بچوں میں لکنت یا Stammering اور اس کے علاج

بچوں میں لکنت ان کی شخصیت کو بری طرح مجروح کر سکتی ہے۔ عموما یا پانچ یا چھ سال یا اس سے کم عمر کے بچوں میں اچانک ظاہر ہوتی ہے اور لکنت کے لیول کے حساب سے یہ بچے کی انا پر اثرانداز ہوتی ہے۔ والدین پر لازم ہے کہ اس صورتحال میں پوری طرح ذمہ داری کے ساتھ اپنا فرض نبھائیں۔ انشاءاللہ آپ کی تھوڑی سی توجہ سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

بچوں میں لکنت

میری بیٹی نمرہ اگلے ماہ پورے چھ سال کی ہو جائیگی۔ یہ تقریبا کوئی سات آٹھ ماہ پہلی کی بات ہے کہ اچانک سے نمرہ کی زبان میں لکنت آ گئی اور یہ لکنت بڑھ گئی حتٰی کے حروف تہجی یا انگلش کے ایلفابیٹس بھی اس کیلیے پڑھنے مشکل ہو گئے اور اس نے جگہ جگہ اٹکنا شروع کر دیا۔ اس وقت ہم سب کیلیے جو پہلے اس کو نارمل سمجھ رہے تھے کہ خود ہی ٹھیک ہو جائیگی ایک دم بہت الارمنگ صورتحال بن گئے۔ تھوڑی سی فوری توجہ اور پریکٹس سے الحمد للہ اب یہ لکنت تقریبا 90 فیصد ختم ہو گئی ہے۔

آثار

- کسی ایک لفظ کا باربار دھرانا۔
- کسی ایک حرف پر اٹک جانا اور اس کی ادائیگی کیلیے بہت زور لگانا۔
- جب کہیں اٹکنا تو نظریں ہٹا کر دوسری طرف دیکھنا۔

بچے پر اس کے اثرات

بچے پر اس کے اثرات تھوڑے منفی سے بہت منفی ہو سکتے ہیں۔
- اگر بچہ بہت زیادہ لکنت کا شکار ہے تو اس کیلیے اپنی بات دوسرے کا بتانا بہت مشکل ہو جاتی ہے۔
- سکول میں بچے اس کو مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی خود اعتمادی بری طرح مجروح ہوتی ہے۔
- کلاس میں وہ اپنا سبق صحیح طریقے سے نہیں سنا سکتا
- جس بچے کو بہت زیادہ لکنت ہو تو اس کی بات کو سننے کیلیے بڑے صبر اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام اپنے والدین یا بہن بھائی تو کر سکتے ہیں مگر دوسرے لوگ نہیں کرتے جس کی وجہ اس بچے کو لگتا ہے کہ میری کوئی بات نہیں سنتا اور لوگ مجھے سے تنگ پڑ جاتے ہیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ بات کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے یا ضدی اور چڑچڑا ہو جاتا ہے۔

علاج اور والدین کی ذمہ داری

ایسے میں والدین کی انتہائی ذمہ داری ہے کہ صورتحال کی فوری نوعیت کا ادراک کریں اور کسی سپیچ تھیریپسٹ سے رجوع کریں۔
میرے کیس میں، میں نے کسی ڈاکٹر سے رجوع تو نہیں کیا مگر یہ کہ انٹرنیٹ پر اس موضوع انگلش اردو میں کافی تعداد میں لیکچرز اور ڈاکومنٹریز تھیں وہ دیکھیں۔ ان سے میں نے اہم پوئنٹس نوٹ کر لیے اور گھر میں اپنی وائف کو بھی سارا بریف کیا۔ ان میں سب سے اہم اور پراثر جو تدابیر پائیں وہ یہ ہیں کہ

- بچے کو ہرگز بار بار لکنت پر ٹوکیں نہ کہ یہ کیسے بول رہے ہواور ہرگز اس پر ڈانٹیں نہ۔
- عموما بچوں میں لکنت زیادہ اس وقت ہوتی ہے جس وہ بہت خوشی یا پریشانی یا جذبات میں تیز تیز بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جونہی وہ تیز تیز بولنے کی کوشش کرتے ہیں لکنت میں زیادہ اضافہ ہو جاتا اور وہ زیادہ اٹکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے گھر میں یہ بات سب کو باور کرا دیں کہ متاثرہ بچے کے ساتھ بالکل آرام آرام سے( یعنی کہ بولنے کی رفتار تیز نہ ہو) بچے سے بات کریں۔ جب آپ بچے سے بات کریں تو یہ عادت بنا لیں کہ ایک ایک لفظ آرام آرام سے اور ٹھہر ٹھہر کی ادا کرنا ہے تا کہ بچے کو بھی یہ بتائیں کہ وہ بھی آپ سے آرام آرام اور ٹھہر ٹھہر کر بات کرے۔ انشاء اللہ آپ بھی دیکھیں گے اور ہم نے بھی اپنی بیٹی کے کیس میں دیکھا کہ ایک ہفتہ کی پوری کوشش کے ساتھ نمرہ کی لیکنت پچاس فیصد ختم ہو چکی تھی۔
- جب آپ آہستہ آہستہ بولیں گے تو ظاہر وقت زیادہ لگے گا، اس لیے پہلے ہی اس کیلیے تیار رہیں کہ پوری طرح صبر اور خوشی کے ساتھ اپنی بچے سے بات کرنی ہے اور اگر اس میں وقت لگ رہا ہے تو تنگ نہیں پڑنا۔
- ہر وہ عمل یا محرک جس سے بچے میں لکنت کا عمل تیز ہو جاتا ہے اس کو نوٹ کریں مثلا نمرہ کے کیس میں ہم نے دیکھا کہ جب وہ پریشان ہوتی تھی جیسے ٹیسٹ نہیں تیار ہو رہا یا ڈانٹ پڑی ہے یا وہ جب بہت خوشی میں تیز تیز بول رہی ہے تو لکنت بھی بڑھ جاتی تھی۔ اس لیے ان محرکات میں جو آپ کم کر سکتے ہیں کو کم سے کم کریں۔ مثلا ڈانٹ ڈپٹ یا ٹیسٹ وغیرہ کیلے پریشر ڈالنا اس کو کم سے کم کردیں۔
- بچے کا ٹی وی ٹائم یا موبائل پر گیمیں کھیلنے کا ٹائم کم کریں اور کارٹونز وغیرہ دیکھنے کے ٹائم کو فکس کر دیں۔ جتنا بچے کا زیادہ سکرین ٹائم اتنا وہ فوکس اور کنسنٹریشن کم ہو جاتی ہے۔ وہ بات ایک کر رہا ہو گا اور سوچ رہا دوسری ہو گا۔
- اپنے بچوں کو وقت دیں۔ جب گھر میں ہوں تو ان کے ساتھ آرام آرام کے ساتھ گپ شپ کریں۔ ان سے کہانیاں اور دن بھر کر روداد سنیں اور اپنی سنائیں۔

الحمد للہ ان تدابیر کے ساتھ تقریبا ایک ہفتہ میں ہی رزلٹس آنے شروع ہوگئے۔ لکنت بہت کم ہو گئی۔ اور دو تین ہفتہ میں تقریبا اسی سے نوے فیصد لکنت ختم ہو گئی۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید کوئی اور بھی اس پریشانی سے گزر رہا ہو اور شاید اس کا کچھ فائدہ ہو جائے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Waqas Murtaza
About the Author: Waqas Murtaza Read More Articles by Waqas Murtaza: 2 Articles with 4242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.