موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی مدت میں اب دوماہ کا
عرصہ رہ گیا ہے جس کے بعد نگران حکومت بننے گی اور تین ماہ کے اندراند نئے
انتخابات کرائے جائیں گے۔ موجود حکومت کی کامیابیاں اور ناکامیاں اپنی جگہ
قائم ہے جس کا جواب انہوں نے الیکشن میں دینا ہے کہ بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ
پر کہاں تک قابو پایا گیا اور اعلانات کے مطابق آیا بجلی لوڈشیڈنگ ختم ہوئی
؟اب سسٹم میں ان کے بقول 10ہزار میگاواٹ بجلی شامل کردی گئی ہے۔ مہنگائی
اور بے روزگاری پر کتناقابوپایا گیا،معاشی لحاظ سے ملک آج 2013کے مقابلے
میں بہتر ہے یا اقتصادی اعداد وشمار کچھ آور بتا رہے ہیں ۔کشگول توڑنے کے
دعوے کہاں تک سچ ثابت ہوئے ۔قرضوں میں کہاں تک اضافہ ہوا اور یہ کہ 40۱رب
ڈالر کے قرضے کہاں کہاں خرچ ہوئے ۔ملک کے برآمدات اور درآمدات کی پوزیشن
کیا ہے ؟ عام لوگوں کو روزگار سمیت بنیادی سہولتیں یعنی ، صحت ، تعلیم اور
پینے کا صاف پانی مل رہاہے ؟کرپشن ،اقرباپروری میں اضافہ ہوا یا ان میں کمی
واقعی ہوئی ۔ یہ وہ تمام سوالات ہے جن کا جواب وفاقی حکومت نے دینا ہے اور
ان کارکردگی کی بنیاد پر عوام نے آنے والے الیکشن میں ووٹ دینا ہے لیکن
جمہوریت کا تسلسل بذت خود ایک بڑی کامیابی ہے کہ اب دوسری بار ایک منتخب
حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔
صوبائی حکومتوں کو بھی جواب دینا ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں عوام
کو کیا کیا سہولتیں دی یا ان کے معیار زندگی میں کہاں تک بہتری آئی ہے ؟
پولیس ، پٹواری، ہسپتالوں، تعلیم ، پینے کا صاف پانی سمیت عوام کو روزمرہ
زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں صوبائی حکومتوں نے کتنا کام کیا؟ان
سوالوں کا جواب بھی پنجاب ،سندھ ، بلوچستان اور پختونخوا کی حکومت نے دینا
ہے ۔
پختونخوا ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں پر ہر بار ایک نئی حکومت اور قیادت
سامنے آتی ہے جس طرح اب پانچ سال سے پی ٹی آئی حکومت کررہی ہے ۔ پی ٹی آئی
کا منشور تھا کہ 90دنوں میں میگا کرپشن ختم کریں گے ۔ تعلیم ، صحت اور
پولیس سسٹم میں واضح تبدیلی لائیں گے ۔ آج پی ٹی آئی کی حکومت کو صوبے میں
پانچ سال ہونے والے ہیں جہاں پر ان کے دعوے ہیں خاص کر عمران خان جو ہر
موقعے پر فرماتا ہے کہ پی ٹی آئی نے صوبے میں پولیس نظام کو بہتر کیا ،
پٹواری نظام کو تبدیل کیا۔صحت اور تعلیم میں بنیادی تبدیلی لائے اور کوئی
ایک میگا کرپشن سکینڈل سامنے نہیں آیا جس طرح سند ھ اور پنجاب میں آئے ہیں
۔ اس طرح عمران خان کہتے ہیں کہ ہم نے کرپشن الزامات پر اپنے ہی وزراء کو
سزا دی ان کو بے نقاب کیا جو پہلے حکومتوں میں نہیں ہوا کرتا تھا۔
اگر پانچ سال بعدآج جائز ہ لیا جائے کہ پختونخوا حکومت نے پولیس میں کتنی
تبدیلی لائے اور ان کی کارکردگی کی صورت حال کیا ہے تو ہمیں کچھ بہتر ی نظر
آتی ہے یعنی پہلے پولیس میں ایف آئی آر کے لئے سفارش اور پیسے دینے پڑتے
تھے اب ایسا نہیں ہے لیکن FIRکے بعد کیا ہوتا ہے یہ ایک الگ کہانی ہے اس
طرح پولیس کی مجموعی کارکردگی تو بہتر رہی ہے خاص کر اس صوبے میں جو دہشت
گردی میں فرنٹ لائن صوبہ تھا لیکن پولیس میں تبدیلی کے جودعوے کیے جارہے
ہیں وہ بھی حقیقت پر مبنی نہیں ۔ اس طرح تعلیم کا معیار کتنا بہتر ہواوہ
ایک سوالیہ نشان ہے لیکن میرٹ سسٹم کو بہتر کیا گیا تقریباً 50ہزاراساتذہ
کو بھرتی کیا جس سے ایک طرف تعلیم یافتہ افراد کو روزگار ملا تو دوسری طرف
سکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری ہوئی اور میرے معلومات کے مطابق زیادہ تر
بھرتیاں میرٹ پر ہوئی ۔اس طرح دیکھا جائے تو صحت کے میدان میں نئے ہسپتال
اور یونٹس تو بنائے گئے لیکن مجموعی طور پر کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی گئی
جس کا وعدہ کیا گیا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں تمام علاج فری ہوگا اور
ہسپتالوں کو بہتر کیا جائے گا ۔ صرف صحت انصاف کارڈ کا اجراء ہوا لیکن وہ
بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ہونے والے سروے کے مطابق تقسیم ہوا
جو پہلے سے غلط سروے ہیں یا فارم اپنے ورکرز میں تقسیم ہوئے تھے، زیادہ تر
غریب لوگو ں کو کارڈ نہیں ملاہے ۔ پٹواری نظام میں تبدیلی کی باتیں شروع
میں بہت ہوئی کچھ کام بھی کیا گیا لیکن ان تمام کام کا، عوام کو کوئی خاص
فائدہ نہیں ملا ، رشوت اور پیسوں کا لین دین آج بھی خواب جاری ہے ۔اس پر
کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی کہ پٹواری نظام کو کمپیوٹرائز کرایا جائے ۔زمین
کی ٹرانسفر اور ملکیت کی فیس کیلئے ہر جگہ یعنی شہر ،گاؤں ، نہری اور
بارانی زمین کے انتقال کیلئے ایک فیس مقرر ہو بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس
طرف شروع کے بعد سے توجہ ہی نہیں دی گئی ۔عوام کو صاف پانی دینے کے لئے
دیہی علاقوں میں تقریباً ہر ضرورت مند کیلئے بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے
پانی کیلئے بورنگ کرائی گئی لیکن شہروں میں صاف پانی کے منصوبے کم ہی نظر
آتے ہیں بعض جگہوں پر پرانے پائپ ضرور تبدیل کرائے گئے ہیں ۔
اس طرح دیکھا جائے تو بلدیاتی نمائندوں کی ایک لشکر تو بنائی گئی لیکن ان
کو فنڈز اور اختیارات اس طرح نہیں ملے جس طرح وعدے اور دعوے کیے گئے تھے
۔زیادہ تر ان لو گوں کو فنڈز ملتے ہیں جو ایم پی اے اور ایم این ایز کے
تعلق والے ہو۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ غیر منتخب افراد جن کا پی ٹی آئی سے
تعلق تو نہیں لیکن متعلق ایم پی اے سے ہیں ان کو ڈسٹرکٹ ناظم سے زیادہ
اختیارات اور فنڈز دیے گئے ہیں ۔ بلدیاتی نظام اتنا موثر نہیں جتنا تواقع
تھی ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بہت سے معاملات میں عمران خان کو
غلط معلومات دی جاتی ہے ۔ عمران خان کی سوچ اور وژن پر اس طرح عمل نہیں ہوا
جس طرح امید تھی لیکن ماضی کے برعکس مجموعی پر پی ٹی آئی کا رکردگی سے عوام
کچھ حدمطمئین نظر آتے ہیں ۔ ان سب ایشوز پر الگ الگ کالم لکھا جاسکتا ہے
زندگی رہی تو تفصیل کبھی سہی ۔ |