غلامی کا زیور

’’ میرے پالنے والے !
میرے آقائے حقیقی!
میرے معبود! اس سے پیشتر کہ خرگوش میرا شکار کر لے مجھے شیر کا شکار بنا دے ‘‘

شاکرہ نندنی، پُرتگال

میں ایک آزاد انسان تھا
میں آزادی سے ہر جگہ گھوما پھرا کرتاتھا
میرے بہت سے دوست اور رشتہ دار تھے
میں ہر ایک سے مسکراہٹ سے ملا کرتاتھا
میں اپنی سرزمین سے بہت محبت کرتاتھا
جسے میں مادر وطن کہا کرتاتھا
میں اپنی قوم سے محبت کرتا تھا
مجھے اپنی رسم ورواج پر فخر تھا
میں جہاں بھی گیا مجھے ایسی آرام کہیں نصیب نہیں ہوئی
جس آرام و سکون سے میں اپنی سرزمین پر رہا کرتا تھا
میں ریتوں کی چوٹیوں پر چڑ کر نغمے گایا کرتاتھا
میں پہاڑوں کی دامن میں اپنے کو محفوظ سمجھتا تھا
پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اپنی سرزمین کا نظارہ کرتاتھا
قوم کے بچے مجھ سے محبت کرتے تھے
بڑے میری عزت کرتے تھے
ہر آدمی مجھ سے یہی توقع رکھتا تھا۔
کہ میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا آدمی بنوں گا
اپنی قوم وملک کی خدمت کروں گا
غریبوں کی مدد کروں گا
مسکینوں کا سہارا بنوں گا
یتیموں کا غمخوار رہوں گا
بزرگوں کا احترام کروں گا
بچوں کو تعلیم دلانے میں اہم کردار ادا کروں گا
طلباء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کروں گا
بے کار غریب نوجوانوں کوکام دلاؤں گا
نئی چیزیں تخلیق کروں گا
دُنیا میں نام پیداکروں گا
اپنی قوم کو دوسرے قوموں کے شانہ بشانہ لا کھڑا کروں گا
غداروں کو سرزمین سے نکال دوں گا
پیٹ پرستوں کی پیٹ کو مٹی سے بھردوں گا
لوگوں کو صحیح راستے پر گامزن کروں گا
آئین وقانون کی پاسداری کروں گا
لوگوں کے درمیان اتحاد پیدا کروں گا
عام لوگوں کو انصاف دلاؤں گا
غرض یہ کہ
میں اپنی قوم وسرزمین کے ساتھ ایماندار تھا
میرا ضمیر زندہ تھا
میری نیت میں کوئی خلل نہ تھی
میں جیتاقوم کیلئے اور مرتاسرزمین کیلئے
میں آسمان کی تاروں کوچھونا چاہتا تھا
میں دُنیا کو بتانا چاہتا تھا/
کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں
ہم اپنی سرزمین پر ایک زندہ قوم کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں
ہم دوسرے قوموں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہنا چاہتے ہیں
میں جاہلیت کی عذاب سے قوم کو چھٹکارا دلانا چاہتا تھا
میں شعورکو ڈھونڈ رہا تھا
شعور میرے بالکل نزدیک آچکا تھا
میں اُسے دیکھ رہاتھا
میں اُس کی طرف بڑھ رہا تھا
میں خوشی محسوس کررہا تھا
میرے چہرے پر مسکراہٹ کی ایک لہر دوڑ رہی تھی
میرے ماتھے پہ روشنی چمک رہی تھی
میں اُڑان محسوس کررہا تھا
آزادی کا جھنڈا تھامنے والا ہی تھا
کہ
اچانک
غلامی کی زنجیر نے مجھے آگھیرلیا
جس کے لیے میں بالکل تیار نہ تھا
اور نہ کبھی میں اس کے بارے میں سوچاتھا۔
میری آنکھوں میں کالی پٹی لگا دی گئی
میرے ہاتھوں کو ہتھکڑیاں پہنائی گئی
میرے پاؤں کو باندھ دیا گیا
میرے دماغ کوٹارچر کیا گیا
میرے ذہن کو برین واش کر دیا گیا
مجھے جسمانی اذیت دی گئی
میری زبان کو کاٹ دیا گیا
میں بے حسی کی عالم میں تھا
میں اپنے گھر کو اجڑتے دیکھ رہا تھا
دوستوں نے دوستی چھوڑ دی
رشتہ داروں نے رشتہ داری سے انکار کر دیا
جن کو میں اپنا سمجھتا تھا وہ میرے نہیں رہے
اس وقت مجھے بچانے والا کوئی نہیں تھا
مرنے کیلئے میرے سامنے اذیت ناک موت رکھ دی گئی
جینے کیلئے غلامی کا زیور
مجھے ان دونوں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا
میرا دماغ ٹارچر کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیا

زبان کاٹ ہونے کی وجہ سے کچھ بتا نہیں سکتا تھا
میرا جسم کانپ رہا تھا
آنکھوں پر لگے کالی پٹی کی وجہ سے میرے سامنے ہر چیز اندھیراہی اندھیرا تھا
مجھے کچھ سمجھ نہیںآرہاتھا
زبان گونگی سی ہوگئی
کان بہرے سے ہوگئے
ہاتھ کام کرنا چھوڑ دیئے
پاؤں چلنے سے محروم ہوگئے
میرے گلے میں غلامی کا زیور پہنایا گیا
لالچ میرا دوست بن گیا
میرا ضمیر مرگیا
اور
مجھے لیڈر بنایا گیا
آج میں غلامی کا زیور پہن کر اپنی ہی قوم پر راج کر رہا ہوں
اب میں وہ نہیں رہا جو پہلے تھا
میں نہیں چاہتا کہ قوم کی غریب بچے پڑھ لکھ کر کل میرے سامنے رکاوٹ بنیں
میں اُس طبقے کے بچوں کو تعلیم دلانے میں مدد کرتا ہوں
جو غلامی کا زیور پہن کر میرے شانہ بشانہ کھڑا رہیں گے
میں نہیں چاہتا کہ نوجوانوں میں شعور آجائے
کیونکہ میں سرزمین کے پیٹ کو پھاڑ کر اُس کی خزانوں کو دوسری جگہ منتقل کررہا ہوں
اگرنوجوانوں میں شعور آئے گا
تو لازمی بات ہے وہ میرے سامنے رکاوٹ بنیں گے
مجھے ایسا کرنے نہیں دیں گے
مجھے اس کی قطعاً ضرورت نہیں
جو بھی آزادی کی بات کرے گا
میں اُسے بغاوت سے تشبیہ دوں گا
جو تعلیم کی بات کرے گا
میں اُس کے منہ پہ لگام لگا دوں گا
جو بھی اتحاد کی بات کرے گا
میں اُس ز نجیر کو توڑ ڈالوں گا
جو شعور کی بات کریگا
میں اُسے راستے سے ہٹا دوں گا
جو انصاف کی بات کرے گا
میں اُس کی زبان کاٹ ڈالوں گا
جو حق کی بات کرے گا
میں اُسے ٹارچر سیلوں میں بند رکھوں گا
کیونکہ
میں اس سرزمین کا رہنا والا باسی ہوں
میں ہی اس کا مالک ہوں
اور اب میں نے غلامی کا زیور پہن رکھا ہے
اس لیے مجھے آزادی چاہنے والوں سے نفرت ہے
اگر میرے ساتھ دوستی کرنا چاہتے ہو
تو غلامی کا زیور پہن لو ۔
میں تمھیں دولت کا زیور پہنا دوں گا
اب تمھارے پاس صرف ایک راستہ ہے
مجھے راستے سے ہٹا دو
ورنہ میں تمیں راستے سے ہٹا دوں گا۔

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 288 Articles with 245044 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More