پلاسٹک کے ان لوٹوں کی ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ انہیں کوئی لات مارے تو بھی کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا نہ لوٹے کو اور نہ ہی لات مارنے والے کو. خدا جانے بات کیا ہے لیکن ایک بات اور بھی ہے کہ پلاسٹک کے لوٹے گربھی جائے تو اتنی لچک رکھتے ہیں کہ اچھل کر یکدم واپس اپنی ہی جگہ پر آجاتے ہیں اس لئے لوگ بھی ان لوٹوں کی پروا نہیں کرتے ..." />

لوٹا..یعنی کوزہ.. لوٹا لوٹا ہی رہا..

اور پھر وقت نے تیزی دکھادی پلاسٹک کے لوٹے آگئے یہ واحد لوٹے ہیں جن کی قیمت بہت کم ہے لیکن ان کا استعمال ہر جگہ پر ہے استنجا سے لیکر وضو والی جگہ اور گھروں کے مین گیٹ کے قریب یہی لوٹے کھڑے میرا مطلب ہے پڑے نظر آتے ہیں کم قیمت والے ان لوٹوں کی اہمیت تو اتنی نہیں لیکن ان لوٹوں کو اپنی جگہ بنانی اور اوقات دکھانے کا طریقہ بھی آتا ہے لیکن پھر بھی یہ لوٹے ہی رہے یہ الگ بات کہ انہیں کو ئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہر جگہ پر نلکی والی ٹوٹی لگی ہوئی ہیں اس لئے اگر پلاسٹک کا لوٹا نہ بھی ہو تو لوگ ہاتھ سے کام چلا لیتے ہیں یعنی لوٹوں کی اب اتنی اہمیت لوگوں کے ذہنوں میں نہیں ہے لیکن ایک بات ان لوٹوں کی ہے کہ پلاسٹک کے ہوتے ہوئے لوگ انہیں کہیں پر بھی لے جاتے ہیں اس لئے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ کہیں پر اگر لے جانیوالے سے گر بھی جائے تو دھڑم کے بجائے "ٹنگ"کی آواز آجاتی ہے یعنی آواز بھی بدل گئی ہیں اس لئے لوگ لوٹوں کے آنے جانے پر پروا بھی نہیں کرتے . بعض اوقات انہی لوٹوں کو دوسری جگہ پہنچانے کیلئے لوگ لات بھی مارتے ہیں. یعنی انہیں ڈر نہیں ہوتا کہ ٹوٹ جائے اور اگر ٹوٹ بھی جائے یا کوئی اٹھا لے جائے تو کوئی پروا نہیں کم قیمت یہ یہ لوٹے پھر آجائینگے..
پلاسٹک کے ان لوٹوں کی ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ انہیں کوئی لات مارے تو بھی کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا نہ لوٹے کو اور نہ ہی لات مارنے والے کو. خدا جانے بات کیا ہے لیکن ایک بات اور بھی ہے کہ پلاسٹک کے لوٹے گربھی جائے تو اتنی لچک رکھتے ہیں کہ اچھل کر یکدم واپس اپنی ہی جگہ پر آجاتے ہیں اس لئے لوگ بھی ان لوٹوں کی پروا نہیں کرتے ...

لوٹا لوٹا ہی رہا..

لوٹا یعنی کوزہ.. لوٹا ہی ہوتا ہے خواہ وہ استنجا کی جگہ پر رکھو ، وضو والی جگہ پر یا ڈرائینگ روم میں مہمانوں کے آگے رکھے جانیوالے لوٹے.. جہاں بھی جائیں گے لوٹے ہی کہلائے جائینگے ان کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا.. اس لئے تو کہتے ہیں لوٹا لوٹا ہوتاا ہے اور یہ اچھی بات ہے میرے لوٹے کی جب بھی جہاں بھی گیا واپس میرے پاس لوٹا ہی آیا..

لوٹا جسے عرف عام میں کوزہ کہا جاتا ہے آج کل پھر لوٹوں کا دور ہوگیا ہے لوٹا جو زمانہ قدیم سے انسان کیساتھ جڑا ہوا ہے کیونکہ ابتداء سے انسان مختلف ضروریات و حوائج کیلئے اس کا استعمال کرتا آرہا ہے ویسے تو لوٹے کی تاریخ کے بارے میں کسی کو معلومات میسر نہیں لیکن چونکہ لوٹا جسم کی صفائی کیلئے استعمال ہوتا آرہا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ بھی تاریخی نوعیت کا ہے .. لوٹے کا ہمارے ہاں استعمال دو طرح کا ہے استنجا اور وضو کیلئے . یعنی دو طرح کے کام لوٹوں سے لئے جاتے ہیں ایک استنجا والے لوٹے اور دوسرے وضو والے لوٹے جو ہم نے بچپن میں اپنے گھروں سے لیکر مساجد میں اور ہر جگہ پر دیکھے ہیں -
استنجا والے لوٹے کچھ بھی کرلیں یہ ایک مخصوص جگہ پر ہی پڑے رہتے ہیں اور اس کا کام صرف استنجا تک ہی محدود ہتا ہے رہی وضو والے کوزے یعنی لوٹے تو یہ ذرا باعزت ہوتے ہیں اس کی صفائی پر لوگ توجہ دیتے ہیں بہ نسبت استنجا والے لوٹوں کے .لیکن چونکہ ان کا کام بھی صفائی کا ہوتا ہے . صفائی کیلئے استعمال کئے جانیوالے لوٹے انسان کی بہت ساری جگہوں اور رازوں کے امین ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایسی جگہوں پر پائے جاتے ہیں جہاں پر ہر کوئی نہیں ہوتا اس لئے کوئی بھی کتنا ہی ٹاپ پر پہنچ جائے محتاج وہ لوٹوں کا ہی ہوتا ہے اور اس کا بعض اوقات یہ لوٹے یعنی کوزے غلط فائدہ بھی اٹھاتے ہیں..

ایک زمانے میں لوٹے یعنی کوزے مٹی کے بنائے جاتے تھے گول مٹول اور کسی خاص ڈیزائن کے بنائے گئے ان لوٹوں کی اہمیت اس وقت زیادہ ہوتی تھی کیونکہ ایک تو ان کی ماہیت ایسی ہوتی تھی جس پر باہر کا اثر کم ہی پڑتا اور اپنے اندر آنیوالے کسی بھی چیز کو اپنی ہیت کے مطابق یعنی ٹھنڈا رکھتے. چونکہ انسان نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اس لئے یہ لوٹے یعنی مٹی والے لوٹے استنجا سے لیکر وضو تک کیلئے استعمال کئے جاتے تھے ان لوٹوں پر زیادہ توجہ بھی دی جاتی تھی کیونکہ یہ مٹی کے ہوتے تھے اس لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کیلئے بہت کم استعمال کئے جاتے کیونکہ لے جانیوالے شخص کو خیال کرنا پڑتا کہ کہیں گر کر ٹوٹ ہی نہ جائے. اور بیشتر اوقات مٹی کے یہ کوزے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہوئے ٹوٹ بھی جاتے اورپھر اسے لے جانیوالا پچھتاتا کہ اس لوٹے کو دوسری جگہ پر لے جانے کی کوشش کیوں کی.کیونکہ یہ لوٹے بھاری بھی ہوتے اس لئے اٹھانے کیلئے ہمت کی بھی ضرورت ہوتی.. مٹی کے ان لوٹوں کی چوری بہت کم ہوتی تھی..
پھر وقت تبدیل ہوگیا اور انسان ترقی یافتہ ہوگیا وقت کی تیز رفتاری نے لوٹوں پر بھی اثر ڈال دیا اور سلور اور پیتل اور سٹیل کے لوٹے بننے شروع ہوگئے ان لوٹوں کی اہمیت مٹی والے لوٹوں کے مقابلے میں زیادہ تھی کیونکہ مہنگے ہوتے تھے اس لئے لوگ اس کی قدر زیادہ کرتے لیکن پھر بھی ان کا کام صفائی تک ہی محدود رہتا . یہ لوٹے البتہ استنجا اور وضو والی جگہ سے ڈرائنگ رومز اور کچن تک پہنچ گئے لیکن پھر بھی ان کی اوقات نہیں بدلی البتہ جگہ کی تبدیلی کیساتھ چونکہ لوگوں کا رجحان کم ہی رہا اور ایسی جگہوں پر جہاں پر انسان کی کمزوریاں . جسم لوٹوں کو نظر آنا کم ہوگئے اس لئے لوٹوں کی بدمعاشی نہیں چلی اور یہ صفائی تک ہی محدود رہے..

یہی لوٹے خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں اور افغانستان کے لوگوں نے استعمال بہت کئے اور بیٹھک اور ڈرائنگ رومز میں مہمانوں کی ہاتھوں کی صفائی بیٹھے بیٹھے کی جاتی تھی اس لئے لوگ ہاتھوں میں لوٹا لئے آتے اور مہمان ہاتھ دھو لیتے دیر اور ملاکنڈ ایجنسی کے بعض علاقوں میں یہ رواج ابھی بھی ہے لیکن چونکہ یہ لوٹے مہنگے ہوتے ہیں اس لئے اب الماریوں کی زینت بن گئے ہاں ان لوگوں کے کہیں آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ گرنے کی صورت میں ٹوٹ تو نہیں جاتے البتہ "دھڑم " کی آواز آجاتی اس لئے لوگ ان لوٹوں کی آوازوں سے بھی ڈرتے اور ان کا خیال کرتے کہ مہنگے لوٹے ہیں نقصان نہ ہو جائے. ان لوٹوں پر توجہ بھی لوگ دیتے اور اس کی صفائی بھی خوب کی جاتی تھی اس لئے ان لوٹوں کی جگہ بھی الماری ہوتی اس لئے یہ لوٹے بھی کہیں آنے جانے سے گریز کرتے کیونکہ خوبصورتی کیلئے استعمال ہوتے.

سلور اور پیتل کے یہ لوٹے مٹی کے لوٹوں کے مقابلے میں زیادہ قیمتی ہوتے لیکن انہیں کہیں پر بھی آسانی سے لے جایا جاسکتا کیونکہ ہلکے ہوتے.. البتہ ایسے لوٹوں کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے کیونکہ ان کی قیمت زیادہ تھی..اس لئے ان لوٹوں کی چوری بہت زیادہ ہوتی تھی..

اور پھر وقت نے تیزی دکھادی پلاسٹک کے لوٹے آگئے یہ واحد لوٹے ہیں جن کی قیمت بہت کم ہے لیکن ان کا استعمال ہر جگہ پر ہے استنجا سے لیکر وضو والی جگہ اور گھروں کے مین گیٹ کے قریب یہی لوٹے کھڑے میرا مطلب ہے پڑے نظر آتے ہیں کم قیمت والے ان لوٹوں کی اہمیت تو اتنی نہیں لیکن ان لوٹوں کو اپنی جگہ بنانی اور اوقات دکھانے کا طریقہ بھی آتا ہے لیکن پھر بھی یہ لوٹے ہی رہے یہ الگ بات کہ انہیں کو ئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہر جگہ پر نلکی والی ٹوٹی لگی ہوئی ہیں اس لئے اگر پلاسٹک کا لوٹا نہ بھی ہو تو لوگ ہاتھ سے کام چلا لیتے ہیں یعنی لوٹوں کی اب اتنی اہمیت لوگوں کے ذہنوں میں نہیں ہے لیکن ایک بات ان لوٹوں کی ہے کہ پلاسٹک کے ہوتے ہوئے لوگ انہیں کہیں پر بھی لے جاتے ہیں اس لئے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ کہیں پر اگر لے جانیوالے سے گر بھی جائے تو دھڑم کے بجائے "ٹنگ"کی آواز آجاتی ہے یعنی آواز بھی بدل گئی ہیں اس لئے لوگ لوٹوں کے آنے جانے پر پروا بھی نہیں کرتے . بعض اوقات انہی لوٹوں کو دوسری جگہ پہنچانے کیلئے لوگ لات بھی مارتے ہیں. یعنی انہیں ڈر نہیں ہوتا کہ ٹوٹ جائے اور اگر ٹوٹ بھی جائے یا کوئی اٹھا لے جائے تو کوئی پروا نہیں کم قیمت یہ یہ لوٹے پھر آجائینگے..

پلاسٹک کے ان لوٹوں کی ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ انہیں کوئی لات مارے تو بھی کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا نہ لوٹے کو اور نہ ہی لات مارنے والے کو. خدا جانے بات کیا ہے لیکن ایک بات اور بھی ہے کہ پلاسٹک کے لوٹے گربھی جائے تو اتنی لچک رکھتے ہیں کہ اچھل کر یکدم واپس اپنی ہی جگہ پر آجاتے ہیں اس لئے لوگ بھی ان لوٹوں کی پروا نہیں کرتے ...

انتخابات کیلئے میدان سجنے کو ہے اور ایک سیاسی پارٹی سے دوسری سیاسی پارٹیوں میں جانے والوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے نئے دعوے کئے جارہے ہیں عوام کی خدمت اور اسلام کی خدمت. ہر ایک کو حق حاصل ہے موجودہ حالات میں کسی بھی سیاسی پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانے والا اپنے لوٹے ہونے کا خود ذمہ دار ہے.. مضمون نگار نے صرف لوٹوں پر بات کی لیکن پھر بھی سیاسی لوٹوں سے مماثلت اتفاقیہ تصور کی جائے ..
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 423105 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More