پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور پلے بیک سنگراحمد رشدی کا
تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد
دکن میں عربی اور فارسی کے نامور استاد تھے احمدرشدی 24اپریل 1938ء کو حیدر
آباد دکن میں پیدا ہوئے انہوں نے اپنی تعلیم حیدر آباد دکن ہی سے حاصل کی
بعدازاں ان کا پورا خاندان 1954ء میں کراچی منتقل ہو گیا تھا۔ ابھی رشدی
بچپن میں ہی تھے کہ ان کے والد انتقال ہو گیا تھا بچپن سے ہی موسیقی کے
شوقین تھے انہوں نے پہلا گیت 1951ہندوستان کی فلم ‘‘عبرت’’ کے لیے
گایاپاکستان کی فلمی صنعت کے ایک مایہ ناز اور ورسٹائل گلوکار تھے برصغیر
پاک وہند میں رشدی کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں آواز کے
اس جادوگر نے ریڈیو پر نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی نغمگی کا یہ سفر بہت
کامیاب رہاانہوں نے اردو، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری کے علاوہ کئی زبانوں
میں گیت گائے۔ احمد رشدی کی خاصیت تھی کہ وہ جس فنکار کے لیے گاتے، اسی کی
آواز اور اسی کے انداز کو اپناتے۔ آج کے دور میں فلموں کے کئی مشہور گلوکار
رشدی کو ہی اپنا استاد مانتے ہیں انہوں نے تقریباً 583 فلموں کے لیے 5000
گانے گائے۔احمد رشدی کو مالا کے ساتھ فلموں میں 100 سے زائد دوگانے، گانے
کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں
نہیں آسکا۔
ریڈیو پر بچوں کے پروگرامز میں ان کی شرکت نے ان کو بہت زیادہ مقبول بنا
دیا۔ساٹھ کی دہائی میں ہر دوسری یا تیسری فلم میں ان کی آواز نمایاں ہو تی
تھی یو ں تو احمد رشدی ہر قسم کے گیت گانے میں ماہر تھے لیکن وہ شوخ و
چنچل،پیروڈی، کامیڈی اور چھیڑچھاڑ والے گانوں میں لاثانی تھے یوں تو
پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور ہیرو پہ ان کے گائے ہوئے گیت فلمائے گئے لیکن
ان کی آواز شہنشاہ رومانس چاکلیٹی ہیرو وخید مراد پہ خوب جچتی تھی احمد
رشدی نے وحید کے پہلے گانے’’ مجھے تم سے محبت ہے‘‘.. (ہیرا اور پتھر) اور
آخری گانے’’ بن کے مصرع غزل کا‘‘.. (ہیرو) سمیت مختلف فلموں میں وحید کے
لیے 140 سے زیادہ سولو اور دو گانے گائے۔ احمد رشدی اور وحیدمراد کی جوڑی
بھی خوب مشہور ہوئی تھی وحید مراد نے اپنی آخری فلم ’’ ہیرو‘‘جو ان کی وفات
کے بعد ریلیز ہوئی تھی اس فلم کے لئے بھی احمد رشدی نے ایک اہم گیت ریکارڈ
کروایا حالانکہ ان دنوں احمد رشدی بیمارتھے اور ان کے ڈاکٹرنے انہیں گانے
سے منع کیا ہوا تھا لیکن وحید مراد کی خواہش پہ انہوں نے گانا ریکارڈ
کروایا اس کے بول کچھ یوں تھے
بن کے مصرع غزل کا چلی آؤ نا ورنہ شاعر کا دل ٹوٹ جائیگا
تم تو روٹھ ہی گئی یونہی جانے وفا تیرا دیوانہ دنیا سے روٹھ جائے گا
اب اس گیت کی بھی ایک الگ داستان ہے جو پاکستان فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد
رکھی جائے گی جس شاعر نے یہ گیت لکھا لکھنے کے بعد انتقال فرماگئے احمد
رشدی نے یہ گیت گایا وہ بھی راہی ملک عدم ہوئے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گیت
وحید مراد پہ فلمایا گیا وہ بھی انتقال کر گئے-
احمد رشدی نے اردو پنجابی اور انگلش میں بھی گیت ریکارڈ کرائے اردوگانے ان
کے بہت مقبول ہوئے وحید مراد کے لئے انہوں نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ گیت گائے
جو کہ ایک منفرد ریکارڈ و اعزاز ہے مالا بیگم کے ساتھ ان کے سو سے زائد
گانے ہیں بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا پتا ہوگا کہ پاکستان کے قومی ترانہ
گانے والے دس گلوکاروں میں ایک نام احمد رشدی کا بھی ہے انہوں نے بچوں کے
پروگرام میں ایک گانا ’’بند روڈ سے کمیاڑی چلی رے گھوڑا گاڑی ‘‘گا کر
مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے 1955ء میں فلموں کیلئے گیت گانا شروع کئے اور
فلم ’’انوکھی ‘‘کے گانے سے شہرت حاصل کی۔ فلم ’’راز‘‘ میں زبیدہ بیگم کے
ساتھ گایا ہو ا گیت ’چھلک رہی ہیں مستیاں ‘‘بہت مقبول ہوا۔ انہیں پہلا
ایوارڈ فلم ’’سپیرن‘‘کیلئے ’’چاند سا مکھڑا گورا بدن‘‘گانے پر ملا۔ 1962ء
میں فلم مہتاب کے گانے’’گول گپے والا آیا گول گپے لایا‘‘ پر انہیں دوسرا
نگار ایوارڈ ملا جبکہ فلم ارمان کے مقبول گانے’’ اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ
کر تم‘‘ پر تیسرا نگار ایوارڈ ملا۔1967ء میں فلم احسان میں مالا کے ساتھ
رشدی کا گایا ہو اگیت ’’اے میری زندگی اے میرے ہمسفر‘‘بہت مقبول ہوا۔وحید
مراد اور شمیم آرا کی فلم دوراہا میں احمد رشدی کی آواز میں گائے ہوئے تین
گیت ’’بھولی ہوئی ہوں داستان‘‘ ،’’تمہیں کیسے بتا دوں تم میری منزل ہو‘‘اور
’’ہر اسی موڑ پر اسی جگہ بیٹھ کر‘‘ بہت مقبول ہوئے۔گلو کار احمد رشدی نے
اپنے دور کے نامور موسیقاروں نثار بزمی ، ایم اشرف ، اے حمید ، کریم شہاب
الدین ، ماسٹر عنائت حسین ، کمال احمد لال ، محمد اقبال ، روبن گوش ،خورشید
احمد ، جے اے چشتی اور دیگر کی موسیقی میں ان گنت گیت گائے۔وہ جنوبی ایشیا
کے بہترین پاپ سنگر تھے۔گلوکاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلموں میں اداکاری
کے جوہر بھی دکھائے اور انہوں نے ایک درجن فلموں میں کام کیا احمد رشدی
1980ء میں کراچی منتقل ہو گئے۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی فلمی گائیکی میں ان کے انمٹ نقوش چھوڑنے والے گیت
ہیں ان کی زندگی کے آخری ایام بہت کسمپرسی میں گزارے11اپریل 1983ء کو انہیں
دوسرا دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 44برس
تھی۔احمد رشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے. پاکستان کے صدر پرویز مشرف کی حکومت
نے رشدی کو ‘‘ستارہ ا متیا ز’’ کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ انکا نام پاکستان
میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طور پر آیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے
گائے اور وہ سارے گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں.انہوں نے فلموں میں بھی
کام کیا. رشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساتھ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی،
اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔
کئی مرتبہ انہوں نے بغیر پیسہ لئے موسیقاروں کے لیے گیت گائے۔ وہ بہت سیدھے
انسان تھے. احمد رشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے.احمد رشدی
نے پس پردہ گلوکاری میں بہت نام کمایا۔ ان کے گائے ہوئے مقبول طربیہ، المیہ
فلمی گیت اور غزلیں ان کی اعلیٰ فنی صلاحیتوں کا ثبوت ہیں۔تیس سالہ کیرئیر
میں رشدی کی مترنم اور پرتاثر آواز کا جادو سر چڑھ کر بولاپاکستان فلم
انڈسٹری میں احمد رشدی کا بڑا نام ہے ان کے ذکر کے بغیر پاکستان فلم نگرمیں
فلمی گائیگی کی تاریخ نامکمل سمجھی جائے - |