستہ کیا ہے؟ ان سارے کے سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ: شخصیت پرستی کی جگہ ادارہ پرستی ہمیں فرد کی نہیں، ادارے کی بالادستی کو ماننا ہوگا—چاہے وہ عدلیہ ہو، پارلیمان، یا الیکشن کمیشن۔ لیڈروں کا محاسبہ اگر کوئی لیڈر آئین توڑتا ہے، کرپشن کرتا ہے، یا ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتا ہے، تو ہمیں اس کی مخالفت کرنی چاہیے، چاہے وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو۔ نظریات کی تعلیم و تربیت قوم کے تعلیمی اداروں میں حب الوطنی، آئین، اور اجتماعی ذمہ داریوں کا شعور پیدا کرنا ضروری ہے۔ مذہب، سیاست اور سماج میں اصولوں کی واپسی ہر سطح پر ہمیں اصولوں کی طرف لوٹنا ہوگا۔ کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہ ہو۔ پاکستان کسی فرد، کسی جماعت، یا کسی رہنما کا ذاتی ملک نہیں۔ یہ 24 کروڑ عوام کی امانت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی شخصیت پرستی کو نہ چھوڑا، تو ہم تاریخ کے کٹہرے میں مجرم ٹھہریں گے۔ ہم آئندہ نسلوں کو کیا جواب دیں گے؟ دریں حالات یہ وقت بیداری اور ہوش کے ناخن لینے کا ہے کہ ہم پاکستان کے وفادار بنیں، کسی شخصیت کے غلام نہیں۔ہم اصولوں، آئین اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہوں، صرف نعرہ بازوں اور “نجات دہندوں” کے ساتھ نہیں۔ -آ |