اس وقت قاضی صاحب کی کیفیت بڑی
دلچسپ معلوم ہوتی ہے ایک وقت تو وہ جے یو آئی (ایف) کو حکومت سے علیحدگی
اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے مگر اب جب کہ جے یو آئی نے کسی حد تک حکومت
سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اب قاضی صاحب کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ جماعت
اسلامی کی سربراہی سے علیحدگی کے بعد اگر ایم ایم اے کے باقاعدہ خاتمہ اور
کسی نئے سیاسی الائنس کا اعلان مذہبی جماعتیں کرتی ہیں تو قاضی صاحب کی کیا
حیثیت ہوگی اس کا تعین کرنا ابھی واقع ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت سے
علیحدگی کی اہم وجوہات میں سے ایک قاضی صاحب کا اپنی صحت اور جماعت کی
قیادت نسبتاً جوان ہاتوں میں دینا تھا تو یہی باتیں ایم ایم اے کےلیے
کیونکر سوچی نہیں جاسکتیں اور کیسے قاضی صاحب جو جماعت جیسی ایک جماعت کی
قیادت مزید نا کرسکے وہ کیسے ایم ایم اے یا اس سے ملتے جلتے ایک بڑے الائنس
کی قیادت کر پائیں گے۔
اور کیونکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین کے مسئلے کے بعد مولانا صاحب
کے انتہائی طاقتور رکن اسمبلی اعظم سواتی صاحب کو جس طرح وزیراعظم صاحب نے
برطرف کردیا تو مانو مولانا صاحب کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں پیدا ہوگئیں۔
اور جس اعتماد سے مولانا صاحب حکومتی الائنس میں دوبارہ داخلے کی ہر خبر کو
مسترد کرتے چلے آرہے ہیں وہ تو ظاہر ہے کیونکہ مولانا صاحب کو قومی اسمبلی
میں اپنی سات نشستوں کے مقابلے میں وفاقی تین وزارتوں اور پانچ قائمہ
کمیٹیوں کی چیئرمین شپ ہونے کے باوجود حکومت کا ساتھ چھوڑ دینا ظاہر ہے “جز
کے بجائے کل“ یعنی چھوٹے حصے کے بجائے بہت زیادہ حصے کو حاصل کرنے کی خواہش
نے مولانا صاحب کو یہ باور کروادیا ہے کہ حکومتی اتحاد سے سب سے پہلے
علیحدگی کے نتیجے میں اگلے حکومتی سیٹ اپ میں ان کےلیے ن لیگ کے ساتھ
الائنس بنانے میں زیادہ فائدہ حاصل ہونے کی امید ہے کہ ن لیگ نسبتا پی پی
پی کے مقابلے میں نیم مزہبی نیم سیاسی جماعتوں کے لیے زیادہ اٹریکشن رکھتی
ہے وہ تو ن لیگ کی حد سے کم نشستیں تھیں اور مولانا صاحب کا ادراک تھا کہ
انہوں نے ٢٠٠٨ کے انتخابات میں ن لیگ کی کمزور پوزیشن کو بھانپتے ہوئے
موجوں کے ساتھ بہنے کا فیصلہ کیا۔
یاد رہے نومبر میں سعودی عرب میں حجاج کے لئے ناکافی انتظامات پر وفاقی
وزیر مذہبی امور کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا اور سب سے پہلے
جمعیت علماء اسلام کے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی نے ان پر
بدعنوانی کا الزام عائد کیا جس پر حامد سعید کاظمی نے انہیں ہرجانے کا نوٹس
بھی بھجوایا اور ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ دریں اثناء سپریم
کورٹ نے بھی اس معاملے پر از خود نوٹس لے لیا
دوسری جانب حامد سعید کاظمی اور اعظم سواتی کے دوران میڈیا جنگ جاری رہی
اور آئے دن نئے نئے الزامات ایک دوسرے پر عائد کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی
دوران وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دونوں وزراء کو بیان بازی ترک کرنے
کا مشورہ دیا تاہم بات نہ بنی ۔ اور بالاخر منگل کو وزیر اعظم سید یوسف رضا
گیلانی نے دونوں وزراء کو برطرف کر دیا ۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں جمعیت علماء اسلام پہلے ہی اپنے پرانے اتحادیوں
کے دباو پر مناسب موقع کا انتظار کررہی تھی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی
چیرمین شپ کے مسئلے پر بھی جو یو آئی ایف کی بات مان لی گئی تو حکومت سے
علیحدگی کا کوئی سلسلہ نہ بن سکا مگر اب اپنے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم
سواتی کی برطرفی پر بظاہر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے حکومت سے فوری اور
مستقل علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
یاد رہے موجودہ حکومت میں جے یو آئی کا انتہائی بھر پور حصہ تھا، سات ارکان
قومی اسمبلی کے علاوہ سینٹ کی دس سیٹوں پر بھی اس جماعت کا حق ہے ۔ اس کے
علاوہ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی
برائے امورکشمیرکے چیئرمین بھی ہیں۔ ان کے بھائی عطاالرحمن وفاقی وزیربرائے
سیاحت اوررحمت اللہ کاکڑ ہاوٴسنگ اور تعمیرات کے وفاقی وزیرتھے جنہوں نے
اپنے استعفیٰ وزیر اعظم کو بھجوا دیئے ہیں ۔ وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے
حال ہی میں جے یوآئی کے مولانا شیرانی کواسلامی نظریاتی کونسل کاچیئرمین
مقررکیا تھا۔
کچھ تجزیات یہ بات ببانگ دہل بیان کرتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں ایم ایم
اے کو طالبان سے ہمدردی کا نہیں، اصل میںملٹری الائنس کی وجہ سے ووٹ ملے۔
اس تجزیے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ صدر مشرف کو پارلیمنٹ اور صوبوں میں نیم
سیاسی نیم مولوی حضرات درکار تھے جن کے بل بوتے پر وہ امریکہ کے سامنے ایک
ہوا کھڑا کر سکیں۔
جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام اور تحریک و بانیان پاکستان کی مخالفت
جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دونوں نے تحریک پاکستان،بانی پاکستان
اور پاکستان کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔مولانا مودودی کی اس کتاب
کا اصل نسخہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے جس میں انہوں نے پاکستان کے بارے میں
انتہائی نازیبا ریمارکس دیے تھے۔پاکستان بنتے دیکھ کر اس کتاب میں تحریف کر
دی گئی اور یہ ریمارکس حذف کر دیے گئے لیکن قلم اور منہ سے نکلی ہوئی بات
آخر کیسے واپس ہو سکتی ہے۔
یہی قصہ جے یو آئی کا ہے جو کانگریس کا ایک دست و بازو تھی۔اور جس نے
قائداعظم کے سامنے گاندھی کا اوتار کھڑا کر رکھا تھا۔اس تجزیے میں علامہ
اقبال کی ایک رباعی بھی کام آ سکتی ہے۔جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ۔۔ز دیو
بند حسین احمد ایںچہ بو العجبیست۔۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ میرے بیشتر
قارئین کو اس کا مطلب نہیں آتا لیکن علامہ اقبال نے جن کے بارے میں یہ
رباعی لکھی تھی ان کو اس کی اچھی طر ح سمجھ آ جاتی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد بھی ان دونوں جماعتوں کو زیادہ عقل نہیں آئی۔کشمیر کا
مسئلہ پیدا ہوا تو مولانا مودودی نے جہاد کشمیر کے خلاف فتویٰ دے دیا اور
یوں پاکستان کی شہ رگ اور اس کے ایک اٹوٹ انگ پر کاری ضرب لگائی۔مولانا
مودودی نے یہ رکاوٹ نہ کھڑی کی ہوتی تو صرف قبائلی لشکری ہی نہیں پاکستان
کے چپے چپے سے مجاہدین کا بگولہ اٹھتا۔کشمیر میں ڈوگرہ اور بھارتی افواج کو
خس و خاشاک کی طرح " رول" دیتا۔کشمیریوں کی محکومی اور قتل عام کی ذمہ داری
بڑی آسانی سے مولانا مودودی کے اس فتوے پر ڈالی جا سکتی ہے۔
مولانا سمیع الحق کی پوزیشن بے حد کمزور ہے۔ان کا مدرسہ تو بڑا سادہ سا ہے
لیکن اس نے طالبان کی کئی نسلوں کی تربیت کی ہے اور افغانستان اور پاکستان
ہی نہیں پوری دنیا میں اس نے ایک فساد کی بنیاد رکھی ہے۔ان طالبان کی
فہرستیں آج بھی اکوڑہ خٹک میں جامع حقانیہ سے ملحقہ مدرسے کے ہر کلاس روم
کے باہر آویزاں ہیں۔اس فہرست کی روشنی میں مولانا سمیع الحق اور ان کے
خاموش طبع فرزند مولانا حامد الحق پر فرد جرم عائد کرنا مشکل کام نہیں ہونا
چاہیے۔
حافظ حسین احمد تو اتنا بولتے ہیں کہ ان کے خلاف مزید مواد کی ضرورت
نہیں۔ان کے خلاف اصل الزام یہی ہونا چاہیے کہ مولوی اور حافظ ہو کر سنجیدہ
نہیں ہیں اور مخولیہ طبیعت کے مالک ہیں۔جو شخص بات بات پر مذاق کرنے کا
عادی ہو،اس کی بات کو سنجیدگی سے کیسے لیا جا سکتا ہے،حافظ حسین احمد پر یہ
الزام بھی عائد کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسمبلی میں نہیں بولتے لیکن ہر ٹی وی
چینل پر چہکتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ تنخواہ تو پارلیمنٹ کے خزانے سے لیتے ہیں
لیکن اپنی صلاحیتوں کے جوہر ایوان سے باہر دکھاتے ہیں۔
مولویوں کے بارے میں عمومی تبصرے یہ بھی ہو سکتے ہیں۔ فتوے تو دے سکتے
ہیں،استعفے نہیں دے سکتے۔ان کا اپنا انجن جام ہے،پہیہ جام کیسے کریں
گے۔72فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، وہ ایک ایم ایم اے کی گدڑی میں اکٹھے کیسے رہ
سکتے ہیں۔حالیہ بلدیاتی انتخابات میں الگ الگ الیکشن لڑنے سے ان کی جو درگت
بنی ہے، خاص طور پر جماعت اسلامی کو جو سبق حاصل ہوا،اس سے اسے اپنی اوقات
سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے ۔سینیٹ کے الیکشن میں مولویوں نے کروڑوں
کی رقم حلوہ سمجھ کر ہضم کی ہے ،جہاں مسلم لیگ کا نام و نشان نہیں تھا،
وہاں سے سیف اللہ خاندان کی جیت اسی چمک کا نتیجہ ہی تو ہے۔
جماعت اسلامی اور جے یو آئی میں پاکستان کی مخالفت کے سوا کوئی قدر مشترک
نہیں۔مذہب سے ان جماعتوں کا کوئی لگاﺅ ہوتا تو مذہب دشمن تحفظ حقوق نسواں
بل پر یہ استعفے دینے میں دیر نہ کرتیں۔یہ جماعتیں دراصل اقتدار کی بھوکی
ہیں پارلیمنٹ سے ملنے والی مراعات کو چھوڑنا ان کے بس کی بات نہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے لئے ہوا صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے سینیٹرز خاندان جس
نے ڈیرہ اسماعیل خان سے ان کی سیاست کا صفایا کر دیا ہے۔اگر جونئیر سینیٹر
کو کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے تو اپوزیشن لیڈر کا تیا پانچاکرنے کے لئے
کسی اور کو زور آزمائی کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
دھشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے میں ایم ایم اے کی کس پارٹی نے اہم کردار ادا
کیا ہے۔۔ یہ بھی بڑے پتے کا سوال ہوسکتا ہے مگر اگر جواب دینے والا کوئی
جواب دینا چاہے۔ |