پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے عوام کا میڈیا کے ذریعہ
سے ایک مایٔنڈسیٹ بنایا جا رہا ہے جس میں لوگوں کو ایک غلط قسم یا ایسے کہ
لیں کہ اپنے مطابق کی ہدایت دی جا رہی ہے جس میں صرف و صرف جوڈیشری کو
پاکستان کا پاک و صاف دامن رکھنے والا ستون قرار دے کر دوسرے ستون یعنی
پارلیمنٹ کو پاکستان کا گندا ترین ستون ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن اصل میں
بات کو اسکے حقیقی سرے سے شروع کرتے ہیں اب حقیقت یہ ہے کہ کسی
بھیDemocratic State کے چار ستون {Pillars} ہوتے ہیں جس میں پہلے نمبر پر
عدلیہ{Judiciary} ، دوسرے نمبر پر انتظامیہ{Exactive}، تیسرے نمبر پر مجلس
شوریٰ {Parliment} اور چوتھے نمبر پر ذرایع ابلاغ {Media} ہوتا ہے مگر عام
طور پر خصوصاًــپاکستان میں میڈیا آزاد تو مشرف صاحب کے دور میں ہو گیا تھا
لیکن اسے ریاست کے ستون کے طور پر قبول کرنے پر کسی نے ابھی غور نہیں کیا۔
بہر حال سب سے پہلے اگربات کریں عدلیہ کی تو عدلیہ آزادانہ، نڈر اور عوام
کو جلد انصاف مہیا کرنے کی اہل ہونی چاہیے۔ ایک جمہوری ریاست کا Judicial
system اس طرح کا ہو کہ غریب آدمی کو اپنا انصاف ملے ،پھر اسے اپنا انصاف
لینے کیلیے تاریخ پہ تاریخ کے کلچر کا سامنا نہ ہو ، انصاف سستا ہو۔لیکن اب
پاکستان کی عدالتوں کا اگر سچ دیکھنے والی آنکھ سے معا یٔنہ کیا جاے تو پتہ
چلتا ہے کہ انہی عدالتوں کے اندر دو،تین سو روپے سے لے کر ہزار روپے تک کے
جھوٹے گواہان بھی موجود ہوتے ہیں۔ انہی عدالتوں کے اندرغریب روزانہ
باقاعدگی سے زلیل و خوار ہو رہا ہے مگر وہ انصاف کا طلبگار ہے اسے انصاف
نہی مل رہا اوریہ بات سچ ہے کہ لاکھوں کیسز ایسے ہیں جو Pending ہیں انکی
شنواییٔ نہی ہو رہی مگر یہی بات جب میڈیا پر آتی ہے تو سارادن عدلیہ کی
بڑھایٔ اور پارلیمنٹ پر لعن تعن ہوتی ہے اور افسوس ہے اُن پارلیمنٹیرین پر
جو اپنے جلسوں میں عوام کے سامنے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہیں اور یہ کام
عمران خان اور شیخ رشید نے ناہی کیا بلکہ بڑھی ڈھٹایٔ کے ساتھ اس پر مختلف
قسم کے دلایٔل بھی دیتے رہے اور شیخ رشید صاحب نے یہ کام صرف ن لیگ کی
حکومت میں ہی نہی بلکہ پیپلزپارٹی کے دور میں ایک لایٔوٹاک شومیں بیٹھ کرتب
بھی کیا تھا یعنی دونوں ہاتھوں سے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی تھی اور بات کسی
ستون کی عزت یاتوہین کی تب ہی ہوتی ہےباقاعدہ اس ستون کا نام لے کر اس پر
لعنت کی جاے ۔ یعنی اگر کسی جج کو کرپشن یا کسی اور بنا پر میڈیا میں ڈسکس
کیا جاے تو فرد ِواحد کی بات ہے توہین عدالت نہی۔ بالکل ایسے ہی اگر کسی
پارلیمنٹ کے رکن کی کرپشن کی بات میڈیا کے ذریعے عوام تک لایٔ جاے تو اُس
ستون کی توہین نہی بلکہ فردِواحد کی بات ہے مگر چونکہ عدلیہ کے اندر توہین
کا توازن کچھ اور ہے یعنی اگر کسی جج کے کسی غلط کام کو عوام میں ظاہر کر
دیا جاے تو اگلے دن توہین عدالت کا نوٹس پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر جسٹس ثاقب
نثار سے پہلے (سابقہ) چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بات کی جاے تو خود انہوں
نے مشرف دور میں PCO کے تحت حلف اٹھایا تو تھا ہی ۔۔ چلیں اسکو رہنے دیں
مگر پیپلزپارٹی کے دور میں922 طالبان دہشت گرد جو چھوڑے تھے جنکو افواج
پاکستان نے پکڑ کر دیا اور اسکے گواہ خود فوج بنی ۔ پھر وہ طالبان جنکو
افتخار چوہدری نے ضمانت پر رہایٔ دی تھی وہ پھر جس طرح پھیلے اور عوام مرتے
رہے مگر الزام آتا رہا پیپلزپارٹی پر ۔کہ زرداری دور میں امن قایٔم ہو بھی
کیسے سکتا تھا جب ریاست کے ستون کی طرف سے ضمانت ملی ہو اُن دہشت گردوں کو
جو سینکڑوں وارداتوں میں ملوث رہ چکے تھے اب اگر اس بات کو میڈیا کے ذریعے
عوام کے سامنے ظاہر کیا جاتا یا اسکی مزمت کی جاتی تو اُسکے خلاف افتخار
چوہدری کی طرف سے توہین عدالت کا نوٹس بھیج دیا جاتا۔ لیکن خیر اب ذرا
معاملہ بدل چکا ہے اور فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آچکا جنکی وجہ سے
پاکستان میں امن قایٔم ہوا ۔ اب اس امن کو نافذکرنے کا سارا کریڈٹ موجودہ
حکومت یعنی ن لیگ لیتی ہے کہ ہمارے دور میں امن آیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ
پنجاب میں فوجی آپریشن کی خودوزیر قانون رانا ثنا نے مذمت کی اور کہا کہ ہم
پنجاب میں ملٹری کو کراچی کی طرح اختیارات نہیں دے سکتے اور ایسا کرنا انکا
حق بھی تھا وہ کر سکتے تھے مگر نیت میں اب کیا تھا وہ خدا جانے۔ اب بات
اپنے اسی نقطہ پر لاتے ہیں کس ستون کی عزت سب سے زیادہ ہے ؟ جوڈیشری،
ایگژیکٹو اور پارلیمنٹ یہ تینوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ستون(Pillars)
ہیں ۔ میرے نزدیک ان سبکی عزت یکساں ہے اور ان سبکو ایک جمہوری(Democratic)
سوچ کے تابع ہو کر چلنا چاہیے کسی ستون کے کویٔ بھی ایک رکن کے غلط کام کو
عوام میں ظاہر کرنے سے اس ستون کی توہین نہی ہوتی یعنی کسی جج کے غلط کام
کو Expose کرنے سے اگر توہین عدالت ہوتی ہے یا کسی جج کو کسی غلط القاب سے
پکارنے سے توہین عدالت ہوتی ہے تو پارلیمنٹ کے رکن چاہے پھروہ سابقہ
وزیراعظم ہو اُسے God father کانام دینے سے یاکسی اور پارلیمنٹ کے رکن کو
کویٔ لقب دینے سے توہینِ پارلیمنٹ بھی ہونی چاہیے ۔۔۔۔! ہاں مگر جہاں بات
انصاف کی ہو وہاں پھر چاہے کویٔ وزیرِاعظم ہو یا وزیرِاعلیـ ہو اس میں جج
کو آزادانہ فیصلہ کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ کیس عدالت میں آپکا پانامہ لیکس
کالیکرجاؤ اورعدالت فیصلہ اقامہ پر سنا دے یہ بات میں ذاتی طور پر تب سے کر
رہاہوں جب سے اقامہ پر فیصلہ آیا ہے مگر عمران خان اور باقی اپوزیشن پارٹیز
بس اپنی اسی خوشی میں مگن تھیں کہ نوازشریف وزیرِاعظم کے عہدے سے ہٹ گیا ہے
اب راستہ صاف ہے ۔
لیکن اب شاید اس جعلی خوشی کا نشہ اترنے کے بعد عمران خان صاحب کوہوش آچکی
ہے کہ یہ فیصلہ بہت ہی کمزور پوایٔنٹ پر سنایا گیا ہے جس سے بظاہر تو سب
ٹھیک لگتا ہے لیکن عدالت میں بیٹھے منصف کی مجبوری صاف سمجھ آرہی ہے ۔
کیونکہ اگر عدالت نے فیصلہ پانامہ کی بجاے اقامہ پر دینا تھا تو نوازشریف
کو پارٹی کی صدارت سے ہٹا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟؟ اس طرح میرے نزدیک
یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی جو نوازشریف کو پارٹی کی صدارت سے ہٹا دیا گیا ہے۔
خیر بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ منصف کو چاہیے کیس کے مطابق فیصلہ دے تاکہ
اس بات کا احساس ہو سکے کہ عدلیہ بالکل آزاد ہے اور کسی قسم کا سفارشی رویہ
برداشت نہی کرتی اور یہ غلط مایٔنڈسیٹ جو میڈیا کے ذریعہ عوام کے دماغوں
میں ٹھوسا جا رہا ہے کہ پاکستان میں صرف عدلیہ کا ہی دامن پاک وصاف ہے
پارلیمنٹ پر جس طرح مرضی کیچڑ اچھالو اسکی کویٔ عزت ہی نہیں تو یہ بہت غلط
تاثر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ یہ دونوں ریاست کے ستون کہلاے
جاتے ہیں اور ریاست کے ہر ستون کی عزت یکساں ہوتی ہے ہاں مگر انکے کام کرنے
کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی ایک ستون کو
دوسرے ستون پر فوقیت حاصل ہے۔ عدلیہ کو چاہیے اپنا کام بہتر انداز میں کرے
، پارلیمنٹ کو چاہیے کہ جو کرپٹ بندہ پارلیمنٹ سے پکڑا جاے اسکا دفاع نہ
کرے اور فوج بھی اپنا کام اگر اپنے دایٔرہ اختیار میں رہ کر کرتی رہے تو
بہت جلد ملک ترقی کی طرف بڑھنے لگے گا اور عوام کے سامنے ان تمام ستون کی
عزت ووقار دوبارہ لوٹ سکے گا ۔۔ مگر جس طرح کے حالات چل نکلے ہیں مجھے پوری
امید ہے کہ ایسا ہوتا نظر نہیں ا ٓرہا جسکی وجہ نہی بلکہ وجوہات ہیں جنکو
ایک دفعہ ایک ہی کالم میں بیان کرنا ناممکن ہے کیونکہ ہماری ہسٹری ایسے کیٔ
تنازعات سے بھری پڑی ہے۔۔۔!
ٓٓ
|