متحدہ مجلس عمل

پاکستان میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو فعال کردیا گیا ہے اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اتحاد کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل، جبکہ شاہ اویس نورانی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے دعویٰ کیا کہ یہ اتحاد کامیاب ہو کر آئندہ حکومت بھی بنائے گا۔ متحدہ مجلس عمل کا تسلسل جہاں سے ٹوٹا تھا، وہیں سے جوڑا گیا ہے۔ 2001ء میں جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام(ف)جمعیت علمائے اسلام(س)، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت اہلحدیث اور تحریک فقہ جعفریہ پر مشتمل ملک کی چھ بڑی دینی جماعتوں کا اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ قائم ہوا تھا۔ ایم ایم اے نے 23 جولائی 2002ء سے اپنی انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا اور 10اکتوبر 2002ء کو ایم ایم اے حقیقت کا روپ دھار ے قوم کے سامنے تھی۔ 2002ء میں پرویز مشرف کے دور میں بھرپور انداز میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے دینی سیاسی جماعتوں نے الیکشن لڑا اور قومی اسمبلی کی 342نشستوں میں سے 63نشستیں حاصل کرکے پارلیمنٹ کی تیسری بڑی جماعت ثابت ہوئی۔ اس اتحاد نے سینیٹ کی100 میں سے 6 نشستیں بھی حاصل کیں۔

2002ء کے انتخابات میں پہلی مرتبہ ملکی سیاست میں دینی سیاسی جماعتوں کی حیرت انگیز کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل نے اپنا اپوزیشن لیڈر ،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل نے اپنی حکومت بنائی۔ کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ دینی جماعتوں کے اِس اتحاد کو عوام اِس طرح پزیرائی بخشیں گے کہ وہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرے گی۔ متحدہ مجلس عمل کی کامیابی نے سیاسی پنڈتوں اور ملکی پالیسی سازوں کو حیران وپریشان کردیا تھا۔ یہ ملکی تاریخ میں ابھرنے والی پہلی اتنی بڑی تبدیلی تھی۔ تاہم بعد میں متحدہ مجلس عمل میں شامل دو بڑی جماعتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے 2008 میں انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کا یہ اتحاد باقاعدہ ٹوٹ گیا، جس کے بعد متحدہ مجلس عمل میں شامل بڑی جماعت جماعت اسلامی نے 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلزپارٹی کے ساتھ حکومتی اتحاد کیا۔ 2013ء کے الیکشن سے پہلے بھی متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لیے مہم شروع کی گئی تھی، لیکن یہ مہم ناکام رہی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے علاوہ کوئی دینی سیاسی جماعت الیکشن میں قابل قدر کامیابی حاصل نہ کرپائی۔

کافی عرصے سے متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ فعال بنانے کی کوششیں جاری تھیں۔ اب یہ اتحاد فعال ہوگیا ہے۔ ایم ایم اے کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دشمن کی کوشش ہے کہ مذہبی جماعتوں کا اتحاد کامیاب نہ ہوپائے اور یہ فرقہ واریت کے نام پر لڑتی رہیں۔ ایم ایم اے کا مقصد کسی سے لڑنا نہیں ہے، بلکہ سب کو ساتھ لے کر ملک کے مفادات، اسلامی نظریہ، آئین و قانون کا دفاع کرنا اور ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ اور انصاف کا فروغ ہے۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت تو بہرحال عرصے سے محسوس کی جارہی تھی، اب الیکشن قریب ہیں، اس لیے زیادہ احساس ہوا کہ تمام حلقوں میں مذہبی ووٹ بینک تقسیم ہوجاتا ہے۔ اگر مذہبی جماعتیں متحد ہوجائیں تو یہ ووٹ تقسیم نہ ہو، اس کا تجربہ ماضی میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں ہوچکا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ہماری بکھری اور منتشر قوت کو ایک تنظیم میں منظم کرکے قوت بنا دیا جائے، ملک سے فرقہ واریت اور لاثانی عصبیتوں کا خاتمہ ہو۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مذہبی و مسلکی رواداری، اختلاف رائے کے احترام اور برداشت کا ماحول بنانے میں متحدہ مجلس عمل نے مثبت کردار ادا کیا تھا۔ آپس میں شدید اختلافات رکھنے والے مختلف مسالک کے افراد بھی ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے، جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی دیکھنے میں آئی اور اب بھی اس اتحاد سے اس سمت مزید بہتر پیشرفت کی امید رکھی جا سکتی ہے، لیکن متحدہ مجلس عمل کو سیاسی طور پر ماضی کی طرح کامیابی ملنا تقریبا ً ناممکن ہے، کیونکہ 2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کو جو کامیابی حاصل ہوئی تھی، وہ کامیابی اس وقت کے معروضی حالات کے تناظر میں تھی۔ 2002ء کے انتخابات سے قبل پاکستان کے پڑوس میں افغانستان پر امریکا اور اتحادیوں کی جارحیت کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم ہوگئی تھی۔ امریکا میں نائن الیون کا حادثہ پیش آیا، جس کا ملبہ طویل خانہ جنگیوں اور شورشوں سے بے حال افغان عوام پر گرا دیا گیا اور وہ ایک بار پھر نئی جنگ میں دھکیل دیے گئے۔ امریکا اور اتحادیوں کے حملوں کا رد عمل پورے عالم اسلام میں سامنے آیا اور پاکستان افغانستان کا پڑوسی ہونے کی حیثیت سے اس رد عمل کا مرکز ٹھہرا۔ پاکستان کی دینی جماعتوں نے نئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کا فیصلہ کیا اور متحدہ مجلس عمل قائم کرکے الیکشن میں نمایاں کامیابی حاصل کی، مگر اب حالات بہت مختلف ہیں۔

2002ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی قیادت کی عدم موجودگی اور اس کے مختلف دھڑوں میں تقسیم کا فائدہ بھی متحدہ مجلس عمل کو پہنچا تھا۔ علاوہ ازیں قاضی حسین احمد اور علامہ شاہ احمد نورانی کی قیادت کا بھی مجلس عمل کی پذیرائی میں بہت کلیدی کردار تھا۔ دونوں بزرگ مذہبی شخصیات غیر متنازع اور پاکستانی سیاست کی حرکیات اور رموز سے بخوبی واقف تھیں، چنانچہ ان کی فیصلہ سازی کمال کی تھی، مگر اب دونوں شخصیات نہیں ہیں، ان کی عدم موجودگی کا متحدہ مجلس عمل پر اثر بھی پڑے گا اور مجلس عمل ماضی جیسی کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی۔اس کے علاوہ ماضی میں خیبر پختونخوا میں جہاں متحدہ مجلس عمل نے بے مثال کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے، آج وہاں پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے متحدہ مجلس عمل کو خیبرپختونخوا میں ہی کامیابی ملنا مشکل ہے، جو اس کا بنیادی انتخابی اکھاڑہ ہے، دیگر صوبوں میں اس کے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات تو ویسے ہی نہایت معدوم ہیں۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ تمام حالات میں متحدہ مجلس عمل کا کردار انتہائی محدود ہو گا اور بڑے پیمانے پر اس کی انتخابی کامیابی خارج از امکان ہے۔

متحدہ مجلس عمل کو جو تھوڑی بہت انتخابی کامیابی ملنے کا امکان ہے، وہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ اس اعتبار سے تحریک انصاف کو اس اتحاد کے بننے کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کی عوامی پذیرائی خیبر پختونخوا میں زیادہ ہے، مگر جب یہ جماعتیں اپنے مشترکہ امیدوار میدان میں اْتاریں گی تو تحریک انصاف کو ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے تعاون سے جن امیدواروں کو فائنل کریں گے، وہ تحریک انصاف کو ہر حلقے میں ٹف ٹائم دیں گے اور اگر متحدہ مجلس عمل اور ن لیگ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ کرتی ہیں تو یہ صورت حال تحریک انصاف کے لیے مزید پیچیدہ اور مشکل ہوجائے گی۔ متحدہ مجلس عمل کو مسلم لیگ ن کی طرف سے خیبرپختونخوا میں اگر تحریک انصاف کے کاؤنٹر کرنے کی کوشش قرار دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.