نماز مغرب ادا کرکے مسجد سے باہر نکلا ہی تھاکہ ایک
دینی مدرسے کا طالب علم مجھ سے مخاطب ہوا ۔ وہ کہنے لگا آپ کے علم میں یہ
بات ہے کہ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مولانا خادم رضوی اور مولانا افضل
قادری کو گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔سپریم کورٹ بھی ان کے خلاف الگ
سے کاروائی میں مصروف ہے ۔ میں حیران تھا کہ اس طالب علم کے لہجے اور چہرے
پر تشویش کے کس قدر آثار نمایاں تھے ۔ ظاہری سی بات ہے کہ پاکستان میں
مذہبی حلقوں نے بھی اپنے اپنے الگ گروپ بنا رکھے ہیں جو حکومتی اور انتظامی
اداروں کی تغافلانہ پالیسی کی بدولت نہ صرف اس قدر طاقتور ہوچکے ہیں کہ
منٹوں میں پورے پاکستان کو مفلوج کرسکیں بلکہ ان کے پاس اسلحے کی فراوانی
بھی ہے ۔ میں نے اس سے مخاطب ہوکر کہا ۔کیاآپ جانتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے
والوں کے خلاف جب پولیس نے ایکشن لیا تو ملک کے تمام شہروں کی کیفیت کیا
تھی ۔مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول میں ہونے والے
کھیلوں میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھا۔ موبائل کال کے ذریعے مجھے
اطلاع ملی کہ کینٹ گلبرگ سمیت لاہور کے تمام رابطوں سڑکوں کو جذبات میں
بپھرے ہوئے ہجوم نے بند کردیا ہے ۔ اس لمحے جہاں میں اپنے گھر واپسی پر فکر
مندتھا اور ذہنی طورپر ایسے محفوظ راستے کی تلاش میں تھا وہاں سکول کے طلبہ
اور اساتذہ بھی تشویش میں مبتلا تھے ۔ تشویش ناک حالات کو دیکھتے ہوئے اسی
وقت سکول میں چھٹی کردی گئی تاکہ محفوظ راستوں سے بچے اپنے اپنے گھر پہنچ
سکیں ۔ میں جس بھی راستے پر گامزن ہوا ۔وہاں دینی مدرسوں کے طلبا ہاتھ میں
لاٹھیاں لیے ٹائروں کو آگ لگا کر راستہ بند کیے بیٹھے نظر آئے ۔ بہرکیف
گھرپہنچ کر اﷲ کا شکر ادا کیا پھر اپنے بچوں کی فکر لاحق ہوئی کہ وہ کسی
حادثے کاشکار نہ ہوجائیں۔ ایک دوست جو ایک دن پہلے ہی دوبئی سے ملتان شہر
پہنچا تھا اس نے اگلی صبح اپنے والدین کے گھر لاہور آنا تھا۔ اس نے موبائل
پر بتایا کہ میں جس بس پر سوار ہوں وہ بپھرے ہوئے ہجوم میں گھری ہوئی
ہے۔ہجوم نے ملتان سے لاہور جانے والے تمام راستوں کو نہ بلاک کررکھا ہے۔ یہ
وہ شخص تھا جو دوبئی میں بیٹھا بھی اپنے وطن کی محبت میں ہمیشہ بے تاب رہتا
ہے۔ اس لمحے وہ زار و قطار رہ رہا تھا اور مدد کی اپیل کررہا تھا ۔میں نے
کہاآپ بس سے اتر کر کسی نہ کسی طرح ریلوے اسٹیشن پہنچ جائیں اس کا جواب تھا
کہ ٹرینوں کی نقل و حرکت بھی روک دی گئی ہے ۔اب کوئی راستہ نہیں بچا جس پر
سفرکرکے میں لاہور اپنے گھر پہنچ سکوں ۔ وہ تین دن تک سخت ذہنی ٹینشن کا
شکار ہوکر ملتان ہی رہنے پر مجبور ہوگیا۔اس کے والدین لاہور میں الگ پریشان
تھے ۔ صورت حال کی سنگینی کااندازہ اس بات بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دو دن
تمام ٹی وی چینلز بھی بند کردیئے گئے اور رابطوں کا فقدان تھا ۔ پہلے کبھی
ایم کیو ایم کے سابق قائد الطاف حسین کراچی کو بند کرنے کی دھمکیاں دیا
کرتے تھے لیکن مولانا خادم رضوی نے پاکستان کو عملی طور پر بند کرکے اپنی
طاقت کا عملی مظاہرہ کردیا۔حکومت اس قدر خائف تھی کہ منہ مانگی قیمت ٗ
واپسی سفر کا کرایہ بھی ادا کرکے اور تمام گرفتار کنندگان کو رہا کرنے کے
ساتھ معافی مانگنے پر بھی مجبور ہوگئی ۔اس طرح یہ دھرنا قوم کو نقد صورت
میں اور املاک کے نقصان میں اربوں روپے میں پڑا ۔میں نے اس دینی مدرسے کے
طالب علم سے کہا۔ کیا یہ درست تھا؟ کیا یہ بھی درست نہیں کہ ہم پہلے ہی
فرقوں ٗقومیت اور ذات برادری میں اس قدر تقسیم ہوچکے ہیں کہ ہر وقت ہم پر
جنگی ماحول طاری رہتا ہے ۔شیعہ سنی ٗ اہل حدیث ٗ دیوبندی اور قادیانی (جو
اب غیر مسلم قرار پا چکے ہیں) ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں جانے سے گریز
کرتے ہیں ایک مسلک کے امام کے پیچھے دوسرے مسلک کے لوگ نماز نہیں پڑھتے ۔
ملک میں پنجابی ٗ پٹھان ٗ سندھی ٗ بلوچی ٗ مہاجر اور سرائیکی کتنی ہی قومیت
کے لوگ اپنی شناخت کو قومی شناخت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ہر شخص نے اپنے نام کے
ساتھ ذات کا اضافہ کررکھاہے ۔ چیئر نگ کراس لاہور کے جس دھماکے میں پولیس
کے اعلی افسران بھی شہید ہوئے تھے۔جب پولیس نے خود کش دھماکہ کرنے والوں کے
سہولت کاروں کو گرفتار کیا تو وزیراعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک اور سراج
الحق یہ کہتے ہوئے ان کی حمایت میں کھڑے ہوگئے کہ پنجاب میں پختونوں کے
خلاف زیادتی کی جارہی ہے ۔جماعت اسلامی جو ہمیشہ قومی وحدت کی علمبردار تھی
اسی کے مرکز منصورہ لاہور میں پختونخواہوں کے خلاف زیادتی پرجلسہ عام کا
اہتمام کرکے نفرتوں کے زہر کو ہر پاکستانی کی رگوں میں اتارنے کی جستجو کی
گئی ۔سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے اپنے اپنے حمایتی کارکنوں کے ذہنوں میں
دوسری جماعتوں کے بارے میں الگ زہر بھر رکھا ہے ۔لڑائی جھگڑوں اور مارکٹائی
کی خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ اور جماعت
اسلامی طلبہ کے مابین کتنی بار تشدد آمیز واقعات ہوچکے ہیں جس کو ہمارا
میڈیا جلتی پر تیل ڈال کر بطور خاص پرموٹ بھی کرتا ہے ۔جبکہ بلوچستان سے
پنجابی مزدوروں کی آنے والی نعشیں پرپنجاب میں پھر بھی خاموشی طاری رہتی ہے
۔ یہ سب باتیں کہنے کامقصد یہ ہے کہ یہی وہ صورت حال ہے جس نے پرامن اسلامی
ملک شام کو (جو اسرائیل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے میدان جنگ میں
کھڑا تھا )یہودی اور عیسائی لابی نے پورے ملک کو فرقوں ٗ ذاتوں اور قومیتوں
میں تقسیم کرکے تباہ کردیا ہے ۔سات سالوں سے جاری خانہ جنگی میں دس لاکھ سے
زیادہ شامی مسلمان شہید ہوچکے ہیں نفرتوں کے اس ماحول میں ہسپتالوں ٗ
سکولوں اور رہائشی علاقوں پر جان بوجھ کر کیمیکل اور گیسی بم گرائے جارہے
ہیں ۔ ہزاروں بچوں کی نعشیں قطاروں میں پڑی دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار تو ہوتی
ہے لیکن کوئی بھی شخص شام میں امن اور خوشحالی کا دور واپس نہیں لاسکتا ۔امریکہ
اور بھارت کا ایجنڈا بھی یہی ہے کہ پاکستان میں سیاسی منافرت ٗ تفرقہ بازی
اور قومیت پسندی کے اختلافات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ آپس میں ہی دست و
گریبان ہوجائیں۔ پاکستان اس اعتبار سے خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں ابھی تک
تقسیم در تقسیم کا عمل اس لیے شروع نہیں ہوسکا کہ پاک فوج اتحاد و یکجہتی
کی نہ صرف علامت ہے بلکہ عسکری اعتبار سے دنیا کی بہترین افواج میں شامل
بھی ہے ۔ مولانا خادم رضوی ہو ں یا کوئی اور شخص کسی کو بھی ریاست کے اندر
ریاست بنانے اور افراتفری پھیلانے ٗ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کی ہرگز اجازت
نہیں دی جاسکتی ۔ختم نبوت کے محافظ صرف چند مولوی ہی نہیںٗ پوری پاکستانی
قوم ختم نبوت پر جان قربان کرنے کو تیار ہے لیکن اس کا سہارا لے کر پورے
ملک کو مفلوج کردینا اور اربوں روپے کا جانی و مالی نقصان پہنچنا کہاں کی
اسلام دوستی اور وطن پرستی ہے ۔ میں نے اس دینی مدرسے کے طالب علم سے کہا
آپ جیسے جذباتی اور فرقہ پرست لوگ ہی اپنے ملک میں نعوذ باﷲ شام جیسے حالات
پیدا کرنے کی جستجو کررہے ہیں جس کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
|