برطانوی خبررساں ایجنسی روئٹرزکے مطابق امریکی صدر ٹرمپ
نے برطانیہ میں روس کے سابق جاسوس کو زہر دیے جانے کے واقعے کے بعد سیئیٹل
میں روسی قونصل خانے کو بندکرنے اور۶۰روسی سفارت کاروں کوسات دنوں میں
امریکا چھوڑدینے کا حکم دیاہے۔امریکاکی اس کاروائی کے بعدجرمنی، فرانس
،ڈنمارک نے۱۰/اوریوکرین نے ۱۳روسی سفارت کاروں کوفوری طورپرملک سے نکل جانے
کاحکم دیا ہے۔ دیگریورپی یونین کے ۱۴ممالک نے بھی اگلے چنددنوں میں ایسی ہی
کاروائی کاعندیہ دیاہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل روس اور برطانیہ بھی ایک
دوسرے کے ۲۳سفارتکاروں کو ملک بدر کر چکے ہیں۔یورپی یونین کے رہنما گزشتہ
ہفتے اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ برطانیہ
میں سابق روسی ایجنٹ اور ان کی بیٹی کو زہر دینےمیں روس ملوث ہے تاہم روس
اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران امریکی قائدین کی شعوری کوشش رہی ہے کہ جوہری جنگ
کے حوالے سے تیاری کریں۔ یہ تیاریاں روس کے بنتے بگڑتے موڈ کو دیکھتے ہوئے
ہیں مگر اب چین بھی بیچ میں آگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی قیادت چین سے
کوئی ایسی جنگ لڑنے کے موڈ میں ہے جو فیصلہ کن ثابت ہو اور عالمی سیاست و
معیشت پر امریکی و یورپی غلبہ مستحکم ہوجائے۔
پینٹاگون کے مطابق اب طفل تسلیوں سے بہلنے کی ضرورت ہے نہ گنجائش، اب ہمیں
یہ بات اچھی طرح محسوس کرلینی چاہیے کہ امریکی قیادت چین سے ایک واضح اور
فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ
نےفروری کے پہلے ہفتے میں پینٹاگون کی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکا کاجنگی
بجٹ بڑھاکر۷۰۰بلین ڈالر کردیاہے اوراگلے سال کے شروع میں اس میں مزید۵۰بلین
ڈالرکااضافہ ہوجائے گا۔ امریکا اور چین میں سے کوئی بھی کھل کر بتانے کی
پوزیشن میں نہیں کہ کوئی بڑا تصادم کب رونما ہوسکتا ہے۔ تنازعات بہت سے ہیں
جن پرمعاملات بگڑنے سے معاملات تصادم کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ یہ تصادم
سینکاکو جزائر کے تنازع پر بھی ہوسکتا ہے اور تائیوان کو چین میں ضم کرنے
کے سوال پر بھی۔
امریکی افواج چین کے بہت نزدیک تعینات ہیں۔ معاملات اگرچہ قابو میں ہیں اور
سرد جنگ کے ماحول کی طرح امریکا نے اب بھی غیر معمولی تحمل کی پالیسی
اپنائی ہوئی ہے۔ چینی افواج کسی بھی امریکی حملے کا سامنا کرنے کیلئےتیاری
کی حالت میں ہیں تاہم وہ صرف ان سرحدوں پر تعینات ہیں جن کا چینی قیادت نے
باضابطہ اور جامع تعین کیا ہے۔ چینی قیادت کا اندازہ ہے کہ امریکا اُس کی
تسلیم شدہ سرحدوں پر کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ایک بڑی استعماری طاقت کی حیثیت سے جاپان کی
پوزیشن کے صفر ہو جانے پر امریکا نے بحرالکاہل کے خطے میں اپنی برتری قائم
کی، جو اب تک برقرار توہے لیکن شمالی کوریاکا روّیہ اس خطے میں امریکاکیلئے
کسی چیلنج سے کم نہیں۔ امریکی قیادت چاہتی ہے کہ یہ برتری ہر حال میں، ہر
قیمت پر برقرار رہے۔ دوسری طرف چینی قیادت کی بھرپور کوشش ہے کہ بحری
سرحدوں کا مکمل تحفظ یقینی بنایا جائے تاکہ جاپان، ملائیشیا، ویت نام اور
فلپائن کی طرف سے بحیرۂ جنوبی چین میں مختلف جزائر اور چٹانوں کی ملکیت کے
دعوؤں کا بھرپور طریقے سے سامنا کیا جاسکے۔ چینی قیادت تائیوان کو بھی
دوبارہ چین کا حصہ بنانا چاہتی ہے، جسے امریکا نے ۱۹۵۰ء میں چین سے الگ
کرکے بظاہر آزاد ملک کی حیثیت دے کر اپنے زیرِ اثر کر رکھا ہے۔ تائیوان کے
ذریعے چین پر دباؤ ڈالنے کا امریکی اثر سات عشروں سے جاری ہے۔
بحیرۂ جنوبی چین کے خطے میں امریکی بحری جہازوں کا گشت اور لڑاکا طیاروں
کی اڑانیں ایک زمانے سے جاری ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد چین کے مرکزی زمینی
حصے پر کسی بھی وقت حملے کیلئےتیاری کی حالت میں رہنا ہے۔ چین کے نواح میں
جارحانہ انداز کے گشت سے چینی قیادت پر دباؤ ڈالنے میں بھی غیر معمولی حد
تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ امریکا کے جارحانہ انداز کو دیکھتے ہوئے چین ہاتھ پر ہاتھ
دھرے بیٹھا ہے۔ اس نے بھی عسکری قوت بڑھانے پر خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ اس کی
بھرپور کوشش ہے کہ ایک طرف تو امریکا کی حملہ کرنے کی صلاحیت
کوکمزورکیاجائے اوردوسری طرف تائیوان کودوبارہ مین لینڈچائناکاحصہ بنایا
جائے۔ اس حوالے سے چین کی تیاریاں کسی بھی اعتبار سے ایسی نہیں کہ انہیں
آسانی سے نظر انداز کردیا جائے۔
امریکا اور چین کی افواج کے درمیان معرکہ آرائی ہوچکی ہے مگر یہ سب کچھ
کسی تیسرے ملک کی زمین پرہواہے۔کوریااورانڈوچائناکےعلاقے میں امریکااور
پیپلز لبریشن آرمی لڑچکی ہیں۔امریکااور چین کی سرزمین پر چونکہ اب تک کوئی
معرکہ آرائی نہیں ہوئی اس لیے کہا نہیں جاسکتا کہ ایسی کسی بھی صورت میں
معاملات کیا رخ اختیار کریں گے اور خود امریکا پر اس کا کیا اثر مرتب
ہوگا۔بحیرۂ جنوبی چین میں معرکہ آرائی کو محدود رکھنا ممکن ہوسکتا ہے مگر
جاپان سے سینکاکو جزائر کے حوالے سے یا امریکا سے تائیوان کے تناظر میں جنگ
چھڑی تو اُسے محدود رکھنا انتہائی دشوار ہوگا۔ ایسی کسی بھی جنگ کی صورت
میں امریکی افواج چین کی افواج کو اُس کی اپنی سرزمین پر نشانہ بنانے سے
دریغ نہیں کریں گی۔ چین کی ملٹری ڈاکٹرائن بالکل فطری انداز سے کہتی ہے کہ
اگر چین کی سرزمین پر امریکی حملہ ہو تو امریکی فوجی اڈوں اور مین لینڈ کو
نشانہ بنانے سے کسی بھی حال میں گریز نہ کیا جائے۔
چین نے اب تک امریکا یا کسی اور ملک سے جنگ میں پہل نہ کرنے کی پالیسی اپنا
رکھی ہے اور اس پالیسی کے تحت ہی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بظاہر
نہیں ہے مگر جنگ چھڑ جائے تو صورت حال کے دباؤ کے تحت کچھ بھی کرنا درست
ہو جاتا ہے۔ اگر امریکی افواج نے چین کی سرزمین پر حملہ کیا تو چینی قیادت
اِسے چین کی جوہری صلاحیت کو ناکارہ بنانے کی بھرپور کوشش کے طور پر دیکھے
گی اور ایسے میں چینی فوج کا ردّ ِعمل غیر معمولی قوت کا حامل ہوگا اور اگر
معاملات آسانی سے درست نہ ہوئے تو نوبت جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک بھی
پہنچ سکتی ہے۔ اگر چینی قیادت امریکا کے کسی بھی حملے کو ریاست کے وجود
کیلئےخطرہ محسوس کرے گی تو امریکا پر سائبر حملے کے ساتھ ساتھ امریکی جوہری
تنصیبات پر حملے بھی یقینی بنائے جائیں گے۔
انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ امریکا کے اعلیٰ سیاسی حلقوں سمیت پوری
اشرافیہ میں جوہری حملوں کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے باتیں ہونے لگی ہیں۔
اب تک امریکا میں اس حوالے سے بات کرنے کا رواج نہ تھا کیونکہ سبھی کو
اندازہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے ہونے والی ممکنہ تباہی کے پیش نظر ان
ہتھیاروں کے استعمال تک نوبت پہنچے گی ہی نہیں۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ
امریکی اشرافیہ میڈیا کے ذریعے عوام کی بھی ذہن سازی کر رہی ہے۔ جوہری
ہتھیاروں کے استعمال کے معاملے میں جو الرجی اب تک پائی جاتی رہی ہے، وہ اب
دم توڑ رہی ہے۔
واشنگٹن اس وقت ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے پروگرامز کی
فنڈنگ کر رہا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر استعمال کے حوالے سے تیار کیے جانے والے
جوہری ہتھیاروں کی ڈیزائننگ پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ اس آپا دھاپی میں یہ
نکتہ یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے کہ روس، چین یا کسی اور دشمن سے جنگ میں
جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک نوبت پہنچی تو دشمنوں کے ساتھ ساتھ خود
امریکا اوراس کے اتحادیوں کا کیا حشر ہوگا!
شمالی کوریا کے معاملے میں غیر معمولی جذباتیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
امریکا کا میزائل پروگرام بعض معاملات میں اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول
میں ناکامی سے بھی دوچار ہوسکتا ہے۔ سبھی کو یہ فکر لاحق ہے کہ کسی نہ کسی
طور شمالی کوریاکو نشانہ بنایا جائے مگر اس نکتے پر کوئی غور کرنے کو تیار
نہیں کہ معاملات کہیں کہیں ناکامی پر بھی منتج ہوسکتے ہیں اورآج کاشمالی
کوریاکسی بھی فوری خوفناک جوابی قدم اٹھانے میں لمحہ بھرتاخیرنہیں کرے گا ۔
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ امریکا اور چین کی سیکورٹی
اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے اِس قدر گرم جوشی پر مبنی نہیں جس قدر سابق
سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے دور میں تھے۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان
اعتماد کی شدید کمی دکھائی دے رہی ہے۔ دونوں ایک دوسرےپر زیادہ اعتماد کرنے
کو تیار نہیں۔ امریکا کے اعلیٰ فوجی حکام چین کے عسکری تصورات اورنظریات
کویاتوبالکل نہیں سمجھتے یاپھربہت ہی کم سمجھتے ہیں۔
اس حوالے سے تاخیر تو ہوچکی ہے مگر پھر بھی ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوگیا۔
امریکا کو چین کے عسکری عزائم اور صلاحیت و سکت کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لازم ہے کہ امریکی فوج میں ایسے اعلیٰ افسران ہوں، جو چین کو عسکری سطح پر
ڈھنگ سے سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ امریکا اور چین دونوں ہی بعض مواقع پر
غیر منطقی ردعمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ کبھی کبھی کسی صورتحال کے تناظر
میں کسی کا بھی ردعمل سمجھنا آسان نہیں ہوتا، مگر ایک بات طے ہے کہ دونوں
میں سے کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی ملک جنگ نہیں
چاہتا تو پھر پریشانی کی بات کیا ہے؟ ہم کیوں پریشان ہیں؟ اس کے دو بنیادی
عوامل ہیں۔ ایک قلیل المیعاد اور ایک طویل المیعاد۔
پہلا سبب تائیوان ہے، جس کے دفاع کا ذمہ امریکا نے لے رکھا ہے۔ اس وقت
تائیوان میں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے، جو چین سے انضمام کے خلاف اور
آزادی کے حق میں ہے۔ تائیوان کے معاملے میں امریکا نے پالیسی میں تبدیلی
کا عندیہ دیا ہے۔ واضح نہیں کہ وہ تائیوان کے دفاع کے اپنے عزم و عہد پر
قائم رہے گا یا نہیں اور اگر قائم رہے گا تو کب تک؟ اس وقت چین کے پاس اتنی
عسکری قوت ہے کہ وہ امریکا کی شدید مخالفت کے باوجود تائیوان کو اپنے میں
ضم کرلے مگر چینی قیادت معاملات کو خواہ مخواہ طاقت کے استعمال تک لے جانا
نہیں چاہتی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں چند ایسے ریمارکس ٹوئیٹ
کیے ہیں، جن کی روشنی میں چین کیلئےالجھن کھڑی ہوگئی ہے کہ وہ تائیوان کے
معاملے میں کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی عزائم کے
بارے میں کوئی غلط اندازہ لگاتے ہوئے چین کی فوج تائیوان پر حملہ کردے اور
اُسے مین لینڈ چائنا سے ضم کرنے کی راہ پر گامزن ہو۔
۲۰۲۱ء میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی ایک صدی مکمل ہوجائے گی۔ رواں
سال کمیونسٹ پارٹی کی سالانہ کانگریس کے بعد تائیوان کے بارے میں کوئی حتمی
فیصلہ کرنے کے حوالے سے تحریک کے سلسلے میں دباؤ یقینی طور پر بڑھ جائے
گا۔ اگر ایسا ہوا تو چین اور امریکا کے درمیان وہ خوں ریزی ٹالی نہیں جاسکے
گی، جس سے اب تک گریز کیا جاتا رہا ہے اور چین کا تائیوان کے بارے میں بدلا
ہوا رویّہ اس بات کو بھی طے کرے گا کہ امریکاچین کو منقسم رکھنے سے متعلق
سرد جنگ کے اپنے کمٹمنٹ کے معاملے میں کس حد تک سنجیدہ اور پرعزم ہے۔
اب تک امریکا نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ چین کے ارد گرد کے خطے پر ہمیشہ راج
کرسکتا ہے، متصرف رہ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ امریکا
کی طاقت میں واضح کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں بھی
امریکا کی ساکھ کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ امریکا نے دفاع کے شعبے میں غیر
معمولی اخراجات سے منہ نہیں موڑا مگر خطے کے ممالک ہر معاملے میں امریکا کی
طرف دیکھتے رہنے کے روادار نہیں رہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک سے متعلق
چند ایسی حقیقتیں بھی ابھر کر سامنے آئی ہیں جنہیں امریکا کے غیر معمولی
دفاعی اخراجات نے تبدیل نہیں کیا۔
امریکا اور چین کے درمیان سیاسی، معاشی اور عسکری مخاصمت بڑھتی ہی جائے گی۔
امریکا اپنے دفاعی بجٹ میں جس قدر اضافہ کرتا جائے گا، چین بھی اُسی کے بہ
قدر اضافہ کرتا جائے گا یعنی اس کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس کے
نتیجے میں بحرالکاہل کے خطے میں امریکا کی عسکری مہم جوئی بالآخر رائیگاں
ہی جائے گی۔
امریکا اور چین کے درمیان جوں جوں معاملات کشیدگی کی طرف جائیں گے، امریکا
کیلئےبحرالکاہل کے خطے میں اپنی عسکری موجودگی برقرار رکھنے کے اخراجات میں
غیر معمولی شرح سے اضافہ ہوتا جائے گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ چین سے کسی حقیقی
اور واقعی جنگ کا خطرہ بھی بڑھتا ہی چلا جائے گا۔
کشیدگی کے بڑھنے پر خطے کے ممالک ترجیحی طور پر چین کی طرف جھکیں گے۔ چند
ایک ممالک امریکا کی طرف بھی جھک سکتے ہیں مگر زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ
وہ ایک طرف ہٹ کر امریکا اور چین کو لڑتے ہوئے دیکھنا پسند کریں گے۔ اس خطے
کے ممالک کا برسوں کا تجربہ ہے کہ امریکا سے اتحاد کی صورت میں انہیں کچھ
خاص ملتا نہیں۔ ایسے میں وہ اپنی ساکھ کیوں داؤ پرلگائیں گے؟امریکاکواس
بات کیلئےتیاررہناچاہیے کہ چین سے باضابطہ جنگ کی صورت میں بحرالکاہل کےچند
ہی ممالک اُس کی طرف آئیں گے اور ہوسکتا ہے کہ ایسا بھی نہ ہو۔
ان حالات میں امریکی دفاعی وسیاسی تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ وہاں کے
دانشوروں کی ایک کثیرتعدادامریکی قیادت سے سوال کررہے ہیں کہ کیا ہم چین سے
جنگ ٹال سکتے ہیں یا نہیں۔ اور یہ سوال اِس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں یہ
بھی دیکھنا پڑے گا کہ چین کو برہم کرنے کی صورت میں امریکی اپنی سرزمین پر
کس قدر جانی و مالی نقصان برداشت کرسکتے ہیں۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ
امریکا جنگ چھیڑے اور اُس کے باشندوں کو نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑے۔
اکیسویں صدی میں امریکی فوجی دور افتادہ ملکوں کے عوام کوجس بیدردی سے قتل
کر رہے ہیں،اس کا خمیازہ امریکی شہریوں کو لازماًبھگتنا پڑتاہے اور یہ
سلسلہ مزید جاری رہ سکتا ہے۔ اگر امریکی فوجی اپنی سرزمین سے بہت دور بے
قصور لوگوں کو مارتے رہیں گے تو اُن کے اپنے بے قصور شہری بھی مارے جاتے
رہیں گے۔ سنجیدہ ہونے کا وقت آگیا ہے۔ ہم امریکی ہر معاملے پر قدرت نہیں
رکھتے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیں نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ چین اور اس کے
ہمسایہ ممالک کے معاملے میں ہمیں ایسی پالیسی اپنانی چاہیے، جس میں دوسروں
کے احترام کا تاثر بھرپور انداز سے شامل ہووگرنہ دنیاکی تباہی کیلئے صرف
چندسیکنڈدرکارہیں،شائدوہی دن قیامت کاہوگا! |