واہ ری مہذب دنیا

قاتل ہی جب انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار ہوں اور قتل ہونے والے انکے انسانیت کے ترازو پر پورا نہ اترتے ہوں تو پھر مہذب دنیا خاموشی کا لبادہ ہی اوڑھ لیتی ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی فوج کی درندگی کا نشانہ بنی 17 معصوم جانیں ، کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت سے بہایا گیا 16 کشمیری جوانوں کا ناحق خون اور افغانستان میں امریکی طیاروں کی وحشیانہ بمباری میں 100 سے زائد معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے عمل کو مہذب دنیا کی ڈکشنری میں شائد دہشتگردی نہیں کہتے؟ مہذب دنیا ملالہ کو گولی لگنے پر تو تڑپ جاتی ہے مگر قندوز کے معصوم بچوں پر وحشیانہ بمباری اور فلسطین و کشمیر کے لاشوں پر اسی مہذب دنیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ طالب علم ملالہ کو تعلیم کے لیئے گولی کھانے پر نوبل انعام دینے والی مہذب دنیا قندوز میں امریکی بمباری کا نشانہ بنے قرآن حفظ کرنے والے 100 سے زائد طالب علموں کو بھی نوبل انعام سے نوازے گی ؟

امریکہ اسرائیل اور بھارت دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے خون سے دنیا کی زمین سرخ کررہے ہیں۔ مسلمان امن کی فصل بونے کی خواہش میں کب تک پھولوں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے ؟ معصومیت اور پاکیزگی کی چادر میں لپٹے قندوز کے حفاظ قرآن کی میتیں امت مسلمہ اور تمام اسلامی ممالک کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیئے ایک سلگتا ہوا سوال چھوڑ گئی ہیں۔ ڈالر کی برسات میں خود کو نہلانے والے مسلم دنیا کے حکمرانو اب وقت آگیا ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی کی سازش سے خود کو الگ کرکے امت مسلمہ کے ناحق خون کو یوں بہنے سے روک لو۔ دنیا کے 60 فیصد وسائل کے مالک مسلم ممالک ہیں۔ اگر آج تمام مسلم ممالک ایک ہو جائیں اور اسلامی اتحاد کا ایک بلاک بنانے میں کامیاب ہوجائیں تو پوری دنیا پر حکمرانی کر سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ امریکہ اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ نے تمام مسلم ممالک کو تقسیم کر کے انہیں آپس کے باہمی اختلافات میں الجھا دیا ہے۔ اب مسلم ممالک تو دور کی بات پاکستانی قوم کو انکے سیاسی حاکموں کی اقتدار کی ہوس اور کرسی کے کھیل نے اتنا تقسیم کر دیا ہے کہ وہ قوم جو قومی مفاد کے پرچم کے سائے تلے ہمیشہ ایک رہی آج اس قوم میں ویسی یگانگت و اتحاد کا فقدان دکھائی دینے لگا ہے۔ نظریہ پاکستان ہو، قائد اعظم کی شخصیت ہو، کوئی قدرتی آفت ہو یا کرکٹ کا کھیل ہو ہمیشہ ایک نظر آنے والی قوم آج کہاں ہے ؟ جو فلسطین ، کشمیر اور قندوز میں مسلمانوں کی ہونے والی ناحق خونریزی پر ساکت و خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بانی پاکستان نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا مگر افسوس ہمارے آج کے پاکستان کے حکمرانوں پر کہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے ظلم و بربریت پر ایک دن کا یوم سیاہ منانے کی اخلاقی جرات تک سے عاری ہو چکے ہیں۔ جموں کشمیر میں بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں میں 16 کشمیری نوجونوں کی شہادت کے بعد مجھے جموں کشمیر سے ایک کشمیری خاتون کی طرف سے موصول ہونے والے ایک آڈیو پیغام نے خون کے آنسو رلا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے مگر پاکستان مشکل کی اس بدترین گھڑی میں اپنے جموں کشمیر کے بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کی ان عظیم قربانیوں اور شہادتوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ کشمیر کی مسجدوں میں پاکستان کے پرچم کے سائے تلے ایک ہونے کے ترانے بج رہے ہیں۔ پاکستان میں کشمیر کی آزادی کی تحریک کو کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشال یاسین ملک جسطرح سے لیکر چل رہی ہیں انکی ہمت اور حوصلے کو داد ہے۔ مشال ملک سے جب بھی بات ہوئی انہوں نے کشمیر کی بات کی۔ انکی باتوں میں کشمیر کا درد اور کشمیر کا دکھ ہوتا ہے۔ مشال ملک کہتی ہیں کہ وہ اپنی دودھ پیتی بیٹی رضیہ سلطانہ کو ساتھ لیکر اب ننگے پاوں باہر نکلیں گی اور پاکستانی قوم کو کشمیر کی تحریک آزادی کے لیئے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کریں گی۔ مشال ملک کا کہنا ہے کہ جب وہ باہر کے ممالک کے وفود سے ملاقاتیں کرتی ہیں تو ان سے ہمیشہ یہ ہی بات پوچھی جاتی ہے کہ آپ کشمیر کے مسئلے کو جسطرح سے لیکر چل رہی ہیں اس کے برعکس پاکستان میں گراس روٹ لیول تک کشمیر کے موقف کی حمایت نظر نہیں آتی۔

مہذب دنیا کے انسانیت کے سب سے بڑے علمبردارو آپکی نظر میں واقعی دنیا کے کسی بھی خطے میں آباد مسلمان انسانیت کے معیار پر پورے نہیں اترتے اسی لیئے آپ کے نزدیک مسلمانوں کا خون بہنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جب مسلمانوں کے اپنے حاکم ہی اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے نا حق بہنے والے خون پر خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں تو آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ فلسطین و کشمیر ہو ، افغانستان و عراق ہو ، شام و یمن ہو یا برما ہو اپنی دہشتگردی کی جنگ میں مسلمانوں کا خون بہاتے جاو آپ سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ مگر یاد رکھنا کہ ایک دن آپکو حساب دینا ہو گا جب اس مسلمان قوم سے ہی پھر کوئی محمد بن قاسم اور سلطان صلاح الدین ایوبی بن کر آئے گا۔ مگر ابھی شائد بہت دیر ہے ان کے آنے کی۔ تب تک آپ کو کھلی آزادی ہے۔ ابھی مسلمان امن کی فصل بونے کی خواہش کے بدلے پھولوں کے جنازے اٹھانے پر مجبور ہیں۔
آج پھر وقت کے فرعون
موسی کے بڑا ہونے سے ڈر رہے ہیں

 

Abid Ayub
About the Author: Abid Ayub Read More Articles by Abid Ayub: 13 Articles with 9416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.