غیر یقینی سیاسی صورتحال بے سبب نہیں ہے اہل نظر کا امتحان ہے

کراچی کی سیاست میں تبدیلی کھبی نہیں آسکتی کیونکہ جو تبدیلی آج سے 40سال پہلے آگئی وہی تبدیلی اہلیان کراچی نے قبول کرلی ہے اب اس نقطے پرکسی کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور جو اختلاف نہیں کرتے وہ اس حقیقت کو دل میں رکھ اپنی اظہار محبت کو کسی وقت کے لیئے بچاکر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ بظاہر تومحبت کے اظہار کے لیئے وقت کھبی آتا نہیں ہے بلکہ وقت کو لایا جاتا ہے اور اس مرتبہ اگر اظہار محبت وعقیدت میں کچھ وقت لگ رہا ہے تو اس میں قصور دونوں فریقوں کا ہے جو مناسب وقت میں ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکے اور اپنی محبت کی تلخیوں کو غیروں کے سامنے رکھ کر اسکا حل بھی طلب کرلیا اب حل بتانے والوں نے اپنی عقل وشعور کے مطابق جب ان تلخیوں کو حل کرنا شروع کیا تو دونوں فریقوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا تو یہ ادراک ہوا کہ دل کے معاملات پر کسی اجنبی کو شریک نہیں کرنا چاہیئے تھا اب اگر بات بھروسے اور اعتماد کی جائے تو ان اسباب اور حالات کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے جو اس محبت کے سفر میں کس کس سے اور کس کس موقعے پر غلطیاں ہوئیں ان تمام باتوں کا نئے سرے سے جائزہ لینے کے بعد نئے سفر کی شروعات کی جائے تو مستقبل میں اسکے ثمرات محبت کرنے والوں کو مل جائیں گے ورنہ سمندر تو ہے یہ دل کی باتیں سامنے رکھ کر کراچی کی سیاست پر غور وفکر کیا جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اڑان بھرنے میں کچھ مشکلات کا سامنا ہے جو پہلے سے محو پرواز ہیں اپنی حدود وقیود سے باہر اپنی پرواز کو زمینی حقائق کے مطابق اڑان کے لیئے تیار ی کریں تو سیاسی اڑان میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی خیال رکھنا ہوگا کہ دوران پرواز جب اڑان پر قدعن لگائی گئی تو شریک سفر کون تھا اور کون مصلحت کا شکار تھا کون سونے کی نگری کا دلدادہ تھا کون جبر کا شکار تھاشہر کراچی میں سیاست تو سب نے کی لیکن سیاست کوئی کوئی کرسکا کراچی کی سیاست میں جگہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن کراچی کی سیاست میں اپنی جگہ بنانا اسوقت ممکن ہے جب اہلیان کراچی پر اپنی خواہشات کو جبر کے رنگ کے ذریعے مسلط نہیں کیا جائے وسیع قلبی اہلیان کراچی کی ہمیشہ سے ایک بڑی کمزوری رہی ہے اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس وسیع قلبی کو کھبی خوشی کھبی غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے مہاجر قوم کی آواز یوں تو کوئی بنتا نہیں اور جو چالیس سال پہلے بنا تھا فی الحال اسکی کوئی سنتا نہیں ہے پاکستانی سیاسی جماعتوں کا اگر ایک جائزہ لیا جائے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سب کے دامن پر داغ ہیں اور پھر یہ کہہ کربھی اپنی صفائی دی جاتی ہے کہ ہرداغ کے پیچھے کوئی کہانی ہوتی ہے) ایم کیوایم کاداغ تو بدنما اور باقی سب کے داغ خوبصورت ہیں سیاسی گناہوں سے مبرا کوئی سیاسی ومذہبی جماعت نہیں ہے ایم کیوایم کو باہر سے زیادہ اندرونی مسائل کاسامنا ہمیشہ سے درپیش رہا ہے موجودہ سیاسی صورتحال میں ایم کیوایم بظاہر تو بکھری ہوئی نظر آرہی ہے لیکن اس تقسیم درتقسیم کے پیچھے اصل تصویر کسی کونظرنہیں آرہی ہے جنکو نظرآرہی ہے بلاشبہ انکو اہل نظر کہاجاسکتا ہے کراچی میں بسنے والوں میں اردو بولنے والے مہاجروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن اس بڑی تعداد کو مختلف گوشے عافیت میں بسانے کاسلسلہ جاری ہے لیکن اس طرز عمل میں وقتی عافیت تو ہے مستقل گوشہ عافیت میں کب آئیں گے اسکا انتظار ہے قیادت کے فقدان نے اہلیان کراچی کو وقتی خاموش ضرور کردیا ہے لیکن انکی خاموشی کے اسرارورموز کوسمجھنے کے لئیے انتظار کی صلیب پر لٹکنا بہت صبرآزما ہے ایم کیوایم کے ساتھ بہت برا ہورہا ہے یا انہوں نے خود اپنے ساتھ براکیا ہے یہ بہت اہم سوال ہے ظاہر ہے کچھ غلطیاں اپنی اور کچھ سامنے والوں کی مسلط کردہ گناہ اتنے آرام سے نہیں بخشیں جائیں گے افسوس تو اس بات کارہیگا کہ ایم کیوایم سے جو چار غلطیاں ہوئی ان غلطیوں میں زیادہ تر وہ غلطیاں ہیں جوان سے کروائی گئیں ہیں اور پھر وہ غلطیاں بڑے گناہوں کے روپ میں پیش کردی گئیں۔موجودہ صورتحال میں کراچی میں سیاسی لیڈرشب کا فقدان اپنی جگہ موجود ہے جوسیاسی جماعتیں یہ دعوی کررہی ہیں کہ وہ اہلیان کراچی میں ایم کیوایم کا نعم البدل ہیں یا ہوسکتی ہیں تو یہ زمینی حقائق کے منافی ہوگا اورحقیت سے زیادہ ذاتی خواہشات پرمشتمل پروگرام ترتیب دینے کایہ عمل ہرگز مستقل نہیں ہوگا پکڑڈھکرالیون سے لیکر دباؤ۔ڈر خوف کے نتیجے میں مسلط کردہ جماعتیں عوامی امنگوں کے مطابق نہیں ہوگا۔
 

Syed Mehboob Ahmed Chishty
About the Author: Syed Mehboob Ahmed Chishty Read More Articles by Syed Mehboob Ahmed Chishty: 5 Articles with 4116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.