آج پھر ماہره درد سے دہری ہوئی جارہی تھی. اس کو سمجھ
نہیں آرہا تھا کہ وہ گھر میں اکیلے کیسے اس درد سے لڑے.بیٹے کی پیدائش کے
بعد سے وہ اس تکلیف کا شکار تھی مگر شرم کے باعث وہ یہ سوچ نہ پاتی کہ اپنی
ساس کو کس طرح سمجھائے اور کیا بتائے کہ اس کو کدھر درد ہورہا ہے. اس نے
اپنے معصوم بچے کو دودھ بھی اسی تکلیف کے ساتھ پلایا. بچہ دودھ پیتے پیتے
میٹھی نیند سوچکا تھا. اس نے بچے کو اس کے پالنے میں لٹایا اور گہری سانس
بھر کر باورچی خانے کی طرف چل پڑی.
اچانک دروازے پر گھنٹی بجی اور دروازہ کھولنے پر اس نے دیکھا کہ اس کی
بھابھی جو ایک گائنا کولوجسٹ بھی تھی وہ سامنے کھڑی تھیں. ماہره کی آنکھیں
ان کو دیکھ کر بےاختیار ہی نم ہوگئیں .ڈاکٹر سمیرا نے جب اس کو روتے دیکھا
تو پریشانی میں اس سے رونے کی وجہ پوچھی. ماہره نے ان کو ٹالنا چاہا مگر وہ
بضد رہیں. آخر کار ہار کر ماہره نے ان کو بتایا کہ عفان کی پیدائش کے بعد
سے اس کی چھاتی پر دو گلٹیاں نمودار ہوگئی ہیں. اس نے بتایا کہ ان کا سائز
بھی بڑھتا ہوا محسوس ہورہا ہے اور اس کو ان میں شدید ٹیسیں اٹھتی ہوئی بھی
محسوس ہوتی ہیں. ڈاکٹر سمیرا ایک تجربہ کار ڈاکٹر تھیں. انہوں نے فورا ہی
ماہره کا معائنہ کیا. ان کے ماتھے پر تفکر کی ایک شکن نمودار ہوئی مگر
انهوں نے اسے مہارت سے چھپاتے ہوئے ماہره کو کل ان کے ساتھ لیبارٹری ٹیسٹ
کے لئے چلنے کے لئے کہا. ماہره نے ان سے کہا کہ وہ اس کی ساس اور میاں سے
اجازت لے لیں. ڈاکٹر سمیرا نے ان دونوں کے گھر واپس آنے پر کچھ اس طریقے سے
بات کی کہ وہ ماہره کو چند روز میکے میں گزارنے کی اجازت مل گئی.
اگلے روز ڈاکٹر سمیرا ماہره کو لے کر لیبارٹری گئیں اور سی ٹی سکین کے ساتھ
ساتھ انهوں نے گلٹی کی بائیوپسی بھی کروائی.
اگلے دو دن میں جب ان کو رپورٹس ملیں تو ان کا دل ڈوبنے لگا.ماہره کو سٹیج
ون کینسر کی تشخیص ہوئی تھی. سارے گھر میں صف ماتم سی بچه گئی تھی. ماہره
کی ساس اور اس کے میاں بهی اس پریشانی میں پورے شریک تھے. ماہره سوچ بھی
نہیں سکتی تھی کہ بظاہر ڈسپلنڈ دکھائی دینے والی اس کی ساس اس سے اتنا پیار
کرتی تھیں. ان سب نے مل کر ماہره کو شوکت خانم میموریل ہسپتال لے جانے کا
فیصلہ کیا. ماہره کی سرجری اور کیموتهراپی کا سفر بہت لمبا اور تکلیف دہ
تھا. ماہره سر سے گنجی ہوچکی تھی. مگر ہسپتال کے ڈاکٹرز کی محنت اور اس کے
گھر والوں کی محبت نے کینسر کو اس کے اندر سے بھگا ڈالا.
ماہره اب تین خوبصورت بچوں کی ماں ہے بلکہ شوکت خانم میموریل ہسپتال کی سب
سے کارآمد رضاکار بھی ہے. ماہره ہمیشہ لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کی
کوشش کرتی ہے کہ آپ کا صدقہ یا زکوۃ کسی بھی جاں بلب کینسر کے مریض کی
صحتیابی کے کام آسکتا ہے. آئیے کینسر کے خاتمے کی جنگ میں حصہ لیں. عمران
خان یا ان کی سیاسی کردار کا بدلہ ان معصوم کینسر کے مریضوں سے مت لیجئے.
شوکت خانم میموریل ہسپتال عمران خان کی ملکیت نہیں ہے. بلکہ ہمارے آپ کے
جیسے لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے. سوچئے گا ضرور. |