امت مسلمہ پر عالمی طاقتوں کی یلغار

 تحریر: انوشے صدام، پشاور
گزشتہ ایک ہفتے سے خبروں میں امت فلسطین، کشمیر اور پھر افغانستان کی حالت دیکھ کر دل ڈوب رہا ہے۔ عجیب بے چینی اور احساس جرم ستائے جارہا ہے کہ کیا ہمیں مسلمان ہونے کی یہ سزا دی جائے گی۔ اسلام ایک امن پسند دین ہے۔ کبھی کسی کا برا نہیں چاہتا اس کے باوجود مسلم کہلانے والوں کے معصوم بچوں کو خاک و خون میں تڑپا دیا جاتا ہے۔ امت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر یہود و نصاریٰ اور ہندؤوں منظم ہوکر حملہ آور ہوچکے ہیں۔ امت مسلمہ کا جسم زخموں سے چور ہے۔

ایک طرف یہ حالات ہیں تو دوسری جانب کچھ مسلم حکمران میر جعفر بن کر چند ڈالروں کے عوض ان یہود ونصاریٰ پر بکے ہوئے ہیں۔یعنی کاٹے پر نمک کا چھڑکاؤ۔ ایمان کا ایک سب سے اہم جز ’’الولاء والبراء‘‘ ہے۔ توحید کے بعد ایمان کا بہت بڑا جز ہے یعنی محبت اور نفرت صرف اﷲ سبحان و تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے۔ اس عقیدے کی وجہ سے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے اﷲ کی مدد اور مرضی سے فتوحات حاصل کیں۔ اب بد قسمتی سے مسلمانوں میں اﷲ کے لیے محبت اور نفرت ختم ہوچکا ہے۔ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست بنا لیا اور اﷲ پر توکل ختم کردیا۔ سورتہ النساء میں ہے کہ ’’جو ایمان والے ہوتے ہیں وہ صرف اﷲ کے لیے جنگیں کرتے ہیں اور جو منافق ہیں وہ زمینی خداووں کے لیے جنگیں لڑتے ہیں‘‘۔ کچھ یہی حال اس امت کے حکمرانوں کا ہے ، جن کے دل الولاء والبراء سے عاری ہیں اور آج انہی کی وجہ سے امت پر کا انگ انگ چور ہے۔

امریکا کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی صرف اسلحہ سازی ہے اور اسلحہ بیچ کر اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے وہ پوری دنیا کو جنگوں کی طرف دھکیل رہا ہے۔ افغانستان کے ننھے فرشتے ہوں یا کشمیر و فلسطین ہماری مسلم نسل کشی جاری ہے۔ یہود و نصاریٰ جس طرح ہمارے بچوں پر بمباری کر رہے ہیں اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا ۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ جن کی نسلوں کو تباہ کیا جارہا ہے وہ اپنا بدلہ ضرور لیں گے۔ اب اس بدلے اور حق کے لیے اٹھنے والوں کو انتہا پسند کہا جائے یا دہشت گرد کیا فرق پڑتا ہے۔ بقول مغرب کے کہ جہادی گروپس اسلام کے پروڈکٹس ہیں مگر درحقیقت یہ جہادی گروپس ان جنگوں کے پروڈکٹس ہیں جو انہوں نے مسلمانوں پر مسلط کی ہوئی ہیں۔ ہر وقت مسلمان ممالک پر بمباری فرٹیلائیزر کا کام کرتی ہے جس سے مزید نفرت اور بڑھتی ہے نہ کہ کم ہوتی ہے۔

مغرب کا اسلام فوبیا اور بد ترین دہشت گردی کی مثال حالیہ قندوز میں مدرسے پر بمباری ہے۔ وہاں موجود معصوم بچوں کے چھیتڑے اڑا دیے۔ افسوس اس بات کا ہے ایمنسٹی انٹر نیشنل یا باقی انسانی حقوق کی تنظیموں یا بین الاقوامی الیکٹرانک میڈیا کو اتنی بڑی دہشت گردی نظر نہ آئی۔ کیا ہمارے مسلمان حفاظ بچوں کا خون اتنا ارزاں تھا؟ کیسے کسی تعلیمی ادارے پر معصوم بچوں پر بم گرانے کو یہ مغربی دنیا نظر انداز کر سکتی ہے۔ یہ تو سراسر بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائیں گئیں۔ اس طرح کی خاموشی یہ مزید واضح کرتی ہے کہ یہ جنگیں صرف عالم اسلام کے خلاف ہیں اور مظلوم مسلمانوں کے کوئی حقوق ان بین الاقوامی اداروں کی کتابوں میں ہے ہی نہیں۔ ماؤزے تنگ نے 5کروڑ افراد قتل کیے تھے، اسٹالن نے 3کروڑ اور ہٹلر نے 90لاکھ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے تھے۔ ان کا تعلق اسلام سے نہیں تھا۔ اس کے باوجود آج تک دہشت گرد صرف مسلمان کہلائے۔

ایک بات یاد رکھنے کی ہے دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک سپر پاورہوگی مگر ان سب سے اوپر ایک اور سپر ترین پاور ہے اور وہ ہے اﷲ رب العزت کی ذات۔ بے شک یہ امتحان ہے۔ اﷲ نے اس سے قبل کی امتوں سے بھی کئی ایسے کڑے امتحانات لیے۔ مگر آخر میں ان سب کو اپنے اجر و رحمت سے نوازا۔ بے شک امت کا وہ حصہ جو اس وقت سخت کرب میں مبتلا ہے ان کا ایمان ہم سے زیادہ اور اﷲ کے زیادہ محبوب ہیں۔ اسی لیے تباہی کے وقت اور اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو مگر زبان پر ’’اﷲ اکبر‘‘ ہوتا ہے۔ شاید اب امت کو کسی صلاح الدین ایوبی ، طارق بن زیاد کی ضرورت ہے۔ کاش کہ پھر سے مائیں ابو عبیدہ بن جراح، خالد بن ولید، نور الدین زنگی یا ایوبی جیسے فاتح پیدا کرتی۔

مگر افسوس در افسوس کہ اب تو ایسے حکمران دور کی بات اب تو ایسے حکمران مسلط ہورہے ہیں جو انہیں ظالموں کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں۔ غیرت و حمیت مکمل طور پر ان میں نہیں رہی اور اس میں قصور حکمرانوں کا کم ہمارے انفرادی اعمال کا زیادہہے۔ اگرہم خود اچھے ہوجاتے تو شاید اچھی قیادت نصیب ہوتی۔ ہمارا کردار اتنا بلند ہوجاتا تو ماؤں کی کوکھ سے ایوبی یا زنگی پیدا ضرور ہوتے۔ ہم پر کرپٹ اور درد دل سے عاری حکمران مسلط نہ ہوتے۔ پورا عرب دیکھ لیں ایسے حاکموں کے ماتحت ہے کہ جو صف باطل کی خوشی کے لیے اپنے ہی لوگوں کا خون بہا رہے ہیں ۔ ان حکمرانوں کی وفاداریاں اسلام دشمنوں کے ساتھ ہیں ،اپنے مسلمانوں کے ساتھ ان کی غداریاں کسی سے چھپی نہیں ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں سب سے پہلے ہمیں اپنے اعمال درست کرنے ہوں گے۔ ہمیں اپنے رویے کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ہم کون ہیں اور کیا ہیں ہمیں خود کو پہچاننا ہوگا۔ جس دن ہمیں اپنی پہچان مل گئی ہم پکے مسلمان بن جائیں گے اور پھر ایک اچھے اور سچے مسلمان کو کیا کرنا ہوتا اس کا سب کچھ ہمیں قرآن و سنت سے مل جائے گا۔ اس کے بعد وہ دن دور نہیں ہوگا کہ اﷲ ہمیں بھی عمر بن عبدالعزیز رحمہ اﷲ جیسے حکمرانوں سے نوازے گا۔ وہ دن دور نہیں ہوگا کہ جب دجالی سوچ کا خاتمہ ہوگا اور ہم ایک بار پھر فاتحہ عظیم ہوں گے۔ (ان شاء اﷲ)۔ شرط وہیں کہ خود کو بدلو اور اپنے اعمال کی بہتری کرو۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142075 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.