کانوکارپیس(پودا)،MISFIT۔۔۔

شہر قائد سمیت ملک بھر کانوکارپیس پودا کو بے دردی سے پھیلایا جارہاہے جس کو ماحول و فضا میں انسانی صحت کیلئے مضر ہے اسی حوالے سے تحقیق کے بعد لکھی جانے والی اک تحریر۔۔۔۔

شہر قائد میں بکثرت پایا جانے والا کانوکارپیس پودا ۔۔۔۔

شہر قائد میں قریبا ہر جگہ ، مرکزی شاہراہیں ، تفریخی پارک، رہائشی منصوبے زیر تعمیر و تعمیرشدہ الغرض ہرجگہ ایک پودا کانوکارپیس ہی نظر آتاہے۔ بظاہر گھنا ، سایہ دار ، پانی کی عدم دستیابی کے باوجود اور بغیر پرندوں کے گھونسلوںو آمجاگاہ کے بھی یہ پودا آب و تاب سے نظر آتاہے اور شہریوں کی بے بسی و بے کسی پہ اپنی ہریالی کے ساتھ مسکرارہا ہوتاہے۔ شعبہ باغات ہو یا شعبہ ماحولیات ، ان کے وزیر و مشیر سمیت دیگر عہدیداران بھی اس پودے کے سبب مسرور دیکھائی دیتے ہیں۔ بغیر بیج کے بھی اگنے والے اس پودے کو کسی بڑے وزیر و وزیر اعظم کے سامنے دیکھانے کیلئے کسی بڑے کانوکارپیس کی بڑی شاخوں کو کاٹ کر زمین میں گھاڑ کر اگتا ہوادیکھائی دینا اور اس پر بھی اپنا سر فخر سے اور اونچا کر دینا معمولات عام بن گئے ہیں۔ حد تو ہے کہ اب سیاسی ، مذہبی، سماجی جماعتوں سمیت ماحولیات سے پیار کرنے والے بھی جانے ، انجانے میں اس پودے کو لگانے کی مہمات کم ترین معاوضوں سے شروع کردیتے ہیںاور اس میں ذرائع ابلاغ ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کیلئے یہ پودا کس قدر ضروری ہے۔۔۔۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانوکارپیس ، MISFITہے اور ہر طرح سے یہ مس فٹ ہے۔ یہ سمجھنے اور سمجھانے کی ازحد ضرورت ہے اور اس کے بعد اس پودے کوا یک جانب رکھ کر حقیقی انداز میں ماحول کو سرسبز بنانے اور بچانے کیلئے اس پودے کے نیم البدل کو لگانے اور اس کے گن گانے کی اور گاتے رہنے کی شدید ضرورت ہے۔ نہ کوئی جانور اس پودے کو کھاتا ہے اور نہ ہی کوئی پرندہ اس میں آکر بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہے لہذا اس سبب اس میں گھونسلہ بنانے کا معاملہ تو سرد خانے کی ہی زینت بن جاتاہے۔ پانی ہاں واقعی پانی کی کمی کے باعث یہ ہوا میں نمی کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرتاہے اوراسی انداز میں یہ بڑھتا ہے ۔ یہ پودا کانوکرپس اپنی خوشی میں اس وقت اور بھی اضافہ کرتاہے کہ جب اس کے کولن سے سانس کی بیماریاں پھیلتی ہیں اورمریض ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں۔اس کے باوجود شہر قائد کا ہی نہیں اس ملک کا ہر شہری کیا کرئے اور سب کی زبان پہ بس ایک سوال ہو کہ ہم کو بتائیںہم کیا کریں ؟

شہری ، اپنے گھروں کے ساتھ محلے میں کم خرچ کو ہی رکھتے ہوئے اس پودے کوخریدتے ہیں اور ان کی افزائش کرتے ہیں۔ سایہ جلد بڑھنے والا یہ پودا کم پانی ہونے کے باوجود بھی سایہ دار درخت بن جاتاہے۔شہر کے ہی مختلف علاقوں میں سڑکوں کے کنارے پودوں اور پھولوں کی نرسریاںقائم ہیں۔ جہاں یہ پودا وافر مقدار میں دستیاب ہوتاہے۔ان نرسریوں کے مالکان کا بھی یہی کہنا ہے کہ پودے کو جانور کم کھاتے ہیں اور پانی بھی اسے کم ہی چاہئے ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ آتے ہیں اور اپنی محدود معلومات کے باعث اس پودے کو خرید کر چلے جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ پودے کی فروخت دیگر کی بنسبت زیادہ ہے۔اس پودے کو نہ بیچنے کے سوال پر ان کا کہنا تھاکہ ہمیں کاروبار کرنا ہے اور جس پودے میں منافع زیادہ ہوتاہے اسے ہی ترجیح دی جاتی ہے۔

یونیورسٹی روڈ سمیت شہر کی متعدد مصروف ترین سڑکوں پہ یہی پودا نظر آتا ہے۔سیاسی ، سماجی و دیگر جماعتوں کے رہنما و کارکنان بھی اسی پودے کو ہی اپنی مہمات کی زینت بناتے ہیں۔جامعہ کراچی تک میںاس پودے کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اکثر مقامات پر تو سڑکوں کے دونوں جانب یہی پود اہونے کے ساتھ درمیان میں جگہ پر بھی یہی پودا نصب ہوتاہے۔ کانوکارپس نام کا یہ پودا مس فٹ ہونے کے باوجود مکمل فٹنس کے ساتھ موجود ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مس فٹ پودے کی خرید و فرخت ختم کرنے کے ساتھ شہر قائد میں اس کی مزید آبادکاری سے بھی پرہیز کیا جائے اور موجود پودوںکی بھی ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ شجر کاری کی مہمات میں اگر پودوں کی شجر کاری ہوسکتی ہے تو ماحول کو صاف و شفاف رکھنے کیلئے پودوں کے خاتمے اور ایسے پودوں کے خاتمے کی بھی مہمات ہوسکتی ہیں جن کے معاشرے میں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔۔۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 162714 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More