ساقی الحرمین حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

ارشادباری تعالیٰ ہے۔ یٰٓاَیُّھَاالنَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًایُّؤْتِکُمْ خَیْرًامِّمَّآاُخِذَمِنْکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ(سورۃ الانفال70)
ترجمہ :’’اے غیب کی خبریں بتانے والے !جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں ان سے فرماؤ،اگر اﷲ تمہارے دل میں بھلائی دیکھے گا تو جو مال تم سے لیا گیااس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔
***** آیت کریمہ کا شانِ نزول *****
یہ آیت کریمہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو سرکاردوعالم نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے سگے چچا ہیں۔یہ کفارِ قریش کے ان دس سرداروں میں سے تھے جنہوں نے جنگِ بدر میں لشکرِ کفار کے کھانے کی ذمہ داری لی تھی اور یہ اس خرچ کے لئے بیس اوقیہ سونا ساتھ لے کر چلے تھے لیکن ان کے ذمے جس دن کھلانا تجویز ہوا تھا خاص اسی روز جنگ کا واقعہ پیش آیا اور قتال میں کھانے کھلانے کی فرصت ومہلت نہ ملی تو یہ بیس اوقیہ سونا ان کے پاس بچ رہا۔ جب وہ گرفتار ہوئے اور یہ سونا ان سے لے لیا گیا تو انہوں نے درخواست کی کہ یہ سونا ان کے فدیہ میں شمار کرلیا جائے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے انکار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو چیز ہماری مخالفت میں صرف کرنے کے لئے لائے تھے وہ نہ چھوڑی جائے گی اور حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ان کے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کے فدیے کا بار بھی ڈالا گیا تو حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ۔یا محمد ( صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم) تم مجھے اس حال میں چھوڑو گے کہ میں باقی عمر قریش سے مانگ مانگ کر بسر کیا کروں تو حضوراکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ سونا کہاں ہے جس کو تمہارے مکہ مکرمہ سے چلتے وقت تمہاری بیوی ام الفضل نے دفن کیا تھا اور تم ان سے کہہ کر آئے ہو کہ خبر نہیں ہے مجھے کیا حادثہ پیش آئے۔ اگر میں جنگ میں قتل ہوجاؤں تو یہ تیرا ہے اور عبداﷲ اور عبیداﷲ کا اور فضل اور قثم کا (سب ان کے بیٹے تھے)ہے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ حضور پرنور مدینے کے تاجدارصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا مجھے میرے رب عزوجل نے خبردار کیا ہے۔اس پر حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ سچے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میرے اس راز پراﷲ عزوجل کے سوا کوئی مْطَّلع نہ تھا اور حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے بھتیجوں عقیل و نوفل کو حکم دیا وہ بھی اسلام لائے۔
ْ خَیْرًایُّؤْتِکُمْ خَیْرًامِّمَّآاُخِذَمِنْکُمْ جو (مال) تم سے لیا گیااس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا۔ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے پاس بحرین کا مال آیا جس کی مقدار اسی ہزار تھی تو حضورِاقدس صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے نمازِ ظہر کے لئے وضو کیا اور نماز سے پہلے ہی کل مال تقسیم کردیا اور حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اس میں سے لے لو تو جتنا ان سے اٹھ سکا، اتنا انہوں نے لے لیا۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اس سے بہتر ہے کہ جو اﷲ عزوجل نے مجھ سے لیا اور میں اس کی مغفرت کی امید رکھتا ہوں۔ اپنے مال و دولت کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے بیس اوقیہ سونے کے بدلے بیس غلام عطا کئے، وہ سب کے سب تاجر تھے اور بہت سارا مال کما کر دیتے تھے، ان میں سے جو غلام سب سے کم کما کر دیتا تھا اس کی مقدار بیس ہزار درہم تھی۔ (تفسیرخازن، سور ۃ الانفال۷۰، ۱۱۲/۲،مدارک، ص۴۲۱، بغوی، ۲۲۱/۲)
ایک مرتبہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، حضور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم !میں بہت زیر بار ہوں۔غزوہ بدر کے بعد میں نے اپنا فدیہ بھی ادا کیا اور اپنے بھتیجوں عقیل بن ابوطالب بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، نوفل بن حارث بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، کا فدیہ بھی ادا کیااس لئے مجھے کچھ عطا فر مایئے۔حضور اکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے پاس سونے چاندی کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔حضرت عبا س بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی چادر بچھائی اور اس ڈھیر سے سونا چاندی اٹھا اٹھا کر اپنی چادر میں رکھنے لگے ۔جب وہ اپنی دل کی حسرت پوری کر چکے تو گٹھڑی باندھی۔جب اس کو اٹھا کر اپنے سر پہ رکھنے لگے تو وہ اتنی وزنی تھی کہ اسے اٹھا نہ سکے۔خدمت اقدس میں عرض کی کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم !اس کے اٹھانے میں میری مدد فر مایئے۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے انکار کر دیا۔انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم !کسی اور کو حکم دیں کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے ایسا بھی کرنے سے انکار کردیا۔آخر کار انہوں نے اس میں سے کچھ نکال کر وزن کم کیا اور باقی ماند ہ کو بڑی دقت سے کسی طرح سر پہ اٹھالیا اور گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔جب تک حضرت عباس نظر آتے رہے حضور صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ان کو دیکھتے رہے اور تعجب کرتے رہے۔(ضیاء النبی،جلد۵ص:۳۲۲،۳۲۱)اس روایت کے بعدعلامہ ابن کثیررحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ طاقتوربلند قامت اورسلیم الفطرت آدمی تھے ۔اس قوت وقامت کے باعث جوکچھ انہوں نے گٹھڑی میں اٹھایاوہ چالیس ہزارسے کم نہ تھا۔(سبل الہدی ،جلد۷،ص،۸۶،ضیاء النبی)
***** حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی فضیلت *****
حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’ عباس مجھ سے ہیں اور میں عباس سے ہوں‘‘۔ (ترمذی )یہ ٖغایت محبت کے الفاظ ہیں ۔جس سے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے محبت معلوم ہوتی ہے۔
عباس مجھ سے ہیں " یعنی میرے خاص قرابتیوں میں سے ہیں یا یہ کہ میرے اہل بیت میں سے ہیں۔ علماء لکھتے ہیں کہ فضل و شرف اور شرف اور نبوت کے اعتبار سے تو آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذات گرامی اصل ہے جب کہ نسب اور چچا ہونے کے اعتبار سے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اصل ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ مذکورہ ارشاد گرامی دراصل کمال محبت و تعلق ، یک جہتی و یگانگت اور اخلاص و اختلاط سے کنایہ ہے جیسا کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم کے حق میں بھی فرمایا تھا کہ (اے علی ) میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بے انتہاسخی اورصلہ رحمی کرنیوالے تھے ۔
***** قحط سالی میں حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا آپ کے توسل سے دعامانگنا *****
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ اقدس میں جب کبھی قحط پڑتاتونمازاستسقاء کے بعدحضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے توسل (وسیلہ)سے دعاکرتے توہمیں سیرابی ملتی تھی۔الٰہی اب ہم اپنے نبی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے چچاحضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے وسیلہ سے دعاکرتے ہیں۔حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔اس دعااورتوسل کے سبب ہم سیراب ہوتے ۔(بخاری شریف)
حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عام الرمادہ(یعنی قحط وہلاکت کے سال)میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کووسیلہ بنایااوراﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعاکی ۔پھرلوگوں سے خطاب فرمایا۔اے لوگوحضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوویساہی سمجھتے تھے ۔جیسے بیٹاباپ کوسمجھتاہے۔(یعنی حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوبمنزلہ والدسمجھتے تھے)آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ان کی تعظیم وتوقیرکرتے اوران کی قسموں کوپوراکرتے ۔اے لوگو!تم بھی حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی اقتداء کرواورانہیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ۔تاکہ وہ تم پربارش برسائے۔(المستدرک اللحاکم)
امام عسقلانی نے فتح الباری میں بیان کیاہے کہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جب حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بارش کے لئے توسل کیا۔توحضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ دعاکی ’’اے اﷲ !بلائیں ہمارے گناہوں ہی کیوجہ سے نازل ہوتی ہیں ۔اورتوبہ سے ہی ٹلتی ہیں۔اس قوم نے تیرے نبی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کاوسیلہ اختیارکیاہے۔اورہمارے ہاتھ اپنے گناہوں کی توبہ کے لئے تیری بارگاہ میں اُٹھے ہوئے ہیں۔اورہماری پیشانیاں توبہ کے لئے (تیری بارگاہ میں)جھکی ہوئی ہیں۔پس توہمیں بارش عطافرما۔ان کی یہ دعاابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ آسمان پراسطرح بادل چھاگئے جیسے پہاڑہوں۔
***** نام ونسب،تعلیم وتربیت *****
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاشمارجلیل القدر،نامورصحابہ کرام میں ہوتاہے ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سگے چچا تھے ۔آپ کاتعلق عرب کے معروف قبیلہ قریش سے تھا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت واقعہ فیل سے تین سال قبل ہوئی۔(اسدالغابہ،جلد۳،۶۳،۶۰،سیراعلام النبلاء ۲،۷۸)آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابوالفضل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہے کیونکہ ان کے سب سے بڑے فرزندکانام ’’فضل ‘‘تھاانہی کی نسبت سے یہ کنیت ہے ۔اوروہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جنکانام ’’عبداﷲ‘‘ ہے بڑے تھے ۔لیکن حضرت عبداﷲ ہی ابن عباس سے مشہورہوئے اوریہی ان کے نام پرغالب آگیا۔(مدارج النبوۃ،جلد۲،۵۶۸)
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والدکانام نامی عبدالمطلب جبکہ والدہ کانام نتیلہ بنت حباب بن کلب ہے جو قبیلہ نمر بن قاسط سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ پہلی عرب خاتون ہیں جنہوں نے بیت الحرام پردیباکا غلاف چڑھایا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ پانچ سال کی عمرمبارک میں اتفاقیہ کہیں گم ہو گئے تھے ۔تلاش کے باوجودنہ مل سکے۔ توآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ نے منت مانی کہ اگر میرا بیٹا مل جائے گا تو میں بیت الحرام پرریشم کا غلاف چڑھاؤں گی۔چنددن بعدآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مل گئے تو آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ منت پوری کی۔ اورکعبۃ اﷲ پرانتہائی قیمتی غلاف چڑھایا۔یہ خانہ کعبہ شریف پرپہلاغلاف تھا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بچپن ہی سے علم انساب،علم ادیان اورعلم تاریخ میں مہارت حاصل کی ۔اپنے والدگرامی کی سرپرستی میں خانہ کعبہ کی خدمات میں ہمہ وقت مصروف عمل رہاکرتے تھے ۔اورسولہ سال کی عمرمیں خانہ کعبہ کی نئے سرے سے تعمیرفرمائی۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کانکاح ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہن حضرت لبانۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے ہوا۔جوانتہائی معززخاتون تھیں۔ابن سعدنے لکھاہے کہ حضرت لبانۃ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہاجنکی کنیت ام الفضل ہے۔یہ وہ پہلی خاتون ہیں جوحضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے بعدمسلمان ہوئیں۔
***** حلیہ مبارک *****
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ درازقداورخوبروتھے۔بڑے حسین وجمیل وگیسووالے اورطویل القامت تھے۔منقول ہے کہ لوگوں کاقدحضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے کندھوں تک پہنچتاتھا۔اورحضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاقدحضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے کندھوں تک پہنچتاتھا۔اورحضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاقدحضرت عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے کندھوں تک بعض روایتوں میں وصف میں متعدل بھی لکھاہواہے۔(مدارج النبوۃ،جلددوم،۵۶۸)
***** عمارہ اورسقایتہ کے اہم مناصب کاسپردہونا *****
حضرت عباس رضی اﷲ عنہ زمانہ جاہلیت میں بھی مکہ اور قریش میں زبردست اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ اور ایک بڑے سردار تسلیم کئے جاتے تھے۔" عمارہ " (خانہ کعبہ کی دیکھ بھال) اور سقایتہ‘‘( حاجیوں کے خوردونوش کاانتظام) کے اہم مناصب ان کے سپرد تھے۔جوآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کووراثت میں ملے تھے۔جب مکہ فتح ہواتوآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے یہ دونوں عہدے انہی کے پاس باقی رکھے۔
***** قبول اسلام *****
حضرت سیدناعباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں’’یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم !مجھے توآپ کی نبوت کی نشانیوں نے آپ کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی ۔یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم!میرے ایمان لانے کاایک سبب یہ بھی ہے کہ میں نے دیکھاآپ گہوارے(پنگھوڑے )میں چاندسے باتیں کرتے اوراپنی انگلی سے اسکی طرف اشارہ کرتے اورجس طرف اشارہ فرماتے چانداسی طرف جھک جاتا۔سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایامیں چاندسے باتیں کرتاتھا۔اورچاندمجھ سے باتیں کرتاتھااوروہ مجھے رونے سے بہلاتاتھااوراس کے عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آوازکوسناکرتاتھا۔(الخصائص الکبریٰ ،جلداوّل صفحہ۱۱۶،بیہقی،ابن عساکر،خطیب)اعلیٰ حضرت مجدددین وملت الشاہ امام احمدرضاخان رحمۃ اﷲ علیہ کی روح تڑپی اورپکاراُٹھے۔
چاندجھک جاتاجدھرانگلی اُٹھاتے مہدمیں کیاہی چلتاتھااشاروں پرکھلونانورکا
***** محبت مصطفی وادب مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم *****
حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے بہت محبت فرماتے تھے ۔ہجرت مدینہ سے پہلے قیمتی مشوروں سے نوازتے محبت کایہ عالم تھاکہ چچا ہونے کے باوجودسرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کاغیر معمولی ادب احترام کرتے تھے۔ ایک دن کسی نے ان سے سوال کیا انت اکبر او النبی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم (آپ بڑے ہیں یاسرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ؟ تو انہوں نے جواب دیا ہو اکبر وانا اسن (بڑے تو آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ہی ہیں ہاں عمر میری زیادہ ہے،بس میری پیدائش پہلے ہوگئی ہے)۔حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسلام تو بہت پہلے قبول کر لیا تھا لیکن بعض مصالح کے تحت اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے چنانچہ جنگ بدر میں وہ بڑی کراہت کے ساتھ اور مجبوری کے تحت مشرکین مکہ کے ساتھ شریک تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام سے فرما دیا تھا کہ جس شخص کا سامنا عباس رضی اﷲ عنہ سے ہو جائے وہ ان کو قتل نہ کرے کیونکہ وہ مجبوراً اس جنگ میں مشرکین مکہ کی طرف سے شریک ہیں جنگ کے خاتمہ پر حضرت عباس رضی اﷲ عنہ بھی قیدیوں میں شامل ہوئے اور ابوالیسیر بن کعب بن عمر نے ان کو قید کیا۔ پھر انہوں نے فدیہ (مالی معاوضہ ) ادا کر کے رہائی حاصل کی اور مکہ واپس آ گئے بعد میں وہاں سے باقاعدہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے۔
***** اہل بیت کی محبت ،ایمان کی معراج *****
حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اوروہ باہم گفتگوکررہے ہوتے توگفتگوروک دیتے ہم نے حضورنبی اکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ میں اس امرکی شکایت کی توآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا’’لوگوں کوکیاہوگیاہے جب میرے اہل بیت سے کسی کودیکھتے ہیں توگفتگوروک دیتے ہیں؟ اﷲ رب العزت کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا۔جب تک ان سے اﷲ تعالیٰ کے لئے اورمیرے قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔(ابن ماجہ،والحاکم فی المستدرک)
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم میں عرض کیایارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم!قریش جب آپس میں ملتے ہیں توحسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اورجب ہم سے ملتے ہیں توایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی جذبات سے عاری چہروں کے ساتھ)حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔حضورنبی اکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم یہ سن کرشدیدجلال میں آگئے اورفرمایا۔اس ذات کی قسم !جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا۔جب تک اﷲ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اورمیری قرابت کی خاطرتم سے محبت نہ کرے۔ایک روایت میں ہے کہ فرمایا’’خداکی قسم کسی شخص کے دل میں اسوقت تک ایمان داخل نہ ہوگا۔جب تک وہ اﷲ تعالیٰ اورمیری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے ۔(مسنداحمدبن حنبل،سنن نسائی،بیہقی شعب الایمان،دیلمی مسندفردوس)
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ میں آئے اورکوئی بات جوانہوں نے لوگوں سے سنی تھی(وہ خوداس پربڑے رنجیدہ تھے )اس بات کی خبرحضوراکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کودی ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اسی وقت منبرپرکھڑے ہوئے اورفرمایا’’میں کون ہوں؟سب نے عرض کیا۔آپ اﷲ کے رسول ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا۔میں محمدبن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہوں۔اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کوپیداکیااوراس مخلوق میں سے بہترین مخلوق کے اندرمجھے پیدافرمایااورپھراس بہترین مخلوق کے دوحصے (عرب وعجم)کی اوران دونوں میں سے بہترین حصہ(عرب)میں مجھے رکھا۔پھراﷲ تعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے ۔اوران میں سے بہترین قبیلہ (قریش)کے اندرمجھے رکھا۔اورپھراس بہترین قبیلہ کے گھربنائے تومجھے بہترین گھراورنسب (بنوہاشم)میں رکھا۔(سنن ترمذی)

***** خلفائے راشدین کاآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کااکرام کرنا *****
سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے دنیاسے پردہ فرماجانے کے بعدخلفائے راشدین نے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کابڑااکرام کیا۔اہم معاملات میں آپ سے مشورہ لیتے اوراس پرعمل کرتے ۔امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اموال غنیمت بحساب درجات تقسیم کرنے کاارادہ فرمایااوراس کے لئے ایک رجسٹرتیارکیا۔حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم نے مشورہ دیاکہ اوّل اس میں ا پنانامی گرامی لکھیں ۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایامیں کسطرح اوّل نام لکھوں کہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عم رسول صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ہم میں موجودہیں۔چنانچہ سب سے پہلے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کااسم گرامی لکھاگیا۔اورسب سے بڑھ کرحصہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے مقررکیاگیا۔
***** حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان اور اس سے متصل پرنالہ *****
سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے مسجدنبوی کے قبلہ کی جانب ایک قطعہ زمین نشان زدفرمادیا۔حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مکان تعمیرکیا۔جب تعمیرسے فارغ ہوئے تواشعارکہے ۔ان کااردومفہوم یہ ہے ۔یعنی میں نے اس مکان کوکچی اینٹوں،پتھروں،لکڑیوں سے بنایاہے ۔اس کے اوپرپرندوں کے بیٹھنے اوراڑنے کی جگہ ہے۔اے ہمارے پروردگار!اس گھرمیں بسنے والوں کے لئے برکت نازل فرما۔سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے بھی دعافرمائی ۔’’اے اﷲ!اس گھرمیں برکت عطافرما‘‘۔اس گھرکاپرنالہ خودسرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے کندھے پرچڑھ کرباندھاتھا۔(وفاالوفاء،ج۲،۴۰۲)حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کامکان منبرکی طرف سے پانچویں ستون اورباب السلام کی طرف سے دوسرے ستون کے درمیان واقع تھا۔اس مکان کے تین حصے ہوئے۔ایک حصہ حضرت عمربن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی توسیع،دوسراحصہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی توسیع کے دوران مسجدنبوی میں شامل ہوا۔تیرہ ہاتھ لمباایک حصہ باقی رہ گیاتھا۔جس کے بارے میں روایتوں میں آتاہے کہ اس حصے میں حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے مویشیوں کوباندھاکرتے تھے۔پہلے اس حصے کومروان بن حکم نے اپنے مکان میں شامل کیا۔پھرجب حضرت عمربن عبدالعزیزنے مسجدکی توسیع فرمائی توحضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ والے تیرہ ہاتھ لمبے حصے کومروان کے مکان سے الگ کرکے مسجدمیں داخل کرلیا۔(ملخص ازوفاء الوفاء،جلد۲،۵۱۸،اخبارمدینۃ الرسول)
امیرالمومنین سیدناحضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ فرمایا تو آس پاس کے بعض مکانات خرید لیے، جنوبی طرف حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان مسجدنبوی سے متصل تھا۔امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا۔’’ اے ابو الفضل ! مسلمانوں کی مسجد تنگ ہوگئی ہے توسیع کیلئے میں نے آس پاس کے مکانات خرید لیے ہیں ، آپ بھی اپنا مکان فروخت کردیں ، اور جتنا معاوضہ کہیں میں بیت المال سے ادا کروں گا۔ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا’’میں یہ کام نہیں کرسکتا‘‘۔ دوبارہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا’’ تین باتوں میں سے ایک بات مان لیں‘‘ یا تواسے فروخت کردیں اور معاوضہ جتنا چاہیں لے لیں، یا مدینہ منورہ میں جہاں آپ کہیں وہاں آپ کیلئے مکان بنوا دوں، یا پھر مسلمانوں کی نفع رسانی اور مسجد کی توسیع کے لیے وقف کردیں، حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا۔ مجھے ان میں سے کوئی بات بھی منظور نہیں ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے دیکھامسئلہ حل ہونے والا نہیں ۔ تو آپ جسے چاہیں فیصل مقرر کردیں، وہ ہمارے اس معاملہ کا تصنیفہ کردے۔ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا۔ میں حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فیصل بناتا ہوں۔ دونوں اُٹھ کرحضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان پر جاپہنچے حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دیکھا تو ان کے اعزاز میں تکیہ وغیرہ لگوایا اور دونوں بزرگوں کو بٹھا لیا۔حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا۔ ابو الفضل! آپ اپنی بات کہیے ۔ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا’’ یہ زمین جس پر میرا مکان ہے خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی عطا کردہ ہے ۔ یہ مکان میں نے بنایا اور خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم بنفس نفیس اس کی تعمیر میں شریک رہے۔ بخدا !یہ پرنالہ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے ہاتھ مبارک کا لگایا ہوا ہے۔ اس کے بعدامیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی بات کی۔ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا۔ آپ دونوں اجازت دیں تو میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ سناؤں۔ دونوں بزرگوں نے عرض کیا بیشک ہمیں سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کافرمانِ مبارک سنایئے۔
حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک گھر تعمیر کروجس میں مجھے یاد کیا جائے ۔ اور میری عبادت کی جائے۔ چنانچہ جہاں پر مسجد اقصیٰ واقع ہے وہاں من جانب اﷲ زمین نشان زدکردی گئی۔ نشان مربع نہ تھا ایک گوشہ پر ایک اسرائیل کا مکان تھا حضرت داؤد علیہ السلام نے اس سے بات کی اور کہا اس مکان کو فروخت کردوتاکہ اﷲ کا گھر بنایا جاسکے ۔ اس نے انکار کردیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے سوچا۔ یہ گوشہ زبردستی لے لیا جائے اﷲ تعالیٰ کا عتاب نازل ہوا۔اے داؤد! میں نے آپ کو اپنی عبادت گاہ بنانے کے لئے کہا تھا اور آپ اس میں زورو زبردستی کو شامل کرنا چاہتے ہیں، یہ میری شان کے خلاف ہے ۔ اب آپ میرا گھر بنانے کا ارادہ ترک کردیں۔
امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا’’ میں جس ارادے سے آیا تھا آپ نے اس سے بھی سخت بات کہہ دی ‘‘امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ ان کو مسجد نبوی شریف میں لے آئے۔ وہاں کچھ صحابہ کرام حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے تھے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا میں تمہیں اﷲ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ اگر کسی نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے حضرت داؤد علیہ السلام کے بیت المقدس تعمیر کرنے والی حدیث کو سنا ہے تواسے ضروربیان کرے۔ صحابی رسول حضرت ابوذرغفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے بھی سنا ہے۔اب حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ،امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا،اے عمر(رضی اﷲ تعالیٰ عنہ )! آپ مجھ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی حدیث کے بارے میں تہمت دیتے ہو ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بخدا، اے ابو المنذر! میں نے آپ پر کوئی تہمت نہیں لگائی ۔ میں چاہتا تھا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی یہ حدیث بالکل واضح ہوجائے ۔ پھر امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مخاطب ہوئے اور کہا۔ جایئے میں اب آپ سے آپ کے مکان کے بارے میں کچھ نہ کہوں گا۔ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کہا’’ جب آپ نے ایسی بات کہہ دی تو اب میں اپنا مکان توسیع مسجد کے لئے بلامعاوضہ پیش کرتا ہوں۔ لیکن اگر آپ حکماً لینا چاہیں گے تو نہیں دوں گا۔ اس کے بعد امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ میں دوسری جگہ پر بیت المال کے خرچ سے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے مکان بنوا دیا۔(طبقات ابن سعدحصہ سوم،صفحہ83)
ایک روایت کے مطابق امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وہ پرنالہ اکھاڑنے کا حکم دیا تھا تو حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہا یہ پرنالہ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا یہ بات سن کرامیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا تو آپ میری پیٹھ پر سوار ہوکر یہ پرنالہ وہیں لگادیجیے جہاں پرسرکاردوعالم نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے لگایا تھا۔
عثمانیہ دور کے بعد بھی پرنالہ کی جگہ کو قائم رکھا گیا جس پر سورۃ البقرہ کی آیات کریمہ تحریر کی گئی ہے۔ جو اس واقعہ کی یاددہانی بھی کرواتی ہے اور درس بھی دیتی ہے۔و مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍیَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَتَزَوَّدُوْافَاِنَّ خَیْرَالزَّادِالتَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ(سورۃ البقرہ۱۹۷) ’’اور تم جو نیکی کرتے ہو اﷲ اس کو جانتا ہے۔ اور زادِ راہ لے لیا کرو اور بہترین زادِ راہ پرہیزگاری ہے۔اور اے عقل مندوں مجھ سے ڈرو‘‘۔
(صحابہ رضوان اﷲ اجمعین کے مکانات ص 68،وفاء الوفاء بااخباردارالمصطفیٰ ص 462)
***** صلوٰ ۃ التسبیح *****
ان نوافل کی تعلیم سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اپنے چچاحضرت عباس بن عبدالمطلب کودی۔سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا’’اے عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ،اے میرے چچا!کیامیں آپ کوعطانہ کروں ؟کیامیں آپ کوبھلائی نہ پہنچاؤں ؟کیامیں آپ کونہ دوں؟کیامیں آپ کودس ایسی باتیں نہ بتاؤں جب آپ ان پرعمل کرنے لگیں تواﷲ تعالیٰ آپ کے اگلے،پچھلے،نئے،پرانے،جانے،انجانے،چھوٹے ،بڑے،چھپے اورکھلے سارے گناہ معاف فرمادے گا۔
اوریہ فرمایاکہ اس نمازکوپڑھنے والوں کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں آقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا اس کوروزانہ پڑھوورنہ جمعہ کے دن پڑھواگریہ نہ ہوسکے تومہینہ میں ایک بارپڑھویہ بھی نہ ہوسکے توسال میں ایک بارپڑھواگریہ بھی نہ ہوسکے توعمرمیں ایک بارپڑھو۔وہ دس باتیں یہ ہیں۔(صلوۃ التسبیح کی نمازیوں اداکی جائے)۔
چارکعت نماز(نفل) کی نیت باندھیں اورثناء کے بعدپندرہ دفعہ یہ تسبیح (سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ ولاالٰہ الااللّٰہ واللّٰہ اکبر)پڑھیں پھرسورۃ الفاتحہ (الحمدشریف)اورسورۃ پڑھ کررکوع میں جانے سے پہلے ہاتھ باندھے دس دفعہ یہی تسبیح پڑھیں پھررکوع میں جائیں اور سبحان ربی العظیم کہنے کے بعددس باریہی تسبیح پڑھیں پھررکوع سے اٹھیں اورربنالک الحمدکے بعدکھڑے کھڑے دس بارپھر سجدے میں جائیں اورسبحان ربی الاعلیٰ کے بعددس باریہی تسبیح پڑھیں پھرسجدے سے اٹھ کربیٹھیں اورجلسہ میں اﷲ اکبرکے بعددس باراس کے بعددوسراسجدہ کریں اورسبحان ربی الاعلیٰ کے بعددس باراب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوں اورپندرہ باریہی تسبیح پڑھ کر باقی سب کچھ پہلی رکعت کی طرح اس میں بھی پڑھیں اورجب دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعدالتحیات کے لیے بیٹھیں توتشھداوردرودشریف پڑھنے کے بعدتیسری رکعت کے لئے اٹھیں اورپہلی رکعت میں ثناء کے بعدپندرہ باراسی طرح چاروں رکعتیں پوری کریں،واضح رہے ہررکعت میں 75باریہی تسبیح پڑھنی ہے اورچاروں رکعتوں میں 300مرتبہ ہوگی۔
***** انتقال پُرملال *****
حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہدخلافت میں ان کی شہادت سے دوسال پہلے بارہ یاچودہ ماہ رجب یارمضان المبارک ۲۳یا۳۳ہجری میں ہوئی۔اس وقت عمرمبارک اٹھاسی یانواسی سال تھی ۔بتیس سال زمانہ اسلام میں رہے۔اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزندحضرت عبداﷲ بن عباس نے قبرمیں اتارا۔(مدارج النبوۃ ،جلددوم۵۷۰)انتقال سے پہلے بینائی سے معذورہوگئے تھے ۔(اسدالغابہ،سیراعلام النبلاء) روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے وقت کے ستر غلام آزاد کئے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے تمام چچاؤں میں سب سے کم عمرتھے۔(مدارج النبوۃ)
اﷲ تعالیٰ کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔

 

Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 272774 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.