فلسطین ،اسرائیل کی 68سالہ جنگ میں لاکھوں شہادتیں اور عالمی تبصرے

 فلسطین اور اسرائیلی میں 68سالہ یعنی 1957 سے جاری جنگ میں لاکھوں فلسطین کے شہری شہیدہوئے ، لاکھوں ہی زخمی ہوئے ۔عالمی میڈیاسے منسلک مختلف صحافیوں نے فلسطینی عوام کیلئے حق میں آوازبلند کرنے کی کوشش کیں اور کررہے ہیں اسرائیل کے حالیہ فلسطین پر جاری حملوں پر عالمی دنیا خاموشی پر بے شمار تبصرے سامنے آئے ہیں لیکن ابھی تک اسرائیل کے ہاتھوں فلسطین کے شہریوں کی شہادتوں کا سلسلے جاری ہے،ذرائع ابلاغ میں صحافیوں جانب سے مختلف تبصرے سامنے آئے ہیں بتایا جاتاہے کہ گذشتہ جمعہ 30 مارچ 2018کو فلسطین بھر میں ’یوم الارض‘ مظاہرے کیے گئے۔ ان مظاہرون میں لاکھوں فلسطینیوں نے حق واپسی کے لیے عظیم الشان ریلیاں نکالیں۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج نے منظم اورغیرمسبوق ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیڑھ درجن فلسطینیوں کو شہید اور ڈیڑھ ہزار کو زخمی کردیا۔اسرائیلی ریاست کے ایک تجزیہ نگار اور دانشور عمیرہ ھس کا حال ہی میں اخبار ’ہارٹز‘ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ فاضل کالم نگار نے اپنے مضمون کا آغاز غزہ کی پٹی میں ’یوم الارض‘ کے موقع پر ہونے والے احتجاج اور پرامن مظاہرین پر اسرائیلی فوج کے حملے سے کیا ہے۔ صہیونی ریاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے اسرائیلی تجزیہ نگار لکھتا ہے یہ مشرقی بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ جیسے فلسطینی علاقوں میں بسنے والوں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا یکساں برتاؤ ہے۔ جس طرح اسرائیل سنہ 1967ء کو غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس پر قبضے کے بعد فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ انتقامی کارروائیاں کرتا رہا ہے، ویسے ہی وہ لبنان اور غزہ میں کررہا ہے۔

عمیرہ ھس لکھتے ہیں کہ غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کے خلاف گولی چلانے سمیت دیگر تمام مکروہ حربوں کے لیے اسرائیلی فوج کو غیرمعمولی اختیارات دیے گئے ہیں۔ ان کارروائیوں کو فوج داری کیسز ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔اسرائیلی تجزیہ نگار نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے بعض جرائم کا تذکرہ کیا ہے مگر بہت سے واقعات جن میں غزہ میں بہیمانہ قتل عام کیا گیا کو نظرانداز کیا گیا ہے۔مرکزاطلاعات فلسطین نے بھی غزہ میں فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کے بعض واقعات کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سنہ 1956میں جزیرہ سیناء میں ہونے والا قتل عام بھی شامل ہے۔ سنہ 1957ء میں اقوام متحدہ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ تین اکتوبر 1956ء کو اسرائیلی فوج نے غزہ کے علاقے خان یونس میں 257 نہتے فلسطینیوں کو شہید کیا۔ اس کے بعد 12 اکتوبر کو رفح کے علاقے میں وحشیانہ قتل عام کیا گیا جس میں ایک مصری شہری سمیت 110 فلسطینی شہید کر دیے گئے۔صحافی اور کارٹونسٹ ’جو ساکو‘ نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پرخاکوں کی شکل میں ایک کتاب مرتب کی۔ اس میں انہوں نے خاکوں کی مدد سے غزہ میں جگہ جگہ فلسطینیوں کی بکھری لاشوں، اسرائیلی فوج کی طرف سے فائرنگ، بے سروسامانی کے عالم میں بھاگتے فلسطینی بچوں اور عورتوں اور ان کا تعاقب کرتے اسرائیلی بندوق بردار دہشت گردوں کی منظر کشی کی گئی ہے۔

تجزیہ نگار یزھار بئیر کا کہنا ہے کہ سنہ 1967ء کے بعد اسرائیل نے غزہ کی آبادی کم کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ فروری 1968ء کو اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم لیوی اشکول نے ایمی گریشن پروگرام کی ذمہ داری عادہ سرانی نامی ایک خاتون کے سپرد کی۔ اس مشن کا مقصد غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو دوسرے عرب ملکوں میں ہجرت پر اکسانا اور انہیں مختلف حیلوں سے فلسطین چھوڑنے کی ترغیبات دینا تھا۔بئیرکا کہنا ہے کہ ایک ملاقات میں اشکول کے سرانی سے پوچھا کہ اب تک آپ نے کتنے عرب باشندوں کو بیرون ملک ہجرت پر مجبور کیا۔ اس نے جواب میں کہا کہ وہ 40 ہزار خاندانوں کو بیرون ملک بھجوا چکی ہے۔ سرانی نے کہا کہ وہ فی خاندان ایک ہزار لیرہ دیتی رہی ہیں۔ ساتھ ہی اس نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کو وہاں سے نکالنے کے چالیس ملین لیرہ رقم کی ضرورت ہے، اس پر اشکول نے کہا کہ ہاں یہ معقول رقم ہے۔

سنہ 1991ء میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے عوام کو جیلوں میں ڈالنے کی پالیسی میں شدت پیدا کی۔ سنہ 2007ء میں ایہود اولمرٹ کی حکومت نے پورے غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کرتے ہوئے اس کی تمام اطراف سے ناکہ بندی کردی۔ ان پابندیوں کے باعث غزہ کے عوام کو ادویات، خوراک، خام مال اور دیگر درآمدات وبرآمدات پر پابندی عاید کردی۔سنہ 2008ء اور اس کے بعد کی جنگوں کے دوران اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی پر فوج کو طاقت کے وحشیانہ استعمال کی کھلی چھٹی دی۔ گھروں میں سوئے ہوئے خاندانوں پر بمباری پرکرکے نہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔نہتے فلسطینیوں کو اجتماعی طورپر شہادتوں کے واقعات ان گنت ہیں۔ سنہ 2008ء اور اس کے بعد مسلط کی گئی جنگوں کے دوران صہیونی فوج نے نہتے فلسطینیوں کا بے دریغ اور اجتماعی قتل عام کیا ہے۔

اسرائیل میں حکومت، فوج، پولیس اور ریاست کے تمام اعلیٰ اداروں سے وابستہ سرکردہ شخصیات کی مال حرام پر پرورش کوئی نیا موضوع نہیں۔ اس حوالے سے خبریں اکثر ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ اسرائیل کے ایسے 20 بلدیاتی کونسلوں کے چیئرمین حضرات کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کے یہ تمام میئر جنسی سکینڈل، جنسی تشدد، مالی بدعنوانی، مال حرام کی کمائی، بدانتظامی، رشوت کے لین دین اور بلیک میلنگ جیسے سنگین نوعیت کے سکینڈلز میں ملوث رہے ہیں۔ اس حوالے سے اسرائیل کے عبرانی ٹی وی کی رپورٹ کافی دلچسپ اور سبق آموز ہے جس میں ایسے چند ایک سیاسی چہروں کی نقاب کشائی گئی ہے جو قومی دولت کی لوٹ مار سمیت دیگراخلاقی اور مالی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ذیل میں حرام مال کمانے والے اسرائیلی میئرحضرات کا ایک تعارف پیش کیا جا رہا ہے جو مبینہ طور پر رشوت کے لین دین میں ملوث پائے گئے ہیں۔

نیسیم ملخا
نیسیم ملخا نامی اسرائیلی سیاست دان مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے مقبوضہ شہر الجلیل کے قریب واقع ’’کریات شمونہ‘‘ نامی یہودی کالونی کے میئر رہے ہیں۔ یہ یہودی کالونی انتظامی طور پر شمالی اسرائیل کا حصہ قرار دی جاتی ہے۔ اسرائیل نے سنہ 1974ء میں یہاں یہودیوں کے لیے مکانات تعمیر کیے اور اس کے بعد یہاں آباد کاری شروع کی تھی۔ اس میں اس وقت قریبا 24 ہزار یہودی آباد ہیں۔

شمون گیوسن
شمعون گیوسن کا شمار بھی اسرائیل کے ان میئرز میں ہوتا ہے جو حرام کے ذرائع سے دولت سمیٹنے میں بدنامی کی حد تک مشہور ہیں۔ گیوسن اپر ناصرہ کے اسرائیلی میئر رہ چکے ہیں۔ یہ شہر بھی شمالی اسرائیل کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں پر 40 ہزار یہودی آباد کار آباد ہیں۔ یہاں پر یہودیوں کی آباد کاری کا سلسلہ سنہ 1957ء میں شروع ہوا اور آج تک وقفے وقفے سے جاری ہے۔ اس شہر میں یہودی توسیع پسندی کا کام تیزی سے جاری ہے اور اسے الجلیل کے علاقے کا یہودیوں کا اکثریتی شہر قرار دیا جاتا ہے۔

زیپی بار
زیپی بار فوج سے کرنل کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد رمات جان نامی یہودی کالونی کا کئی سال تک میئر رہا۔ مسٹر بار مصر کی نہر سویز کی جنگ، جنگ السموع، سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ اور الکرامہ جنگ میں بھی موجود رہا اور کچھ عرصہ اسرائیل میں ڈپٹی پولیس چیف کے عہدے پربھی فرائض انجام دیے مگررمات جان کالونی کے میئرکی حیثیت سے اس نے بڑے پیمانے پر رشوت وصول کی۔

یوسی بن ڈیوڈ
یوسی بن ڈیوڈ مقبوضہ فلسطین میں قائم کردہ اسرائیل کی ’’یہود۔ مونوسن‘‘ نامی یہودی کالونی میں میئر رہا۔ یہ کالونی مشرقی یافا میں واقع ہے جسے سنہ 1953ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ کالونی سنہ 1948ء میں تباہ کئے گئے فلسطینی قصبے العباسیہ کے کھنڈرات پر تعمیر کی گئی۔ سنہ 2003ء میں یہاں یہودیوں کی بڑی تعداد آباد کی گئی۔ اس وقت اس کالونی میں 28 ہزار یہودی آباد کار آباد ہیں۔

ابنار موری
ابنار موری کا شمار بھی اسرائیل کے ان میئرز میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے حرام کا مال بٹورنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مسٹر موری جزیرہ نما النقب کے شمال میں واقع ’’مرگیم‘‘ یہودی کالونی کا میئر رہا۔ اس کالونی میں 11 ہزار یہودی آباد ہیں۔

ڈون لیٹ بنوف
ڈوب لیٹ بنوف اسرائیل کی "تمار" نامی یہودی کالونی کے میئر رہے۔ بحر مردار کے جنوب اور جزیرہ نما النقب کے مغرب میں واقع اس کالونی کا قیام سنہ 1955ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس مین 1300 یہودی رہتے ہیں۔

اوری لوبلیانسکی
اوری لوبلیانسکی بیت المقدس کا مشہور اور بدنام زمانہ میئر رہا اور اس نے بھی حرام کی دولت جمع کرنے میں خوب شہرت حاصل کی۔ اس پر بھی رشوت ستانی کے الزام میں عدالتوں میں مقدمات قائم کیے گئے۔

جنسی اسکینڈلز میں ملوث میئر
وجیہ کیوف
وجیہ کیوف نامی اسرائیلی سیاست دان ’عسیفا‘ کالونی کا میئر رہا۔ اس کالونی میں 11 ہزار افراد آباد ہیں۔ میں بیشتر دروز، عیسائی اور مسلمان ہیں۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ عسیفا نامی یہودی کالونی رومن دور کے ایک شہر پرقائم کی گئی ہے۔ یہودی اسے ’’حوسیفہ‘‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ وجیہ کیوف پررشوت ستانی کا نہیں البتہ جنسی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا گیا۔

ڈیوڈ یوسیف
ڈیوڈ یوسیف سنہ 1949ء میں قائم کردہ ’’اوریہودا‘‘ نامی کالونی کا میئر رہا۔ یہ کالونی ’’ ساقیہ‘‘ نامی فلسطینی گاؤں پرآباد کی گئی تھی۔ یہ گاؤں یہودیوں نے سنہ 1948ء میں صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ یہ کالونی اس وقت تل ابیب گورنری میں آتی ہے۔ اس میں اسرائیل کا مشہور بین الاقوامی ہوائی اڈہ بن گوریون بھی واقع ہے۔ یہان پر35 ہزار یہودی آباد ہیں۔

موتی ملخا
موتی ملخا سابقہ فلسطینی شہر قسطینہ میں قائم کی گئی کریات ملاخی نامی یہودی کالونی کا میئر رہا۔ اس کالونی میں 21 ہزار یہودی آباد ہیں۔ اس میں کئی فوجی مراکز بھی واقع ہیں۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے گذشتہ جنگ میں اس کالونی پرراکٹ حملے کرکے تین یہودیوں کو ہلاک کیا تھا۔ موتی ملخا پربھی جنسی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عایدکیا جاتا ہے۔

ایتمار شمعونی
ایتمار شمعونی کا شمار بھی جنسی جرائم میں ملوث اسرائیلی میئرز میں ہوتا ہے۔ وہ عسقلاب بلدیہ کا کئی سال تک میئر رہا۔ اس عسقلان بلدیہ میں ایک لاکھ 26 ہزار یہودی آباد ہیں۔’’المجدل‘‘ اس شہر کا سب سے پرانا اور تاریخی قصبہ ہے۔ یہاں پرممالیک کے دور میں ’سیف الدین سالار‘ نامی ایک بڑی مسجد تعمیر کی گئی جو آج بھی موجود ہے۔

موشے ڈاڈون
موشے ڈاڈون ’’متادا‘‘یہودی کونسل کا میئر رہا۔ اس سے قبل اس نے فوج میں فضائیہ کے شعبے میں بھی خدمات انجام دیں۔ اس وقت اس کالونی میں 49 ہزار یہودی آباد ہیں اور اسے بیت المقدس شہر کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ موشے ڈاڈون پربھی جنسی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

کرپشن، دھوکہ دہی اور بد دیانتی میں ملوث میئر
شمعون سویسا
بدعہدی، لوٹ مار اور دھوکہ دہی جیسے جرائم میں ملوث یہودی میئرز میں پہلا نام شعمون سویسا کا آتا ہے۔ موصوف ’’حتزور الجلیلیہ‘‘ نامی یہودی کالونی کے میئر رہے۔ یہ کالونی سنہ 1956ء میں بنائی گئی تھی۔ اس میں بالائی الجلیل، شمال مشرقی صفد اور روش بینا کے مقامات بھی شامل ہیں۔ اس میں نو ہزار کے قریب یہودی آباد ہیں۔

عودید ھمیری
صفد شہر کے سابق میئر عودید ھمیری پر بھی دھوکہ دہی اور کرپشن جیسے سنگین الزامات عاید کیے گیے ہیں۔ صفد کی یہودی بلدیاتی کونسل میں 32 ہزار یہودی آباد ہیں۔

رونی گولان
رونی گولان کا شمار بھی اسرائیل کے ان بدنام زمانہ میئرز میں ہوتا ہے جو دھوکہ دہی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ رونی ’’تل موند‘‘نامی یہودی کالونی میں میئر رہے۔ اسرائیل کے وسط میں واقع اس کالونی میں11 ہزار یہودی آباد ہیں۔

یتزحاق روچبرگر
دھوکہ دہی جیسے جرائم میں ملوث اسرائیلی میئرز میں یتزحاق روچبرگر کا نام بھی سرفہرست ہے۔ اس پرالزام ہے کہ وہ’’رمات شارون‘‘ نامی یہودی کالونی کے میئر کی حیثیت سے بڑے پیمانے پر کرپشن اور دھوکہ دہی کے مرتکب ہوئے۔ یہ کالونی سنہ 1923ء میں قائم کی گئی تھی جس میں اب 44 ہزار یہودی آباد ہیں۔

یسرائل زنجر
یسرائیل ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہے جس نے جوہری سائنس میں ایم ایس سی کررکھی ہے۔ وہ کچھ عرصہ تک "رمات جان" نامی یہودی کالونی کا میئر رہا۔ اس کالونی کے شمال مغرب مین تل ابیب، جنوب میں گفعتایم اور مشرق مین بنی براک نامی علاقے واقع ہیں اور یہاں پر ڈیرھ لاکھ یہودی آباد ہیں۔

مرخائی زھمان
مرخائی زھمان نامی یہودی سیاست دان ’’مگیلوت‘‘ یہودی کالونی کا میئر رہا۔ یہ کالونی بحر مردار کے شمال میں واقع ہے جس میں ایک ہزار یہودی آباد ہیں۔ یہ ساحلی علاقوں کی سب سے چھوٹی یونین کونسل ہے۔

بلیک میلنگ اور پرائیسوی کی خلاف ورزیاں
زوھرعوفاد
بلیک میلنگ اور شہریوں کی شخصی آزادی میں مداخلت کے الزامات کا سامنا کرنے والوں میں ’’زوھرعوفاد‘‘ کا نام سر فہرست ہے۔ عوفاد ماضی میں طبریا بلدیہ کا چیئرمین رہا۔ اس پرالزام ہے کہ اس نے غیرقانونی طورپر ایک شہری کا کمپیوٹر ہیک کیا اور اس جرم میں جرمانہ ادا کرکے جان چھڑائی تھی۔ طبریا بلدیہ میں 49 ہزار یہودی آباد ہیں اور یہ شمال فلسطین کا اہم ترین تاریخی شہر ہے جس مین مشرقی الجلیل کے علاقے بھی شامل ہیں۔

ایلی بوتوبول
ایلی بوتوبول ’’زخرون یعقوب‘‘نامی یہودی کالونی کے میئر رہے ہیں۔ یہ کالونی حیفا گورنری کا حصہ شمار کی جاتی ہے جس میں 35 ہزار یہودی آباد ہیں اور تمام یہودیوں کا تعلق یورپ اور امریکا سے ہے۔ یہ کالونی فلسطین میں یہودیوں کی قدیم ترین کالونی شمار ہوتی ہے کیونکہ اس کا قیام 6 دسمبر 1882ء کو یہودیوں کے بہی خواہوں کی جانب سے عمل میں لایا گیا تھا۔ایلی بوتو بول پر دھوکہ دہی، بلیک میلنگ اور شخصی آزادیوں میں مداخلت جیسے الزامات عاید کیے گئے۔

 

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201926 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.